|

وقتِ اشاعت :   February 28 – 2018

عاصمہ جہانگیر کی وفات کے بعد سوشل میڈیا پرہزاروں کی تعداد میں لوگوں نےR.I.P (ان کی روح کو سکون نصیب ہو)لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ،مگر ان الفاظ سے مفہوم ادا نہیں ہوتا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب تک ایسے لوگ موجود ہیں جن کے انسانی اور مذہبی حقوق کو ریاست اور انتہا پسند عسکری گروپوں کی طرف سے خطرہ ہے ،عاصمہ کی بے سکون روح کو کیسے سکون مل سکے گا۔شاید کبھی نہیں۔

عاصمہ،انسان دوست اور سیکولرسٹ تھیں جو جمہوری قدروں پر بہت پختہ یقین رکھتی تھیں۔وہ پوری طرح سے سمجھتی تھیں کہ جمہوریت ارتقائی منازل طے کرتی ہے، یہ انقلاب سے نہیں آتی۔اس سوچ نے انھیں پاکستان کے آئین کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمہوری عمل کی ہر خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا۔انھوں نے جہاں بھی یہ محسوس کیا کہ آئین ،غیر مسلم پاکستانیوں اور دیگر محکوم لوگوں کو مساوی حقوق نہیں دے رہا ،انھوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلان نامے کے مطابق آئین میں ترمیم کا تقاضا کیا۔

بہت سے ناقدین — دانستہ یا نادانستہ—- سیاسی نظام میں تبدیلیوں کی حمایت اورسسٹم کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے جوڑ توڑ کی مخالفت کرنے پر ان پر تنقید کرتے ہیں۔بعض اس حد آگے چلے گئے کہ انھوں نے فرمان جاری کر دیا کہ وہ ایک اچھی مسلمان نہیں ہیں یا یہ کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف بھارت کے ایجنڈا میں آسانی پیدا کی۔اس کے لیے وہ شیو سینا کے لیڈروں کے ساتھ ان کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہیں۔
میں سب سے پہلے آخری الزام کی بات کروں گا۔یہ لوگ بھول گئے کہ انسان دوست اور حقوق انسانی کی فعال کارکن کی حیثیت سے وہ ہر قسم کے لوگوں سے ملاقات کرتی تھیں ،وہ ایسا کیے بغیر کسی بھی ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ان ناقدین کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی عاصمہ جہانگیر رپورٹ کا حوالہ دینا چاہیئے،جس میں بھارتی حکومت کی زیادتیوں کے خلاف بہت سخت باتیں کہی گئی ہیں۔

میمو گیٹ کیس میں پاکستان کےbad boy ،حسین حقانی کا دفاع کرنے پر جنگی معیشت کے طفیلیوں کی طرف سے ان پر سخت تنقید کی گئی تھی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک قانون دان ہونے کی حیثیت سے انھیں کسی کا بھی ،خواہ وہ قتل ہی کا ملزم کیوں نہ ہوتا،دفاع کا حق تھا۔مگر اس کیس میں انھوں نے دیکھا کہ سارا میمو گیٹ اسکینڈل ،اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف، جنرل شجاع پاشا کا اسٹنگ آپریشن تھا۔

ایک بے داغ کردار کے حامل پولیس افسر،طارق کھوسہ نے بھی میمو گیٹ کمیشن کا سربراہ بننے سے انکار کردیا تھا ، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ کسی دوسرے کو نشانہ بنانے لیے اپنا کندھا استعمال کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔

انھوں نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں اس معاملے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔اعلیٰ عدلیہ نے ایک بار پھر میموگیٹ کیس کو زندہ کر دیا ہے،میں حیران ہوں کہ کیا اعلیٰ عدلیہ اُن لوگوں کے خلاف بھی کیس چلائے گی جنھوں نے امریکی میرینز کی طرف سے اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے ان کے گھر پر حملہ کے دوران انٹیلجنس اور سیکیورٹی کی ناکامی کو پارلیمنٹ کے سامنے قبول کیا تھا۔

جن لوگوں کے خلاف توہین کے متنازع قوانین کے تحت مقدمے بنائے گئے ان کا دفاع کرنے پر انھیں اسلامی عسکریت پسندوں کے غیض و غضب کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اس معاملہ میں انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں،مگر ایک سیکولرسٹ کی حیثیت سے وہ اپنے نظریات پر ثابت قدم رہیں اور ملزموں کا دفاع کیا ۔یہاں مجھے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شہید راشد رحمان یاد آ رہے ہیں جنھوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملتان میں اس قسم کے ایک کیس کا دفاع کیا۔

اس کے لیے انھیں اپنی جان قربان کرنا پڑی۔اس کے بعد ملتان میں کوئی وکیل توہین کے ملزم کا دفاع کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ بار میں پمفلٹ بانٹے گئے تھے کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا انجام راشد رحمان جیسا ہو گا۔

