مستونگ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائم مقام صدر ملک عبدالولی کاکڑ مرکزی رہنماوں نوابزادہ میر حاجی لشکری خان رئیسانی بی ایس او کے مرکزی چیئرمین واجہ نذیر بلوچ سابق ایم این اے روف مینگل مرکزی لیبر سیکرٹری منظور بلوچ ملک نصیر شاہوانی مرکزی خواتین سیکرٹری زینت شاہوانی فوزیہ مری سردار عمران بنگلزئی سابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل کرنے اور وفاق کے بیساکھیوں پر چلنے والے بلوچ قوم اور بلوچستان کے وارث نہیں ہو سکتے ۔
پس پردہ قوتوں کے پروردہ 544 ووٹ حاصل کرنے والے وزیر ا علیٰ کو بلوچستان پر جس طرح مسلط کیا گیا یہ ہمارے بدقسمتی ہے جس نے سنیٹ کے چیئرمین کے منتخب ہونے کو ایک معجزہ قرار دیا گیا ۔
اگر ان کے پاس پیغمبرانہ معجزہ ہے تو صوبے میں ہزاروں مسنگ پرسن کو منظر عام پر لانے مسخ لاشوں کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے اور ٹارگٹ کلنگ میں شہید لوگوں کے قاتلوں صوبے سے پسماندگی لاقانوینت ناخواندگی بدامنی کے خاتمے کے لیئے ایسے معجزہ دکھائے انہوں نے اپنے حلقہ کے عوام کی تقدیر بدلنے کے لیئے کیا کیا جو اب صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرینگے ۔
2013 میں اسٹبلشمنٹ کے بیساکھیوں پر بغیر کوئی اپنے سینیٹ ممبر کے سینٹر منتخب ہونا پھر وفاقی وزیر بننے والے کی سینٹ میں واویلا ڈرامہ بازی کے سوا کچھ نہیں بلوچ قوم ایسے شعبدہ بازوں کو پہچان چکے ہیں بلوچ قوم تاریخ کے بد ترین دور کھبی نہیں بھول سکتے جس میں جعلی جرگوں میں اپنی قبائلی و سیاسی روایات کو مسخ کرکے جرنیلوں کو دستار بندی کی جنھیں تاریخ اور ہمارے قبائلی روایات کبھی معاف نہیں کرینگے ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ضلع مستونگ کے سابق ضلعی صدر شہید نوراللہ بلوچ کی پہلی برسی کی مناسبت سے تعزیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا جلسے سے سینٹرل کمیٹی کے ممبر جاوید بلوچ بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ میر عبداللہ جان مینگل میر محمد حنیف رستم زئی بسمل بلوچ حمیداللہ ایڈوکیٹ حاجی عبدالطیف بنگلزئی ثنااللہ شاہوانی حاجی باسط لہڑی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
انھوں نے کہا نور اللہ بلوچ آج جسمانی طور پر ہمارے ساتھ نہیں مگر ان کی سوچ فکر فلسفہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے انہوں نے پوری زندگی بی این پی کے تین رنگی جھنڈے تلے بلوچ قوم کی حقوق کے لئے سیاست کی۔ان کی عظیم جدوجہد کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 70 سال سے بلوچستان میں نادیدہ قوتوں اور حکمرانوں کی سرپرستی میں خودانسرجنسی پیدا کرکے مذہبی دہشت گردی منافرت فرقہ پرستی ٹارگٹ کلنگ ایجاد کیا گیا جو آج تک بدستور جاری ہے اور جعلی قبائلی جرگوں کے ذریعے ہمارے قبائلی روایات میں مداخلت اور ہمارے قومی ارتقاء کو ایک سازش کے تحت تباہ و برباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارے بعض قبائلی سردار و نواب اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اپنے ضمیروں کو بیچ کر قومی مفادات کو قربان کر دیئے ۔
انہوں نے کہا کہ پہلے سے الاٹ شدہ نشستیں اور طے شدہ فارمولے کو روکنے کے لیئے عملی طور پر سیاست کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ حالیہ سینٹ انتخابات میں خود غرضی اس قدر بڑھ گئی کہ بعض لوگ نے اپنے ضمیروں کا سودا کیا اور سینیٹ کے الیکشن میں پیسوں کے بل بوتے پر ایسے سینٹر وزرا و مشیر مسلط ہوئے جو سیاست کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں اورہمارے کرپٹ حکمرانوں کے پاس بلوچستان کے مسائل کا حل نہیں ۔
