|

وقتِ اشاعت :   March 6 – 2018

بچپن کے جن دنوں عام طور پر بچوں کو سیر تفریح کے مقامات پر لے جایا جاتا ہے ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا، ہماری سیر سندھ کے تمام جیلوں میں ہوئی، والد سہیل سانگی لانڈھی جیل تو کبھی سینٹرل جیل کراچی، ماموں قلندر بخش مہر اور رحیم بخش حیدرآباد کے سینٹرل اور نارا جیل اور چچا جام ساقی کبھی سکھر تو کبھی خیرپور جیل میں ہوتے تھے۔

ہم نے اسکولوں کی تعلیم سے کم اور دنیا کے دھکے کھاکر سبق زیادہ حاصل کیے، یہ سبق سیاسی بھی تھے تو سماجی اور تہذیبی اور کلچرل بھی۔ بچپن میں ہمیں یہ پتہ تھا کہ والد اخبار میں ملازمت کرتے ہیں گھر میں جو سرخ جلد والی کتابیں کیوں پڑی ہوئی ہیں یہ سائیکلو اسٹائل پمفلٹ کیوں لکھے گئے ہیں ہمیں کچھ بھی تو معلوم نہیں تھا یہ تو بعد میں معلوم ہوا جب والد جیل میں تھے کہ یہ میٹیریل ریاست کے لیے زہر قاتل ہے کیونکہ اس میں طبقاتی،جمہوریت جدوجہد اور حقوق کی بات کی گئی ہے۔

اس خطرناک میٹیریل کو کچھ گھر کے عقب کے میدا ن میں نذر آتش کیا گیا تو کچھ حیدرآباد کی پھلیلی میں گدھا گاڑی بھر کر پھینکا گیا۔1980 کی کوئی صبح تھی والد سویر کراچی کے لیے روانہ ہوئے اور ہم چائے اور ڈبل روٹی کا ناشتہ کرکے اسکول چلے گئے، کئی روز تک والد کا کوئی رابطہ نہیں ہوا والدہ جو ایک گھریلو خاتون تھی پریشان ہونے لگیں دن ہفتے میں تبدیل ہوگئے۔

ان دنوں ہمارے پورے خاندان کے پاس ٹیلیفون نہیں تھا جبکہ کامریڈ لفظ سے بھی ہم ناآشنا تھے چونکہ مسنگ پرسنز کا سلسلہ ان دنوں بھی جاری تھا لیکن یہ رسم و رواج نہیں بنا تھا کہ فوری ذہن میں آجائے بالآخر آج جہاں میں ملازم ہو ں،اسی بی بی سی اردو کے پروگرام میں اس لاپتہ والد کی خبر آئی کہ انہیں دیگر کمیونسٹوں کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا ہے۔

حیدرآباد سے ہم والدہ کے ساتھ بس میں سوار ہوئے جو سپر ہائی وے کے سنگل ٹریک پر رینگتی رینگتی کراچی پہنچی جہاں والد کے کزن سکندر جنجھی نے رسیو کیا اور ہم ایک دوسر ے لوکل بس میں سوار ہوئے اور حیرت سے اس شہر کی رونق ، گہماگہمی کو دیکھتے رہے اور بالآخر ملیر میں آکر رشتے داروں کے پاس رات رکے۔

صبح سینٹرل جیل کراچی پہنچے زندگی میں کسی جیل میں یہ پہلا داخلہ تھا جس کے بارے میں ایک تصور عام تھا کہ وہاں برے لوگ جاتے ہیں گھر میں ٹی وی نہیں تھا اور سینما جانے کی عمر نہیں تھی کہ کسی ڈرامے یا فلم میں یہ سین دیکھا ہو۔

موجودہ سینٹرل جیل کی شکل تبدیل ہوچکی ہے اس وقت ملاقاتیوں کے کمپاؤنڈ سے قبل ایک انتظار گاہ ہوتی تھی جہاں سیمنٹ کی کرسیوں پر والد اور ان کے دیگر ساتھی براجمان تھے، آنسوؤں اور سسکیوں کے دو طرفہ تبادلے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ یہ انکل جام ہیں۔

