|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2018

دنیا بھر میںآج خواتین کا بین الاقوامی دن منایا جارہا ہے آج کے دن جبر وستم کے ستائے، بھوک ، غربت محرومی سے اکتائی خواتین ، دوران زچگی میلوں کا فاصلہ طے کرنے پر مجبور، کاروکاری کی بھینٹ چڑھنے ،وحشیت اور ظلم کا شکار ، دور جدید میں حصول علم سے محروم، کہیں رسموں رواجوں کی آڑ میں توکہیں ثقافتی روایات کے جبر کاشکار خواتین کے حقوق کیلئے حکومت مراعات یافتہ این جی اوز اور سیاسی جماعتیں آزادی نسواں کے نا م پر تقریبات منعقد کر کے ایک دن کیلئے خواتین کی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی نہیں تھکتی ۔

دولت سے پرتعش زندگیاں گزارنے والوں کی بھلا پسماندہ خواتین کے مسائل اور انکی زندگیوں سے کیا مماثلت ہو سکتی ہے۔ جو تپتی دھوپ میں فصلیں کاٹتی ، گرم حبس زدہ ماحول میں کھیتوں میں بیج بوتی ، فیکٹریوں اور کارخانوں میں 16گھنٹے تک کام کرنے کے باوجود اجرت کم پاتی ہیں، اکیسویں صدی میں جہالت کے تاریکیوں میں جڑی ، پسماندگی کی تصویر لیے بیابانوں میں مویشیوں کے ریوڑ کو ہانکتی ، گھر کاگزر بسر کرتی ہو۔بلاشبہ ترقی کی برق رفتار صدی میں یورپ، امریکہ اور ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں آج بھی عورت کی آزادی ادھوری اور اذیت ناک ہے۔

اجرتوں سے لیکر سماجی رویوں تک ہرشعبے میں خواتین جبر کاشکارہیں۔ ان کی محنت اور زندگی کو ایک استحصالی جکڑمیں بند کیاگیا ہے ۔درمیانے بالادست طبقات کی مختلف پرتوں میں عورت پر جبر اور استحصال کے تازیانے برسائے جاتے ہیں۔

ان کی آزادی کو صلب کر کے معاشرے میں ان کو کوئی فعال جراتمندانہ کردار اور سماجی عوامل میں شراکت اور مداخلت سے کاٹ کر تنہائی اور بیگانگی کے تعفن میں بند رکھاگیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آزادی نسواں کے عمل میں خواتین کی طبقاتی تفریق ایک فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہے۔

خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ ترقی پسند خواتین جن میں سے اکثریت محنت کش خواتین کی نمائندگی کر رہی تھی نے 1910ء میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کیا۔ اس میں سرکردہ کردار جرمنی کی سرگرم کارکن کلارا زیٹکن نے ادا کیا۔ اس دن کو عالمی سطح پر شہرت اور پذیرائی روس میں انقلابی تحریک کا آغاز 1917ء کے موسم بہار میں خواتین کے عالمی دن کے مظاہرے سے ملی۔

زار شاہی روس میں جہاں ایک طرف بادشاہت کی مطلق العنانیت اور ہولناک جبر تھا وہاں محنت کشوں اور خصوصاً خواتین محنت کشوں کے استحصال اور ان پر ظلم کی انتہا ہو رہی تھی اس جبر و ستم، بھوک، غربت اور محرومی سے اکتائی ہوئی خواتین مزدور اور گھریلو خواتین جن کا تعلق محنت کش گھرانوں سے تھا۔

ایک بپھرے ہوئے طوفان کی طرح پیٹروگراڈ کی سڑکوں پر نکل آئیں اور ریاستی فوجوں اور پولیس کے دستوں پر یلغار کر دی تمام تر ریاستی جبر ان کو پسپا اور منتشر نہ کر سکا‘ خواتین کے جلوس کی پیش قدمی جاری رہی اور ان کے ارادے اتنے ہم آہنگ اور جذبے اتنے آہنی تھے کہ ریاستی طاقتوں کو ہی پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

اس عالمی یوم خواتین کے جلوس نے جیسے پورے مزدور طبقے کے ضمیر اور احساس کو جگا دیا تھا۔ مزدوروں کی بھاری پرتیں صنعتی کارخانوں کو بند کرنے لگیں اور پورے روس میں محنت کشوں کی تحریک نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ ہزاروں سال پرانی زار شاہی کے اقتدار کا ہی خاتمہ ہو گیا۔

زار نکولاس کا تختہ الٹ گیا‘ اس کا تاج اچھل گیا‘ اور بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔آج اس روز کو پورے ایک سو ایک سال ہو گئے ہیں۔ خواتین کی جرات اور طاقت بھرے جذبے نے خواتین کے عالمی دن کو دنیا بھر میں اور آنے والی اس طبقاتی نظام کی تاریخ میں اس کے خلاف بغاوت کی ایک علامت کے طور پر ثابت کر دیا تھا۔

انقلاب روس لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بازنطینی کیلنڈر کے مطابق 26 اکتوبر اور جارجیائی کیلنڈر کے مطابق 6 اور 7 نومبر 1917ء کی رات کو ایک سوشلسٹ فتح سے ہمکنار ہوا تھا۔ اس میں خواتین کا کردار بھی اہمیت کا حامل تھا۔ لینن نے انقلاب کے بعد لکھا تھا ”خواتین مزدوروں کی حمایت اور شراکت کے بغیر یہ انقلاب اس طرح فتحیاب نہیں ہو سکتا تھا‘‘۔

