|

وقتِ اشاعت :   February 24 – 2018

جب دستور ساز کمیٹی نے جنوری 1952 ؁ میں اردو کو پاکستان کا واحد قومی زبان قرار دینے کی سفارش کی تو اس کے رد عمل میں 21 فروری 1952 ؁ کوڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا ء نے بنگالی زبان کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دلانے کی خاطرجلوس نکالا جس پر پولیس نے فا ئرنگ کی اور 5 طلبا شہید ہو گئے۔

ا گلے دن شہدا کے جنازے کے جلوس پر پھر فائرنگ کی گئی اور 4 طلبا ء مزید شہید ہوگئے۔اس وقت پاکستان میں بنگا لیوں کی تعداد 54 فیصد اور اردو بولنے والوں کی تعداد صرف 4فیصد تھی ۔1988 ؁میں کینیڈا کے رہنے والے ایک بنگالی رفیق الاسلام نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو خط لکھ کر استدعا کی کہ اقوام متحدہ کودنیا میں مادری زبانوں کوبچا نے کے لیئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔

اقوام متحدہ نے اس تجویز کو منظور کرتے ہوئے 21 فروری (ڈھاکہ یو نیورسٹی میں طالب علموں کے شہادت کا دن)مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا۔ اب اقوام متحدہ کی جانب سے ہرسال مادری زبانوں میں تعلیم کی اہمیت جتانے اور بہت سی زبانیں جو معدوم ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں کو بچانے کی خاطر یہ دن منا یا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں بھی مادری زبانوں کواپنا جائز مقام دلانے کا مسئلہ حل طلب ہے۔ پاکستان کے آئین کے آر ٹیکل 251 کلاز 3 میں مقامی(مادری ) زبانوں (Indigenous languages ) میں تعلیم اور انہیں اردو کے ساتھ ساتھ صوبائی زبان کادرجہ دلانے کا اختیار صوبائی حکومتوں کو دیا گیاہے۔سندھ میں اس آرٹیکل پر عمل ہورہا ہے۔خیبر پختونخوا میں صوبے کے تمام زبانوں کو لازمی مضمون کادرجہ دیکراسکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔

یہ بلو چستان کی صوبائی حکومت،ادیبوں،دانشوروں،اکیڈمیز ،طلباتنظیموں اورسیاسی پار ٹیوں میں فہم کی کمی ہے کہ نہ تو وہ اپنی زبان کو تعلیمی اور نہ صوبائی زبان کی حیثیت دلا سکے ۔پا کستان میں جو زبانیں مٹنے کے حقیقی خطرے سے دوچار ہیں ان میں بلوچی اور براہوئی دونوں شامل ہیں۔

اسکی چار بڑی وجوہات ہیں۔پہلی وجہ یہ ہے کہ بلوچوں کی آبادی کم ہے اور و ہ وسیع بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں،ملک کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ان میں تعلیم کی کمی ہے اور وہ شدیدغربت ، پسماندگی کی زندگی گزار نے پر مجبورہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ بلو چی ،براہوئی زبانوں کو ایران ،افغانستان اور پاکستان میں کہیں بھی، تعلیمی اور نہ صوبا ئی سرکاری زبان کا درجہ حا صل ہے ۔

تیسری وجہ ان زبانوں کی اپنی مار کیٹ کا نہ ہونا ہے ،کوئٹہ، زاہدان،کراچی ،ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد گو کہ بلوچ علاقے ہیں لیکن یہاں دوسری زبانیں حاوی ہیں۔ چو تھی وجہ یہ ہے کہ بلوچی ،برا ہوئی کی ہمسایہ زبانیں جیسے فارسی، پشتو،پنجابی ،سندھی ،ریاستی اور منڈی کی زبانیں ہیں، اسی لیئے بلو چستان کی سر حد وں میں رہنے والے بلوچ اپنی زبان ترک کرکے منڈی اورریاستی زبان اپنا نے پر مجبور ہیں۔

زبان کی یہ تبدیلی (convertion ) ہمیں سندھ، پنجاب، ایران اور افغا نستان میں لا کھو ں کی تعداد میں بلوچوں کی سندھی، پنجابی،فارسی اور پشتو اپناتے دکھائی دیتی ہے اور یہ عمل دھیرے دھیرے غیر محسوس انداز میں آج بھی جاری ہے۔

کسی زبان کو بچایا اور اس کے فوائد کو کیسے سمیٹاجا سکتا ہے اسکا ایک راستہ ہے ، کوئی دوسرا نہیں، کہ اسے تدریسی زبان کا درجہ دیا جائے۔اقوام متحدہ نے تعلیمی اور لسانی ماہرین کی کئی سالہ مشتر قہ ریسرچ کے بعد اعلان کیا کہ ’’ مادری زبان تعلیم کے لیئے سب سے اچھی زبان ہے‘‘۔

اس کے مطابق بچے جب اپنی مادری زبان میں تعلیم کی ابتدا کرتے ہیں تو اجنبیت محسوس نہیں کرتے وہ اسکول کے ہر عمل میں دلچسپی لیتے ہیں اور انکی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ما ہرین کے مطابق مادری زبان کی تعلیم سے اسکول چھوڑ نے کی شرح کافی کم ہو جاتی ہے۔

