صدیق بلوچ ایک ایسا نام جو صحافت خصوصاً بلوچستان کی صحافت میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا بلوچستان کے صحافی اُنہیں ’’لالہ ‘‘اور سندھ کے صحافی ’’ماما‘‘ کے نام سے پکارتے تھے ۔ لالہ صدیق بلوچ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں وہ کوئٹہ کے صحافیوں کو اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ کوئٹہ سے بلوچستان ایکسپریس کی اشاعت کے ساتھ ہی انہوں نے یہاں کے صحافیوں کے ساتھ ایسا رابطہ اور شفقت کا اظہار کیا کہ کچھ ہی عرصے میں ہم سب دوست اُن کے گرویدہ ہوگئے ہم نے لالہ صدیق بلوچ مرحوم کو ایک اچھا دوست صحافی اور پیار و محبت کرنے والا بزرگ پایا وہ ہمیں اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے ۔
غصہ بھی کبھی کسی خبر پر کرتے تو ایسے اندا زمیں کہ ہمیں محسوس بھی نہ ہو اور بات بھی سمجھ میں آجائے وہ بڑے پیار سے ہمیں سمجھاتے ، مجھے یاد ہے کہ وہ کراچی سے سندھ ایکسپریس ختم کرکے کوئٹہ آئے اور یہاں سے انہوں نے بلوچستان ایکسپریس کے نام سے انگلش نیوز پیپر شروع کیا تو پہلے اُن کا آفس سورج گنج بازار میں تھا جہاں ان کے بھائی اسلم جنگیان کے ہمراہ میں اُن سے ملا ۔
پہلی ملاقات میں ان کا رویہ میرے ساتھ ایسا تھا جیسا کہ ہماری بہت پرانی جان پہچان ہو میں ’’لالہ‘‘ کے اس رویے سے بہت ہی متاثر ہوا ۔ بعد ازاں اُن کے صاحبزادے آصف بلوچ ، عارف بلوچ اور طارق بلوچ سے میری دوستی ہوگئی اور میرااُن کے آفس میں آنا جانا بہت ہوگیا اسکے بعد وہ آفس تبدیل کرکے فاطمہ جناح روڈ پر آگئے یہاں بھی ہمارا آنا جانا بہت رہا ۔
لالہ صدیق بلوچ کے ساتھ گپ شپ میں بڑا مزہ آتا تھا ہم اکثر ان کے ساتھ بیٹھک کرتے ماضی کی سیاست اور دیگر موضوعات پر کھل کر بات کرتے اسی طرح صوبے کی اس وقت کی سیاست پر بھی لالہ سے گفتگو کرتے، انہیں اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں دی تھیں وہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں ۔
لالہ صدیق بلوچ نے سریاب روڈ سنجرانی اسٹریٹ میں اپنے اخبار کا دفتر بنایا اور اوپر کی منزل میں رہائش کی جگہ بھی بنائی جہاں پر اتوار کو مچھلی کی بریانی اور مرغی کی بریانی کی محفلیں منعقد ہونا شروع ہوگئیں ۔
کوئٹہ کے صحافی ،بعض دانشور اور ادیبوں کو بھی اس محفل میں مدعو کیا جاتا کھانا پینا تو ایک بہانہ تھا اصل میں ’’لالہ‘‘ سب کو یکجاء کرتے تھے اس محفل کا مقصد آپس میں پیار محبت کو دوام دیناتھاایک دوسرے کو سمجھنا اور گپ شپ لگانا تھامیں اور میرے بعض دوست اس محفل میں اکثر مدعو ہوتے تھے ۔
اتوار کی دوپہر سردی ہویا گرمی کاموسم ہو ہم اس کے منتظر ہوتے تھے ان محفلوں میں ہماری کئی ایسے نوجوان لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جن کا آج صحافت میں ایک نام ہے یہ نوجوان ’’لالہ‘‘ کے پاس ہی رہائش پذیر تھے ۔
لالہ ان سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے ان کے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات اور شام کو انہیں اپنے آفس میں اخبار کے کام کی ٹریننگ دیتے آج و ہی نوجوان صحافت سمیت دیگر اداروں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے بھی کچھ عرصے بے روزگاری میں لالہ صدیق بلوچ کے زیر سایہ آزادی اخبار میں کام کیا میں نے لالہ صدیق بلوچ میں باپ کی شفقت ، دوست کا پیار اور ایک اچھے استاد کی خاصیت پائی میں اکثر ان سے فری گپ شپ بھی کرتا اور وہ ہنستے ہوئے مذاق میں کئی ایسی باتیں بھی کرتے جو قریبی دوست ہی ایک دوسرے سے کرسکتے ہیں ۔
