|

وقتِ اشاعت :   March 5 – 2018

سینٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے گزشتہ تین برسوں کے دوران حکومت کے سامنے ایک موثر حزب اختلاف کا کردار ادا کیا اور کئی اہم قوانین کی منظوری دی۔سنہ2015 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کی سربراہی میں ایوان بالا نے مسلم لیگی حکومت پر’ ’چیک اینڈ بیلنس‘‘ رکھنے کا قابل ذکر کردار ادا کیا جو ایوان زیریں میں نظر نہیں آتا۔

2015 کے بعد سے سینٹ میں سب سے اہم تبدیلی ادارے میں شفافیت اور خود احتسابی ہے۔ نئی آنے والی تبدیلیوں کے مطابق اراکین سینٹ کے لیے سینٹ اجلاس میں شرکت اور ساتھ ساتھ حکومتی افسران اور وزراء کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے نئے قوانین وضع کیے گئے۔

اس کے علاوہ ایوان بالا نے متعدد ایسے بل جو کہ سینٹ سے پاس ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں زیر التوا ء تھے ،انہیں دوبارہ ممبران کے سامنے پیش کیا جس کے بعد انہیں قانون کی حیثیت دی گئی۔سال 2013 میں انسداد ریپ کا بل پیش کیا گیا تھا جو کہ سینٹ سے منظوری کے باوجود قومی اسمبلی میں رکا ہوا تھا۔ اکتوبر 2016 میں اس بل کو پاس کر لیا گیا۔

اس کے علاوہ کارو کاری کو خلاف قانون 2014 میں قراردایا گیا تھا، یہ بل بھی التوا میں تھا جسے اکتوبر 2016 میں منظور کیا گیا۔سال 2017 میں سینٹ نے معلومات تک رسائی یا رائٹ ٹو انفارمیشن بل کو بھی اگست میں منظور کر کے قانونی حیثیت دی۔

مئی میں یہ بل قومی اسمبلی سے سینٹ گیا تھا لیکن سول سوسائٹی نے اس پر کافی خدشات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد بل میں ترمیم کر کے اسے سینٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں یہ بل منظور ہوا۔ اکتوبر 2017 میں سینٹ سے الیکشن ایکٹ 2017 بھی ترامیم کے بعد منظور ہوئی جس کے بارے میں مذہبی جماعتوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ اس میں ختم نبوت کے منافی قانون سازی کی گئی ہے۔ 

الیکشن ایکٹ 2017 وہی بل ہے جس کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن نے یہ ترمیم شامل کی تھی کہ نااہل قرار دیا گیا رکن قومی اسمبلی کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔اس ترمیم کی بدولت جولائی 2017 میں پانامہ کیس کے مقدمے میں نااہل قرار دیے جانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت بدستور سنبھالے رکھی لیکن فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس قانون سازی کو معطل قرار دے دیا۔

سینٹ کا کردار قانون سازی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔امید ہے نئے اراکین سینٹ آنے والے وقت میں اسی طرح سے مثبت قانون سازی کی روایت کو برقرار رکھیں گے اور عوامی مفادات کو سب پر ترجیح دیکر عوام سے جڑے بنیادی مسائل کوحل کرنے کے لیے خاطر خواہ کردار ادا کرینگے جس طرح گزشتہ برسوں کے دوران سینٹ کی روایت رہی ۔