سوشلسٹ انقلاب کے بعد نئی بالشویک حکومت نے عورتوں کے حقوق اور مانگوں کے لیے جو اقدامات کیے‘ وہ تاریخ میں پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں آئے تھے۔ خواتین مزدوروں کی اجرتوں کو مردوں کے برابر کر دیا گیا۔

آئین میں گھریلو محنت و مشقت کو سوشلسٹ ریاست نے صنعتی محنت کے برابر کا درجہ دیا۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کی متعصب او ر تضحیک آمیز رویّوں کو ختم کرنے کے لیے خواتین کو ریاستی طاقت کی ہر پرت پر نمائندگی دی گئی۔

گھریلو محنت کو کم کرنے کے لیے کمیونٹی کچن اور بچوں کی نگہداشت کے لیے ہر محلے میں بچوں کے کنڈرگارٹنز قائم کیے گئے۔ زچگی کے دوران خواتین محنت کشوں کو پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹی کا سوشلسٹ قانون بنایا گیا۔ اسی طرح ہر شعبہ زندگی میں انقلابی بنیادوں پر جو سماجی تبدیلیاں کی گئیں‘ وہاں خواتین کو معاشرے میں مردوں کے برابر مقام اور عزت دینے کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے۔

وہ سماجی ڈھانچے‘ جو خواتین کو جکڑنے اور ان کو کمتر کرنے کے بابت تھے‘ ان کو ختم کرنے اور یکسر تبدیل کر دینے کا عمل شروع ہوا۔ لیکن 1924۔25ء کے بعد سٹالن کی قیادت میں انقلاب کی زوال پذیری اور افسر شاہی کا آمرانہ راج قائم ہونے کا عمل شروع ہوا۔

اس سے خواتین کو انقلاب سے ملنے والی حاصلات پر نہ صر ف کاری ضربیں لگنا شروع ہوئیں بلکہ ایسے معاشرتی اداروں کی بحالی بھی ہونے لگی جو ماضی میں خواتین کو جکڑنے کا باعث ہوا کرتی تھیں۔آج دنیا بھر میں خواتین دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہیں۔ خصوصا ہمارے ملک میں محروم طبقہ خواتین کاہے جن کو آج تک بنیادی حقوق فراہم نہیں کئے گئے۔ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہونے کے باجود معاشرے میں آج بھی خواتین کو کم درجہ دیا گیا ہے۔

خواتین محنت ومزدورکی حیثیت سے جانی جاتی ہے صبح وشام گھریلو کام ،مشکلات ،مالی مسائل سے باہرنکلتے ہی خواتین کو عجیب رویہ کا سامنا ہوتاہے۔ بالادست طبقات کی خواتین کا جہاں اور محنت کرنے والی دہقان اور مزدور خواتین کا جہاں کچھ اور ہے۔ ان کے مسائل ان کی زندگی کے حالات، ان کی ضروریات اور مانگیں بالکل مختلف اور ان کے مفادات ناقابل مصالحت ہوتے ہیں۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ خواتین کی نجات محنت کش طبقے اور غریب عوام کی نجات کے ساتھ منسلک ہے‘ لیکن اس طبقاتی جدوجہد میں وہ تب ہی جڑ سکتی ہیں‘ جب ان کو مرد مزدوروں سے کوئی خوف و خطرہ نہ ہو۔ ان کے شانہ بشانہ وہ اس جبر و استحصال کے نظام کے خلاف لڑائی میں اسی صورت چل سکتی ہیں‘ جب مرد مزدور اور نوجوان ان کو برابر سمجھیں۔

دل سے ان کو کمتر نہ سمجھیں اور ان پر ہونے والی صنفی جبر کے خلاف بھی ایسی ہی نفرت رکھتے ہوں جیسی خواتین کے دلوں میں ہوتی ہے۔ یہی جرت اس طبقاتی یکجہتی اور جدوجہد کو ابھار سکتی ہے‘ جو اس نظام زر کی ذلت کو اکھاڑ کر معاشرے کو محرومی سے پاک کرکے آزادی نسواں کے سفر کی منزل کے قریب تر کر سکتی ہے۔

ملک کے اندر بلخصوص بلوچستان میں عورتوں کو وہ حقوق حاصل نہیں ہیں کہیں عورت کو ونی چڑھا دیا جاتا ہے اور کہیں کارو کاری کی مد میں قربانی کا بکر ا بنالیا جاتا ہے بلوچستان میں پسماندگی کو مد نظر رکھ کردیکھا جائے تو یہاں عورت کی زندگی کو کئی مشکلات درپیش ہیں۔

تعلیمی شرح کی کمی کے سبب اکثر بچیاں سکولوں تک نہیں پہنچ پاتیں جس کے سبب خواتین میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے، جس کی وجہ سے خواتین معاشرے کے کسی بھی میدان میں نمایاں طور پرحصہ دار نہیں ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں خواتین کی ترقی اور انہیں سماج میں نمایاں مقام دینے کیلئے سیاسی میدان میں آگے آنے کا موقع دیا جائے۔

اداروں میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے خواتین کو اپنی حیثیت منانے کیلئے خود آگے آنا ہوگا اور ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے اپنا مقام اور حق حاصل کرنا ہوگا سیاست اور سیاسی عمل معاشرے میں اجتماعی سوچ کو پروان چڑھاتاہے اس لئے خواتین کو سیاسی میدان کے ذریعے معاشرے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔


لکھاری بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی ) کی سینٹرل کمیٹی کی رکن ہیں