اکثر وہ میری روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والی سیاسی ڈائری کے حوالے سے فون کرکے حوصلہ افزائی بھی کرتے اور کہتے کہ آج تمہاری سیاسی ڈائری پر کافی گرفت تھی ۔ ان کے یہ الفاظ ہی میرے لیے ایسے ہوتے تھے کہ میری پورے ہفتے کی تھکن دور کردیتے اور میں بھی اپنے آپ کو ’’بڑا لکھاری ‘‘سمجھنے لگتا کہ ایک ایسی شخصیت میری تعریف کررہی ہے تو میں ۔۔۔۔؟
میں ان کے چھوٹے بھائی اسلم جنگیان کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے لالاہ صدیق بلوچ جیسی شخصیت سے پہلی مرتبہ متعارف کرایا لالہ صدیق بلوچ کے صاحبزادے میرے اچھے دوستوں اور ہمدردوں میں شمار ہوتے ہیں۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں لالہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے لالہ صدیق بلوچ اکثر پریس کلب آجاتے تو وہ میرے پاس ضرور آتے تھے چائے کے کپ پر ہماری گپ شپ ہوتی اور کچھ ماضی کی باتیں ۔
ہم ہمیشہ لالہ کی یہ بات کرکے بہت محظوظ ہوتے تھے کہ لالہ نے ایک شرط رکھی ہے کہ اگر ان کے دیرینہ دوست اور ہمارے سینئر صحافی سلیم شاہد کو کسی نے رکشے میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو لالہ کایہ اعلان ہے کہ وہ اُنہیں رکشے میں دیکھنے والے کو انعام کے طور پر پانچ سو روپے اپنی جیب سے دینگے اور یہ شرط ان کے بیٹے آصف بلوچ نے جیتی تھی ۔
مجھے لالہ کے صاحبزادے آصف بلوچ کہتے رہتے تھے کہ لالہ آپ کو اور عرفان سعید کو اکثر یاد کرتے ہیں اور حال احوال پوچھتے ہیں جو کہ اُن کا ہم سے اپنائیت اور پیار کے رشتے کی عکاسی کرتا ہے اور مجھے ہمیشہ یہ دکھ رہے گا کہ میں اور میرے پریس کلب کے دوست لالہ صدیق بلوچ کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کرنا چاہتے تھے جس میں ہم اُنہیں صحافت کے میدان میں خراج تحسین پیش کرنا چاہتے تھے ۔
میری ایگزیکٹو باڈی نے بھی لالہ صدیق بلوچ سمیت دیگر سینئر صحافیوں کے اعزاز میں ایسی تقریب کا انعقاد کی باقاعدہ منظوری دی تھی ہم لالہ صدیق بلوچ سے اس تقریب کے لئے وقت مانگ رہے تھے اور مجھے ان کے صاحبزادے آصف بلوچ نے بتایا کہ لالہ صدیق بلوچ کا یہ کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی تقریب میں نہ جائیں لیکن اگر رضاء الرحمان اُنہیں بلا رہا ہے تو وہ ضرور جائیں گے ۔
اس دوران وہ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے کراچی چلے گئے جہاں سے تین دن بعد اُن کی وفات کی افسوسناک خبر آئی ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اُنہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطاء فرمائے ،امین ۔ گو کہ وہ جسمانی طو رپر ہم سے جدا ہوئے ہیں لیکن اُن کی باتیں اُن کی تحریر یں اُن کی شفقت اور پیار و محبت زندگی بھر ہمیں ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔
رضاء الرحمن صدر کوئٹہ پریس کلب جبکہ ایکسپریس نیوزکے بیوروچیف ہیں ۔