آزادی اخبارمیری ابتداء ہے ادبی طورپر مجھے مضبوط کرنے میں اس کا کردار نا قابل فراموش ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے لکھنا شروع کیا۔شیخ فرید‘ محمود ابڑو اور بہت سے دوست ‘آصف بھائی ‘ طارق بھائی اور ان کے بھائی اور چچا زاد سب سے علیک سلیک ‘ کسی سے خوش گپی تو کسی سے گپ شپ اور کسی سے صرف سلام ۔
اسی دوران آزادی دفتر کے ایڈیٹر مرحوم صدیق بلوچ کے دفتر میں بہت کم جانے کا موقع ملتا تھا فقط باہر سے جھانک لیتے تو اکثر شام کو وہاں ایک خوبصورت سے عمر رسیدہ آدمی نظر آتے ۔ جس کے سر پر اکثر گرم ٹوپی ہوتی اور اخبار کا عملہ میرے دوست سب مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے کہ لالہ صدیق بیٹھاہے ۔ خاموشی سے اپنی اخبار لو اور چلتے بنو ۔
عجب سا تجس تھا کہ لالہ سے بات کروں یا ان کے بارے میں کچھ جان سکوں مگر لالہ کی رعب دار شخصیت اور ہمیشہ ان کی لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر کام کرنے کی مصروفیت نے مجھے ان سے ہم کلام ہونے کا موقع نہ دیا ۔
ابتداء سلام سے کی تو جواب بھی اچھے طریقے سے ملا تو خوشی ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ یہ بے کار سا خوف اپنے زوال کو پہنچا پھر ایک دفعہ لالہ نے بلا یا اور اپنے پاس بٹھایا ، تعارف ہوا، حال احوال کیا اوریوں اس اس بڑے آدمی سے بات چیت کا آغاز ہوا ۔ اس عظیم آدمی سے مجھے خواہ مخواہ دور رکھا گیا تھا ۔ اب وہ مجھے اپنے بچوں کی طرح سمجھتا اور میری غم بھری داستان سننے کے بعد مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہتے ’’ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا کوئی نہیں ‘ مجھے اپنا والد سمجھنا اور کبھی بھی کوئی بھی ضرورت ہو مجھے بتانا ۔
واقعی بڑا آدمی بہت بڑا ہوتا ہے ‘ ہر دفعہ ملاقات ہوتی تو خیریت پوچھتے اور اپنے بیٹوں کو بھی مجھ غریب سے شفقت سے پیش آنے کا کہتے کہ آپ سب کا رویہ میرے ساتھ کافی حد تک برادرانہ تھا۔
زندگی اپنے مدار میں تیز ی سے گردش کرتی رہی اور جب بھی کوئی مشکل یا مسئلہ ہوتا لالا سے کہہ دیتااور ان کا مفید مشورہ میری رہنمائی کرتا، کبھی کبھی میری محنت کے آگے حائل مشکلوں کو دور کرنے کے لئے لالاکہتے ’’ اڑے گھبرانے کی کیا بات ہے ۔ آج کا لالہ کل محنت مزدوری کرتا تھا ۔ وہ تغاری اٹھاتا تھا ۔ محنت اور مسلسل محنت میں کامیابی ہے ‘ اس طرح کی موٹیویشن نے میری زندگی کو ایک نئے دھارے کی سمت موڑ دیا اور میں اپنی کامیابیوں کے قصے لالاکو سناتا رہتا ۔اور لالا میری کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرتے ۔ شاباشی دیتے اور حوصلہ بڑھاتے۔ یہ تو بتانا بھول گیا کہ میرے ساتھ لالاسندھی میں بات کرتے اور میری لیے سندھی میں شاید کافی اپنائیت تھی ۔
ایک دفعہ بلوچی اکیڈمی میں بیٹھے تھے کہ کسی نے یہ منحوس خبر سنائی کہ لالا کو کینسر ہے اور شاید ان کے جگر پر ایک دانہ نما کینسر کا زخم ہے یہ بات میرے لیے پریشانی کا باعث تھی اور جب ان سے مزید پوچھا تو کہا کہ وہ اس کا علاج کروانے کہیں باہر ملک گئے ہیں اور شاید اب لوٹ آئے ہیں ۔
زندگی کی بھاگ دوڑ کے سبب لالہ سے ملے ایک عرصہ ہو چکا تھا اب میں جب آزادی اخبار کے دفتر پہنچا تو لالا وہاں سے گھر جارہے تھے، زیادہ بات کا موقع تو نہ مل سکا بس خیریت دریافت کی ۔ شکر ہے اللہ کا کہا اور چلے گئے ۔ کافی کمزور لگ رہے تھے ۔
آصف بھائی سے پوچھا تو بولے کہ ’’ اب پہلے سے بہتر ہیں ‘‘ پھر کچھ عرصے بعد پھر ملاقات ہوئی خیریت دریافت کی تو بڑے پیار سے بولے کہ ’’ اب بالکل ٹھیک ہوں ‘‘ علاج چل رہا ہے اور پھر ماما چہرے اور طبیعت سے آہستہ آہستہ ہشاش بشاش نظرآتے چلے گئے ۔ پھر آخری باران سے ملاقات بلوچی اکیڈمی میں ہوئی شاید کوئی گورننگ باڈی کا اجلاس تھا یا پھر کچھ اور ‘ بڑی محبت اور شفقت سے ملے ۔
میں کوئٹہ کی سردی سے راہ فرار اختیار کرنے لاڑکانہ گیا ہوا تھا تو فیس بک پر لالا کی وفات کا پڑھا ،دلی صدمہ ہوا ایک بڑا آدمی ‘ ایک بڑا انسان آج ہم میں نہیں رہا ۔ لالہ اللہ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ کے کاموں کا بدلہ ‘ آپ کی نیکیوں کا بدلہ شاید جنت ہی ہے ۔ لالا ہم آپ کو نہیں بھول پائیں گے۔ الوداع لالہ الوداع‘ میرا دل آپ کے لئے رو رہا ہے میں مزید کچھ لکھ نہیں پا رہا اے ہمارے استاد ‘ خدا آپ پر اپنی رحمتوں کا سایہ کرے ۔آمین
صدیق بلوچ
وقتِ اشاعت : March 15 – 2018