اس کے علاوہ پروفیسر جمال نقوی، بدر ابڑو، شبیر شر، کمال وارثی، امر لال سے تعارف کرایا گیا، ایسا لگتا تھا کہ پورا گینگ ہی گرفتار کرلیا گیا ہے بعد کے دنوں میں ڈاکٹر جبار خٹک اور محمد خان سولنگی بھی اس قافلے میں شامل ہوچکے تھے۔

آگے چل کر یہ جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہوا، جس میں بینظیر بھٹو، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو سمیت اس وقت کے بڑے بڑے سیاسی رہنما اس کیس میں گواہی کے لیے آئے، ہمیں ان سب سے ملاقات کا شرف بچپن میں ہی حاصل ہوگیا اور پتہ لگاکہ جیل میں چوری، ڈکیتی اور قتل کرنے کے علاوہ بھی لوگ بھیجے جاتے ہیں۔بینظیر بھٹو جب کے ایم سی کامپلیکس میں ان دنوں بیان رکارڈ کرانے آئی تھیں تو آس پاس کی سڑکیں فوج نے بند کر رکھی تھیں کشمیر روڈ کے کنارے پر ہمیں بھی روک دیا گیا بالآخر شناخت کرانے کے بعد ہمیں جانے کی اجازت ملی۔

اس وقت بی بی سی کے عالمی شہرت یافتہ نامہ نگار مارک ٹیلی بھی موجود تھے جو کمال ہوشیاری کے ساتھ اس روز بینظیر تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے تھے۔بینظیر بھٹو اور کامریڈ جام کمرہ عدالت سے تھوڑی دور بالکونی میں کئی گھنٹے بات چیت کرتے رہے اس دوران والد اور ہمارا خاندان وہاں موجود تھا۔

وہ بات چیت کیا تھی یہ معلوم نہیں لیکن صرف یادوں کو خوشگوار کرنے کے لیے اتنا یاد ہے کہ انہوں نے سلور کوٹیڈ الائچی ہمیں کھلائی تھی جبکہ بہن کو آٹو گراف دیا تھا۔ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا ء کے بعد کہا جاتا ہے کہ سیاسی قائدین میں پہلے رابطے کا وسیلہ یہی مقدمہ بنا تھا۔

جیل میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا، ملٹری کورٹ میں کیس کی سماعت کے وقت ان تمام کامریڈوں کو لانڈھی جیل منتقل کردیا گیا ہمیں بھی ملیر ہی جانا ہوتا تھا بعض اوقات واپسی پر پولیس اہلکار رحم یا ترس کھاکر قیدیوں کی گاڑی میں سوار کردیتے اور ہمیں ملیر نمبر پر اتار دیا جاتا۔

جیل قیدیوں کی وین سے خواتین اور بچوں کا اس طرح سے اترنا یقیناًعام لوگوں کے لیے ایک حیرت کی بات ہوتی تھی لیکن ہمارے لیے ایک عام سی بات۔ اس طرح ہم اپنے والد اور انکل کے ساتھ کچھ وقت زیادہ گزار لیتے تھے۔جون جولائی کے گرمیوں کی چھٹیوں کے دو ماہ تھر میں اپنے گاؤ جنجھی میں گزارنے کا فیصلہ ہوا، اس وقت کامریڈ جام کے بڑے بیٹے سجاد پرائمری میں تھے اور بیٹی ڈاکٹر بختاور بھی شاید دوسری کلاس میں تھیں۔

کامریڈ کی مشہوری سے قبل ان کے والد سائیں سچل اور والدہ مینھ بائی علاقے میں لوگوں کی مدد کے حوالے سے اپنی شناخت رکھتے تھے، سائیں سچل تعلیم کے فروغ کے لیے تو دادی خواتین کی زچگی کے حوالے سے۔