یونیسکو کہتی ہے آج دنیا میں 130 ملین سے زیادہ بچے اسکول سے با ہر ہیں مادری زبان ہی انکی تعلیم تک رسائی کی بنیادی حکمت عملی ہے۔مادری زبان کی بجائے دوسرے زبان میں اگر تعلیم کی ابتدا ہو تو بچے کویہ پیغام مل جا تا ہے کہ اسکی اپنی زبان کمتر ہے، یعنی اس میں تعلیم نہیں دی جا سکتی اسلیئے اسے دوسری زبان میں تعلیم دی جا رہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ منفی پیغام بھی مل رہا ہو تا ہے کہ وہ خود کم تر ہے اور جس ثقافتی سر مائے سے اسکا تعلق ہے وہ در اصل سر مایہ نہیں بلکہ شر مندگی کا بوجھ ہے جو وہ اٹھا ئے پھر تا ہے۔اس کے علا وہ یونیسکو کے مطابق مادری زبان میں تعلیم سے بچوں کی تخلیقی اور تحقیقی صلا حیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اور وہ دوسری زبانیں جیسے انگریزی،اردو بھی بہ نسبت ان بچوں کے جو تعلیم کی ابتداکسی اور زبان میں کرتے ہیں، بہتر سیکھ سکتے ہیں۔

یونیسکو کہتی ہے :۔ (Years of research have shown that children who begins their education in their mother tongue make a better start and continue to perform better than those for whom school start with a new language. This conclution is now widly implemented,although we still hear of Governments who insist on imposing a foreign language of instruction on young children, either in a mistake attempt at moderanity or to express the pre-eminence of a social dominant group.)

ترجمہ :۔’’بر سوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیاکہ جو بچے اپنے مادری زبان میں تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی انکی کار کردگی بہتر ہوتی ہے اور انکی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے ، بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔اب اس نتیجہ پر ہر کہیں عمل ہورہا ہے۔اگرچہ ہم اب بھی ایسی حکو متوں کے بارے سنتے ہیں جو بچوں پر دوسری زبان تھوپنے پر اسرار کرتے ہیں ۔وہ ایسا یا تو غلطی سے جدیدیت کی خاطر کررہے ہوتے ہیں یا سماجی طور پر حاوی گروہ کی زبان کوفو قیت دینے کی خاطر۔‘‘

بھارت جو ہمارا ہمسایہ ہے میں اس وقت 80 مادری زبانوں میں تعلیم دی جا رہی ہے اور وہاں کی 26 زبانوں کو قومی زبان کا درجہ مل چکا ہے۔اسی طرح یو کے، کینیڈا،ناروے،جنوبی افریقہ ہر کہیں ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہیں اور ان میں تعلیم دی جاتی ہے۔

کہیں اخبار میں پڑھا کہ ایک بار برطانیہ کا وزیر تعلیم پا کستان آیا اسے ایک اسکول کا معائنہ کرایا گیاجہاں چھوٹے بچوں کو انگریزی میں تعلیم دی جارہی تھی۔پھر اس سے تاثرات پوچھے گئے،اس نے کہا’’ اگر میں برطا نیہ جاکر یہ تجویز دوں کہ چھو ٹے بچوں کو مادری زبان کی بجائے کسی دوسری زبان میں ابتدائی تعلیم دی جائے ،تو یقیناًوہ مجھے نفسیاتی ڈاکٹرسے معا ئنہ کا مشورہ دیں گے‘‘۔

ٍٍٍٍٍبلوچ تین بڑی زبانیں بلوچی،براہوئی اور سرائیکی بولتے ہیں۔لاسی، کھیترانی، سرائیکی ایسے قریب ہیں جیسے سلیمانی،مکرانی اور رخشانی بلوچی ہیں۔اس کے علاوہ دہواری اور سندھی بھی بولی جاتی ہے ، بلو چی آپس میں رابطے کی زبان ہے۔

بلو چستان میں ابتدائی تعلیم ان زبانوں میں دی جانی چا ہیئے ۔ پاکستان میں ایک ملک ایک زبان کا بیانیہ سود مندثابت نہیں ہوا۔جدید تحقیق سے ثابت ہواکہ زیادہ زبانیں نقصان کی بجائے فائدہ مند ہوتی ہیں، انہیں مجموعی قومی ثقافتی زر خیزی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا مٹ جاناقومی نہیں بلکہ بین ا لاقوامی میراث کے مٹ جانے کے مترادف ہے۔

ما ہرین کے مطابق دنیاکی ثقا فتی صورت ایک خو بصورت قا لین کی مانند ہے ایک زبان کے مٹ جا نے کے معنی قا لین کے ایک رنگ کا اتر جانا ہے۔زبانیں قومی بقا اور شناخت (Identity ) کی ضامن ہیں، ان میں تاریخ ،ثقافت،اقدار ،روایات اور ادراک (wisdom ) کاایک بے بہا خزانہ موجود ہے۔

زبانوں کی اہمیت کے بارے لوگوں کو آگاہ کرنا لازم ہے،خا ص کر والدین،اساتذہ اور طالبعلم اسکی افادیت اور اہمیت سے آگاہ ہوں ۔بلوچی زبان کے املا کامسئلہ حل طلب ہے ۔ ادیبوں کامتفق نہ ہونا المیہ نہیں تواور کیاہے۔

مشکل کام ابتدا کرنے کی ہے،پھر بہتری آہستہ آہستہ آتی ہے۔ بنیادی ادارے کی حیثیت سے یہ کام بلوچی اکیڈمی کوئٹہ کا ہے کہ وہ املا کا فیصلہ کرے اور صوبائی حکومت کو قائل کرے کہ ’’ مادری زبان تعلیم کے لیئے سب سے اچھی زبان ہے‘‘۔