عاصمہ اس صورت حال سے بہت پریشان تھیں تاہم انھوں نے ملزم کے لیے ایک وکیل کا انتظام کیا اور اسے تحفظ فراہم کیا۔انتظامیہ اور عدلیہ نے راشد رحمان کے قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ایسے بہت سے لوگ ہیں جو جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور کچھ کو اسلامی عسکریت پسندوں نے مار دیا۔جب تک لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں ہو گی،عاصمہ کی روح کو سکون نہیں ملے گا۔

اُن پر سپریم کورٹ کے28جولائی کے اُس فیصلے کی مخالفت کرنے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے،جس کی رو سے وزیر اعظم کو نا اہل کر دیا گیا تھا۔وہ اس فیصلہ کے میرٹس پر تنقید کرنے والی واحد قانون دان نہیں تھیں، یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ڈاکٹر پرویز حسن جیسے ممتاز وکلا نے یہ لکھا کہ اس فیصلہ میں سقوم ہیں۔

” قابل وصولی” کی تشریح انکم ٹیکس قوانین کے مطابق نہیں ہے۔اس کے علاوہ،اعلیٰ ترین عدالت کے نگران جج کا تقرریا نیب کی طرف سے شریف خاندان کا ٹرائل کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔

میرے قریبی دوست جسٹس صبیح الدین احمد نے کہا کہ ججوں کو نہ صرف انتظامیہ سے الگ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ طے شدہ قوانین کی حدود کے اندر رہتے ہوئے،کسی دباؤ کے بغیر اپنی سوچ کا اطلاق کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بھی آزاد رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر بہت کم وکلا میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف میڈیا کے سامنے بولنے کا حوصلہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں عزت مآب ججوں کا موڈ خوشگوار رکھنا ہوتا ہے۔مگر عاصمہ اپنے دل کی بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئیں،خواہ اس کا تعلق سول یا فوجی حکومت سے یا عدالتی زیادتیوں سے تھا۔

بعض ٹی وی صحافیوں کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ساتھ ان کے خوشگوار تعلقات پر بھی اعتراض تھا۔انھیں اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں کہ انھیں سب سے پہلے عاصمہ جیلانی کیس میں شہرت ملی تھی،جس میں سپریم کورٹ نے جنرل محمد یحیٰی خان کو غاصب قرار دیا تھا۔(مگر جنرل گل حسن کی طرف سے ایک اندرونی بغاوت میں یحیٰی خان کو ہٹا دینے کے بعد بھی عدالت اس غاصب کو سزا دینے کا حوصلہ پیدا نہ کر سکی)۔

عاصمہ نے پہلے یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیاتھا جس میں ان کے محترم والد،ملک غلام جیلانی کی گرفتاری کو چیلنج کیا گیا تھا۔ان پر یہ الزام تھا کہ انھوں نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ہائی کورٹ نے ان کی داد رسی نہ کی،مگر جب یحیٰی خان کو ہٹا دیا گیا تو اپیل سپریم کورٹ کے سامنے آئی اور جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے ،مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔

پاکستان میں تمام باضمیر لوگوں کا خیال ہے بنگلہ دیش نے 24 سال تک نا انصافیاں برداشت کرنے کے بعد آزادی کی جدو جہد کی۔حال ہی میں نواز شریف نے زور دیا کہ اس بات کا تجزیہ کرنے کے لیے اپنے گریبان میں جھانکا جائے کہ بنگلہ دیش نے آزادی کی جنگ کیوں لڑی تھی۔بعض انتہا پسند قوم پرست اب انھیں بھی پنجاب کا مجیب الرحمان قرار دیتے ہیں۔

آزادی اظہار اور حقوق انسانی پر ان کا یقین اس قدر پختہ تھا کہ وہ الطاف حسین کی تقریروں پر پابندی کے خلاف کھڑی ہو گئیں۔ انھوں نے دائیں بازو کے بعض عسکریت پسند گروپوں کے جبری لاپتہ لوگوں کے کیس بھی لیے ۔ انھوں نے ایم کیو ایم یا جماعت الدعوۃ جیسے گروپوں کے ساتھ سیاسی اختلاف رائے کے باوجود یہ سب کچھ کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس اصول پر پختہ یقین رکھنی تھیں کہ” تم جو کہتے ہو مجھے اس سے اختلاف ہو سکتا ہے،مگر میں مرتے دم تک تمہارے یہ کہنے کے حق کا دفاع کروں گی” ۔

میں، تمام انتہا پسندقوم پرست صحافیوں سے کہتا ہوں کہ یہ پیشہ ہم سے قومی،مذہبی، نسلی، اور ذات پات کی سوچ سے بلند رہنے اور دیانت داری سے بات کی جائے توعوام نواز تجزیہ کاربننے کا تقاضا کرتا ہے۔


(کالم نگار تک رسائی کے لیے:(ayazbabar@gmail.com