بارشوں یا وسکارے کے دنوں میں جب اس گاؤں کے آس پاس میں بارش کم ہوتی تو کہیں نہ کہیں سے یہ جملے بھی سننے کو مل جاتا کہ کمیونسٹوں کا گاؤں ہے قدرت ناراض ہے۔بابا 1984 میں رہا ہوگئے لیکن کامریڈ جام کی قید جاری رہی وہ شاہی قلقے اور مچھ جیل کے ٹارچر سیلوں کا مقابلے کرچکے تھے اور بالآخر بیمار پڑنے لگے اور بڑے عرصے تک جناح ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں رہے۔

ان دنوں ہی سائیں جی ایم سید اور رسول بخش پلیجو بھی اسیری کے دوران اسی وارڈ میں زیر علاج تھے تین مختلف مکتبہ فکر اور سیاسی سوچیں۔ ہم نے انہیں ہمیشہ ایک دوسرے سے پیار اور عقیدت سے ملاقات کرتے دیکھا۔کراچی سے خیرپور، سکھر جیل سے ہوتے ہوئے وہ بلآخر حیدرآباد سینٹرل جیل تک پہنچے، ایک روز جیل سے گھر پر ٹیلیفون آیا اور بابا کو فوری بلایا گیا پتہ لگا کہ کامریڈ واش روم میں گئے تھے لیکن باہر نہیں نکلے چار گھنٹے سے نہا رہے ہیں ۔

والد نے انہیں سمجھا کر واپس لائے، اسی طرح ایک مرتبہ ملاقات کے لیے گئے تو کامریڈ نے لہسن اور ادرک کا شربت بنارکھا تھا اور ہمیں بھی اس کی پیشکش کی لیکن ہم نے مسکراتے انکار کیا۔ آمریتی دور کی صحوبتیں اور تشدد ان کے ارادوں کو تو کمزور نہیں کرسکا تھا لیکن دماغ پر اثرات ضرور مرتب کیے تھے۔


ان ہی دنوں میں جام ساقی رہائی کمیٹی بنائی گئی ایک روز اسکول پر واپسی پر ہم پلی کارڈ لیے حیدرآباد سیشن کورٹ کے باہر موجود تھے جبکہ انکل وزیر لاکھو نعرے لگا رہے تھے، وہاں کولھی کمیونٹی کی کچھ خواتین بھی کسی سلسلے میں آئی ہوئی تھیں انکل وزیر لاکھو نے ان سے بات کی اور انہیں بتایا کہ یہ تھر کا رہائشی ہے اور آپ جیسے کسانوں ہاریوں کے حقوق کے لیے جیل میں بند ہے جس کے بعد احتجاج کرنے والوں کی یہ تعداد بڑھ گئی۔

بالآخر کامریڈ کی رہائی کا فیصلہ ہوا اور دو تین گاڑیوں میں سوار ہوکر ہم بھی ان کے ساتھ روانہ ہوئے۔ حیدرآباد کے بعد ٹھکانہ میرپورخاص تھا جہاں ان کا استقبال ہوا اس کے بعد نؤں کوٹ پہنچے جہاں ایک کیکڑے میں سوار ہوگئے۔

ہمیں اوپر بٹھایا گیا ، ساتھ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جن کے ابھی نام یاد نہیں جیسے ہی کوئی شہر قریب آتا سب مل کر نعرے لگاتے اور یوں چھاچھرو اور مبارک گوٹھ سے ہوتے ہوئے جنجھی گوٹھ پہنچے۔زندگی کا پہیہ چلتا رہا کامریڈ کالی موری پر ایک فلیٹ میں منتقل ہوگئے، اسی دوران ان کی دوسری شادی ہوئی اور دونوں بڑے بچے بھی یہاں کے اسکولوں میں آگئے، اس عرصے میں انہوں نے 1988 میں تھر سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

انہوں نے روس، چین سمیت دیگر ممالک کے دورے کیے انہوں نے روس کے زوال سے پہلے ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ معاملات برتری کی طرف جا رہے ہیں وہاں ماڈل گرا اور یہاں تنظیم متاثر ہوئی۔