نالیاں اور سڑک ہماری ضرورت ہیں لیکن مقصد نہیں بلوچستان نیشنل پارٹی بلوچستان کے ساحل و وسائل کی حق ملکیت اور حق حاکمیت کی جہدوجہد کر رہی ھے موجودہ حکمران ایک دھوبی کے ہاتھ اپنی قسمت کا فیصلہ دے رہے ہیں اور بی این پی بلوچ ننگ و ناموس کی حفاظت کے لیے کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کرے گی ۔
انہوں نے کہا کہ ساڈھے چار سالہ دور اقتدار میں رہنے والے کفن چور نکلے ٹینکیوں اور بیکریوں میں نوٹ چھپانے والوں سے ریکوڈک و گوادر اور دیگر معدنی وسائل کا سودا کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے ہم نے ان تحفظات کا اظہار شروع دن سے کیا تھا مگر اب ان کے سیاہ کرتوت سب کے سامنے گئے ۔
سی پیک اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ منصوبہ بلوچوں کی ترقی کے لیئے نہیں ہم نے ہمیشہ آنکھیں جھکا کر نہیں آنکھیں اٹھا کر سیاست کی ہے نام نہاد قوم پرستوں میں دور حکومت میں عوام کو تعلیم صحت روز گار اور بنیادی سہولیات کے بجائے بے گورکفن مسخ لاشیں ملے صوبے کے تاریخ کا میگا کرپشن میں غوطہ لگانے والے قوم پرستی کے نعرے کو لپیٹ کر نام و نہاد قوم پرستوں نے اپنا سیاسی نماز جنازہ بھی خود پڑھ لیا ۔
انہوں نے کہا کہ یہاں حقوق مانگنے اور حقوق کے لیئے جدوجہد کرنے والوں کو غدار قرار دیئے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ سی پیک کے لیئے چین نے 46 ارب بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں مگر گوادر ڈیپ سی پورٹ کیلیئے جو رقم مختص کی گئی ہے وہ زکوۃ کے مانند ہے۔
انہوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی یہاں کے عوام کے لیئے نہیں بلکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیئے ہوگا انہوں نے کہا اٹھارویں ترمیم پر دستخط کرنے والے خود مطمئن نہیں کیونکہ صوبوں کو اس ترمیم سے ابھی تک کوئی اختیارات نہیں ملے ۔
انہوں نے کہا کہ حکمران طبقہ صرف اپنے اختیارات بڑھانے کے لیئے آئین میں اپنے ضرورت کے مطابق ترمیم کرکے اس پر عمل درآمد بھی ہوتے ہیں باقی آئینی ترامیم صرف محظ برائے نام ہوتے ہیں ۔
اس وجہ سے ملک کو کھبی آئین نے نہیں بچایا اور بلوچ قوم کو ان حکمرانوں کی نیت کا اندازہ چھ دہائیوں چلے آرہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کو اپنے حق خودارادیت ساحل معدنی و سائل تشخص اور قومی بقا جغرافیہ کے لیئے عملی جدوجہد کر نے کی ضرورت ہیں ۔
ان حالات میں بلوچ نوجوانوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ وہ سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ علمی بنیادوں پر بھی لیس ہو کر ان حالات کا مقابلہ کرے بلوچ قوم ایسے ترقی کے قطعی طور پر خواہاں نہیں جس میں ساحل وسائل کی لوٹ کھسوٹ بلوچوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل ڈیموگرافک کی تبدیلی قومی بقا و تشخص کو خطرات لاحق ہو ۔
انہوں نے کہا کہ وسائل پر پہلا حق بھی اسی قوم کا ہے بلوچ قوم ایسے ترقی نہیں چاہتے جس سے یہاں کے باسی دو وقت کی روٹی کیلیئے محتاج ہو دوسرے طرف بین الااقوامی سطح پر اس خطے میں ترقی کی ڈھونگ رچایا جا رہا ہے جو زمینی حقائق سے برعکس ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری صرف اسلام آباد اورپنجاب کی ترقی و خوشحالی کے لیئے ہیں انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے ذریعے ہمارے ساحل وسائل پر اختیارات دیئے جائے ہم خیرات یا زکوآنہیں مانگتے۔
544 ووٹ حاصل کرنے والے کو وزیر اعلیٰ بنا کر عوام پر مسلط کیا گیا، بی این پی
وقتِ اشاعت : March 19 – 2018