منگل 06 فروری کو جب لالا صدیق بلوچ کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر اڑتی ہوئی آئی تو پھر سوشل میڈیا کا رنگ یکسر بدلنے لگا ۔ لوگوں نے لالا کی تصاویر کو اپنا پروفائل بنانا شروع کر دیا اور پھر تعزیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔
78 سالہ لالا صدیق بلوچ کی موت کا خبر سن کر میرے ذہن میں ماضی کی یادیں انگڑائی لینے لگیں وہ دور یادآنے لگا جب علمی و ادبی تحریریں پہنچانے ان کے دفتر سریاب روڈ کوئٹہ جانا پڑتا تھاجہاں بمشکل ان سے باقاعدہ ملاقات ہوپاتی تھی کیونکہ اکثر اوقات وہ بلوچستان کا دکھ درد رقمطراز کرتے ہوئے پائے جاتے تھے۔ ان کا پورا نام ویسے تو محمد صدیق بلوچ تھا لیکن بلوچستا ن اور یہاں کے لوگوں سے ان کی بے پناہ محبت کے سبب لوگ ان کو لالا صدیق بلوچ کے نام سے پکارتے تھے۔
1940 کو کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہونے ہونے والے لالا صدیق بلوچ نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کراچی ہی میں1968 کو انگریزی اخبار ڈان سے کیا جس کے لیئے انہوں نے بطور رپورٹر کام کیا۔
70 ء کے عشرے میں جب اس وقت کے گورنربلوچستان میر غوث بخش بزنجو دورہ گوادر کے موقع پر محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ کی علالت کے باعث عدم موجودگی پرمکمل کوریج کے متمنی تھے تو یہ ذمہ داری لالا صدیق بلوچ نے لی ۔
جس کی بہترین طریقے سے ادائیگی نے گورنربزنجو کے دل میں لالا صدیق بلوچ کے لیئے جگہ بنائی اور پھر گورنر نے اگلے ہی روز انھیں اپنے پاس بلا کر اپنا پریس سیکرٹری مقررکردیاجس کے سبب لالا صدیق بلوچ کو ڈان اخبار سے اپنی وابستگی ختم کرنا پڑی لیکن پھر حیدرآباد سازش کیس میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں سمیت لالا صدیق بلوچ کو بھی گرفتار کرکے تین سالوں تک جیل میں رکھا گیا
اس دوران انھیں سلطانی گواہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن وہ ڈٹے رہے تاہم بعد ازاں انھیں رہا کردیا گیا جس کے فوری بعد انہوں نے ڈان اخبار کے لیئے دوبارہ کام کرنا شروع کردیا۔
1990 کو انہوں نے کوئٹہ سے بلوچستان ایکسپریس کے نام سے ایک انگریز ی اخبار نکال کر صوبے میں انگریزی صحافت کی بنیاد رکھی ۔
نائن الیون کے بعد 2002 کو جب امریکی فورسز نے افغانستان پر حملہ کیا تو لالا صدیق بلوچ نے پہلی بار اپنے اخبار کی ویب سائٹ بھی کھولی تاکہ پورے خطے کے قارئین اس کو پڑھ سکیں۔
انہوں نے 2002 کو ہی کوئٹہ سے اردو اخبار روزنامہ آزادی کا اجرا ء کیا جس نے کم مدت میں صوبے کے طول و عرض میں مقبولیت حاصل کی۔
اپنے اردواخبار کی توسط سے لالا صدیق بلوچ نے نہ صرف بلوچستان کے مسائل کواجاگر کیابلکہ صوبے میں لکھنے کے خواہشمند نوجوانوں کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی جس کی ایک مثال خود راقم الحروف ہیں۔
لالا صدیق بلوچ نے بلوچستان ایکسپریس اور روزنامہ آزادی میں اپنے اداریوں(editorials) کے ذریعے بالادست طبقے کو للکار ا اور جب 2006 کو ڈیرہ بگٹی کے قریب ایک فوجی آپریشن میں بزرگ بلوچ سیاستدان نواب اکبر خان بگٹی ماردئیے گئے تو لالا صدیق بلوچ نے اپنے اخبارات کی ہیڈلائنز میں نواب بگٹی کو شہید لکھا جس کی پاداش میں انھیں کئی سختیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ کلمہ حق صفحہ قرطاس پر رقم کرتے رہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے صوبے کی سیاست، جغرافیائی اہمیت ،معیشت اور بدلتے حالات پر دو انگریزی کتابیں بھی لکھیں۔روزنامہ آزادی کا اجراء ایک ایسے دور میں ہوا تھا جب بلوچ طلباء کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی صوبے میں حقوق کے حصول کی تحریک عروج پر تھی جن کے اہم مراکز سریاب روڈ پر واقع بلوچستان یونیورسٹی اور گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ تھے جہاں سے لالا صدیق بلوچ کا دفتر بھی قریب تھا۔
بی ایس او کی ساری سرگرمیاں اور بیانات روزنامہ آزادی میں موزوں صفحات پر شائع ہوتے تھے جس کی وجہ سے طلباء نے اخبار میں کالمز لکھنا بھی شروع کیااور پھر یہ بلوچستان کی نوجوانوں کے لیئے اہم نرسری ثابت ہوئی جہاں سے پرورش پاکر بہت سارے نوجوان اب ملک اور بیرون ممالک کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز میں کام کرتے ہیں۔طلباء اور بلوچ سیاسی کارکنوں کے اجلاس، تربیتی نشستوں، جلسوں اور علمی سرکلز میں روزنامہ آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کی خبریں بالخصوص ان میں لکھے جانے والے لالا صدیق بلوچ کے اداریئے موضوع بحث ہوا کرتے تھے۔
لالا صدیق بلوچ اب ہم میں نہیں رہے لیکن جب بھی ان کی خدمات اور قربانیوں کے متعلق سوچتا ہوں تو ایک جملہ میرے ذہن میں گردش کرتا ہے کہ ’’آپ ہی نے ہمیں زبان دی تھی‘‘ ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ لالا صدیق بلوچ نے جامع انداز سے بلوچستان کا کیس قومی اور عالمی سطح پرآشکار کیا جس کے لیئے انہوں نے اپنی بیماری کو بھی آڑے آنے نہیں دیا۔
آخری ایام میں جب کینسر کے سبب ڈاکٹرز نے انھیں کوئٹہ میں رہنے سے منع کیا تھاتو اس کے باوجود انہوں نے کوئٹہ میں قیام کرکے بلوچستان ایکسپریس کے لیئے اداریے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھاجس کے سبب ان کی طبیعت بگڑ گئی۔
یہاں تک کہ جب وہ کراچی کے لیاقت نیشنل ہسپتال میں بستر مرگ پر تھے تب بھی انہوں نے ڈاکٹرز سے مطالبہ کیا تھاکہ انھیں لیپ ٹاپ رکھنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ بلوچستان کا دکھ درد لکھ سکے لیکن افسوس کہ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی لیکن جاتے جاتے انہوں نے لکھنے والوں کا ایک جم غفیر چھوڑ دیا ہے جو ان کے بعد ان کا مشن جاری رکھیں گے۔