کامریڈ نے سندھ میں امن اور صوفی ازم کے پرچارک کے لیے ریتی سے کراچی تک مارچ کیا، یہ مارچ جب حیدرآباد پہنچا تھا تو ان سے ملاقات ہوئی تھی وہ ہی گال پر ایک چمپی۔ جو فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی سنت تھی، پیدل چل چل کر ان کے پاؤں زخمی ہوچکے تھے، اسی مارچ کے دوران ہی سائیں سچل کا انتقال ہوگیا اور انہوں نے حیدرآباد میں قیام کیا۔

سیاست سے کامریڈ دور ہوتے گئے اور صحت بیماریوں میں جکڑتی رہی اور ان پر برین ہیمبرج کا حملہ ہوا، انہیں ایک بار پھر جناح ہسپتال منتقل کیا گیا، ایمرجنسی شعبے میں سارا دن لوگوں کا تانتا بندھا رہتا اور ہم کاپی پر ان کے نام اور تاثرات لکھتے رہتے، ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ انہیں برطانیہ لیکر جائیں ۔اجمل خٹک سے لیکر سندھ اسمبلی تک آواز اٹھی، والد نے عوامی آواز میں ایڈیٹوریل لکھا جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مظفر شاہ کو تھر کا حوالہ دیا گیا۔

ایک روز مظفر شاہ خود ہسپتال پہنچے اور حکومت نے علاج باہر کرانے کا اعلان کیا، ساتھ میں کون جائے ایک بار پھر ذمہ داری بابا پر آئی اور وہ لندن روانہ ہوگئے یہ دوسری بات ہے کہ ان کے پیچھے کامریڈ پارٹنرز نے کیا نہیں کیا اور اس سے کیا معاشی نقصان ہوا ،والد نے کبھی ذکر کرنا گوارہ نہیں کیا۔

لندن سے صحتیاب ہونے کے بعد موجودہ وزیر اعلیٰ کے والد عبداللہ شاہ نے انہیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی اور یوں کامریڈ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن اس وقت ابھی آتش جوان تھا، پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد وہ محکمہ جیل خانہ جات کے مشیر بنائے گئے انہوں نے جیل اصلاحات کی بھی سفارشات کیں لیکن عمل نہیں ہوا۔

عبداللہ شاہ حکومت کی برطرفی اور پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت میں تبدیلی نے کامریڈ جام کو دور رکھا اور ان کے پاس کامریڈ اعزاز کے بجائے ایک بوجھ نظر آیا، یہ دوسری بات ہے کہ بعد میں بھی بینظیر بھٹو نے شہادت سے قبل جو آخری میل کی تھی وہ کامریڈ جام کے نام تھی جس کی تصدیق تاج حیدر نے کرتے ہوئے مجھ بتایا تھا کہ کامریڈ جام سے مدد طلب کی گئی تھی کہ وہ نواب خیر بخش مری اور عطااللہ مینگل سے رابطہ کریں اور بات کریں۔

کامریڈ انسانی حقوق کمیشن کے بھی سرگرم رکن رہے۔ سیاست کی طرح یہاں بھی ان مشکلات کے دن دیکھنا پڑے جب وہ بدین میں لڑکیوں کی خرید و فروخت کی فیکٹ فائنڈنگ کے لیے گئے تھے تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم ان پر ناراض ہوئے اور ان کی بیوی کو بچے کے اغوا میں گرفتار کرایا جبکہ عاصمہ جہانگیر کے مشورے پر وہ لاہور چلے گئے تھے۔

ایک حقیقی رہنما لوگوں کو کیا دیتا ہے، اپنی مثالی زندگی، تکلیف سے مقابلہ ،تبدیلی کی سوچ اور راستہ جو کامریڈ جام دکھاتے اور بتاتے رہے، لیکن جب سیاست نظریے سے نظریہ ضرورت کے دور میں داخل ہوجائے تو آدرشی لوگ غیر متعلق یا irrelevant بن جاتے ہیں۔ انہیں حیدرآباد میں سپرد خاک کیا گیا جہاں سے انہوں نے سیاسی سفر کی ابتدا کی تھی اور زندگی کا اختتام بھی وہیں ہوا۔