|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2018

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدیق بلوچ صاحب کے انتقال سے بلوچستان کی صحافت میں جو خلاء پیدا ہوا وہ مدتوں پر نہیں ہوگا،،یہ صرف کہنے کی بات یا لفاظی نہیں ہے،،،یہ وہ بات ہے کہ جو حقیقت پر مبنی ہے،،ان کا انداز صحافت جس طرح کاتھا،،وہ انداز آج کی تیزررفتار زندگی بلکہ صحافت میں خال خال ہی ملتاہے،،،،اور بلوچستان کہ جہاں صحافت صحیح معنوں میں جوئے شیرلاناکے برابر ہے اور۔۔۔صحافت گہہ الفت میں قدم رکھناہے۔۔۔۔۔

لالہ صدیق کی شخصیت کے تناظر اورخاص طورپر وہ جو لوگ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں،،،،،لہذا اس کی توجیح پیش کرنا ضروری نہیں،،،،مگر اس شعبے میں نئے افراد کیلئے شاید یہ جانناضروری ہے کہ لالہ صدیق بلوچستان میں حقائق اورتحقیق پر مبنی صحافت کے علمبردار تھے،،،کوئی خبر ہو یا اداریہ،، ہر قسم کے مشکل اور پیچیدہ موضوع پر ان کاانداز مدلل ہوتا،،،انہیں ہر بات ہر پہلو سے صاف اور واضح انداز میں بیان کرنے پر ملکہ حاصل تھا،،،اپنی خبر میں اعدادوشمار۔۔فیکٹ اینڈ فیگرز۔۔۔پر مبنی حقائق کو سامنے لانا، انہی کا خاصہ تھا،،،

مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں ان کی کئی اسٹوریز/خبروں اور اداریوں سے رہنمائی حاصل کرتاتھا،،،،این ایف سی ایوارڈ سے متعلق کوئی خبر ہو یا سیندک،ریکو ڈک،سی پیک یادیگر کوئی اہم منصوبہ ،ان کے پاس اس حوالے سے زبردست معلومات ہواکرتی تھیں،،دوسری جانب ایک سینئر ترین صحافی اور اخبارات کے مدیر ہونے کے ناطے وہ ہر موضوع پر مدلل انداز میں گفتگو بھی کیاکرتے تھے،،،

کوئی پروگرام ہو ،ڈائیلاگ یا سیمینار ان کے بات کرنے کااپناایک انداز تھا،،،اور ان کی بات میں موضوع کے اعتبارسے وزن سے کس کو انکارہوسکتاتھا،،،،انہیں اپنی تحریر اور بیان پر تو ملکہ حاصل تھا ہی مگر ایک خاص بات جس کا دیگرسینئر صحافی بھی اقرار کریں گے کہ انہوں نے کبھی جونئیر صحافیوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی میں بخل سے کام نہیں لیا،،اچھے کام یا خبر پر ہمیشہ ان کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرتے،،جو کہ آج کے دور میں بمشکل نظر آتا ہے،،

حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہئے،،،اچھے کام کو سراہاجاناچاہئے ،، مجھے یاد ہے کہ کئی سال پہلے وفاقی بجٹ سے پہلے کوئٹہ سیرینا ہوٹل میں ایک پری بجٹ سیمینار ہوا، غالباً عمرایوب وفاقی وزیریاوزیرمملکت خزانہ تھے،،وہ اور اقتصادی اور سماجی امور کے کئی ماہرین بھی اس سیمینار میں شریک تھے،،،میں نے اس سیمینار اور اس میں ہونے والی بحث اور تجاویز پر بلوچستان ٹائمز کیلئے ایک رپورٹ تیارکرناتھی،،،بہرحال میں نے رپورٹ تیار کی،،، وہ اگلے دن بی ٹی میں لیڈ لگی،،،

لالہ نے بھی اس پر اپنی اسٹوری بنائی اور وہ بھی ایکسپریس میں لیڈ لگی،،،مگر لالہ کایہ بڑا پن تھا کہ انہوں نے ایک جگہ ملاقات میں میری اسٹوری کی خوب تعریف کی،،،یقین جانئے میری خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہیں تھا،،اس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ اس بات کو ایک طویل عرصہ گزرگیامگرلالہ کی یہ تعریف مجھے آج بھی یاد ہے،،،،اسی طرح وہ کسی پریس کانفرنس میں یاسیمینار میں بات یاسوال پر بھی تعریف میں دیر نہیں لگاتے تھے،،

میں 2008میں بلوچستان میں لیویز کے نظام ،تاریخ اوردیگر مسائل پر مبنی ایک تحقیقی رپورٹ پر کام کررہاتھا،،،،،،اس میں جہاں دیگر بہت سے سینئر لوگوں کی آراء لیں وہیں لالہ صدیق سے بھی بات ہوئی،،،ان کابھی نقطہ نظر اور رہنمائی حاصل کی،،،جو اس رپورٹ کاحصہ ہے،،،،

اسی طرح سیندک منصوبے کو دوبارہ چین کی ایک کمپنی ایم سی سی کے حوالے کیاجارہاتھا،،ایم سی سی کے صدرکی سیندک میں بریفنگ تھی،،اس موقع پر میں نے ان سے سیندک میں ریفائنری کے قیام سے متعلق سوال کیا،،کہ کمپنی وہاں ریفائنری کیوں قائم نہیں کرتی ، اس سے آگے جاکر بلوچستان کو بھی فائدہ ہوگا،،،اسی طرح کی بات تھی،،،کمپنی کاصدر کوئی واضح جواب نہیں دے سکا،،تاہم میرے سوال کی لالہ نے بیحدتعریف کی،،،یہی ان کا خاصہ تھا،،،

لالہ صدیق ایک بہترین صحافی تو تھے ہی،،مگر ایک اور قابل ذکر بات جو ان کی شاندار شخصیت کاخاصہ تھا،،وہ تھا ان کا خوش لباسی کاذوق،،،کوئی تقریب ہوتی یاسیمینار یاپریس کانفرنس وہ ہمیشہ پینٹ کوٹ میں نظرآتے،،،،،،،،وفات سے چند روز قبل اسی کمپنی کی جانب سے ایک عشائیہ میں ،لالہ ،سلیم شاہدصاحب،شہزادہ ذوالفقارصاحب،عرفان سعید،علی شاہ کے علاوہ میں اور لالہ کاصاحبزادہ ظفر بھی شریک تھے،،سیندک منصوبے کے حوالے سے غیررسمی بات چیت ہوئی،،،اس دن لالہ مجھے قدرے خاموش دکھائی دئیے تھے،،،مجھے اورباقی ساتھیوں کو کیاخبرتھی کہ یہ ان سے آخری ملاقات ثابت ہوگی،،

لالہ صدیق بلوچ کاانتقال یقیناًان کے اہل خانہ،بچوں اوردیگرعزیزواقارب کے علاوہ صوبے کی صحافی برادری کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے،،،اور میں ایک بار پھر اپنی یہ بات دہراؤں گا کہ لالہ صدیق بلوچ کے انتقال سے پیدا ہونیوالاخلاء مدتوں پر نہیں ہوگا۔۔۔مگر میرے لئے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ ان کے بلوچستان ایکسپریس اور آزادی اخبار کی صورت میں لگائے گئے پودے اب تناورشجربن چکے ہیں،،،،ان کے بچے عارف،آصف،طارق،ظفراورصادق اس قابل ہیں کہ وہ ان درختوں کی اچھی طرح آبیاری کریں گے ، اس طرح لالہ صدیق بلوچ کا نام بلوچستان اور پاکستان کی صحافت میں زندہ رہے گا۔