|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2018

اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل آواران سے بیلہ اور تربت سے آواران کی سڑکیں کچی ہوا کرتی تھیں۔ لیکن انہی کچی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی ہوتی تھی۔ اشیا ء خوردونوش ایران سے سستے داموں لائی جاتی تھیں۔

لوگوں کو ارزاں قیمت پر چیزیں دستیاب ہوتی تھیں۔ تربت ٹو آواران روڑ پر چلنے والے ٹریفک کی وجہ سے جگہ جگہ ہوٹل اور کیبن کھلے رہتے تھے۔

لوگ ذریعہ معاش کے حصول کے لیے اتنے پریشان نہ تھے۔ سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور نہ ہی لوگ سرکاری ملازمتوں پر اتنا انحصار کرتے تھے۔ جو زیادہ مالدار ہوتے تھے وہ اپنی گاڑیاں خرید کر ٹرانسپورٹیشن کا کام کیا کرتے تھے۔

فوجی آمر کے دورِ حکومت میں ضلعی حکومتوں کا نظام عمل میں لایا گیا۔ لسبیلہ سے آواران کی سڑکوں کی مرمت کا کام شروع ہوا۔ لوگوں میں خوشی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ پکی سڑکوں کی تعمیر سے مسافت کم ہونے لگی۔

پکی سڑکوں کی تعمیر کا یہ عمل آواران سے آگے نہ جا سکا۔ دوسری جانب کوسٹل ہائی وے بن چکا تھا۔ تربت کا ناطہ آواران سے کٹ کر رہ گیا۔ تربت کا روٹ گوادر سے ہوتا ہوا کوسٹل ہائی وے ہونے لگا۔

وہ خاندان جن کا ذریعہ معاش انہی ہوٹل، کیبن اور پنکچر کی دوکانوں سے چلتا تھا, روٹ کی بندش سے ان کے گھروں کا چولہا بجھ گیا۔

معیشت کی عدم استحکام نے انہیں مشکلات میں ڈال دیا۔مشرف دور حکومت میں گوادر میگا پروجیکٹ کا شوشا شروع کیا گیا۔ نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے احساسِ محرومی اور بے چینی نے انہیں میگا پروجیکٹ نامنظور کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ یہ نعرے ہر در و دیوار کی زیب و زینت بننے لگے۔

آواران جس کا سفری نظام مشرف دور حکومت میں دیگر علاقوں سے کاٹ دیا گیا تھا, شاہراہیں نہ ہونے اور روزگار کے عدم ذرائع نے آواران میں شورش کی وہ فضا قائم کی جسے ختم کرنے کے لیے آپریشن کیے گئے۔

قتلِ عام کا بازار گرم ہوا۔ مخبری اور ریاست دشمنی کی آڑ میں سینکڑوں نوجوان کام آئے۔بدقسمتی نے آواران کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ آواران کے لیے بچا ہی کچھ نہیں تھا کہ 2013 کے زلزلے نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ زلزلے سے پورا آواران ملیامیٹ ہوا۔

آواران تباہی کا منظر پیش کرنے لگا۔ گھر اجڑ گئے۔ سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں لوگ گھروں سے بے گھر ہو گئے حکومتی اعلانات ہوئے۔ علاقے میں شورش کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے جو آج بھی مختلف علاقوں میں آباد ہیں ۔زلزلے کے بعد حکومت پنجاب کی جانب سے زلزلہ متاثرہ نوجوانوں کے لیے ایک خصوصی پیکج کا اعلان کیا گیا۔

آواران کے 500 اور تربت کے علاقے ڈنڈار کے 50 نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ کا اعلان کیا گیا۔ اعلان کے مطابق ان 550 نوجوانوں کو مختلف اداروں میں کھپا کر ان کی خدمات سے استفادہ کرنا تھا۔ یہ سلسلہ فروری 2016 کو شروع ہوا۔ نوجوانوں کی بھرتی سے محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت میں جو گیپ رہ گیا تھا نوجوانوں کی تعیناتی سے وہ بھر گیا۔

100 کے قریب ایسے نوجوانوں کو انٹرن شپ کے ذریعے اسکالرشپ بھی ملنے لگی جو مختلف اداروں میں زیر تعلیم تھے۔دو سال کا عرصہ مکمل ہوتے ہی انٹرنیز کو تنخواہوں کی مد میں دی جانے والی ماہوار تنخواہ 20 ہزار روپے پنجاب حکومت کی جانب سے روک دی گئی۔

ڈیوٹیاں سرانجام دینے کے باوجود انٹرنیز اور طلبا کو تنخواہوں اور اسکالر شپ کی مد میں یہ کہہ کر ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے کہ حکومت پنجاب نے انٹرن شپ کی مد میں ادائیگی روک دی ہے اور حکومت بلوچستان کے پاس نوجوانوں کو ادائیگی کے لیے دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔متاثرہ نوجوان موجودہ صورتحال سے کافی نالاں اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی روز سے احتجاج پر مجبور ہیں۔

آواران بازار میں بھوک ہڑتالی کیمپ بھی قائم کیا جا چکا ہے تاہم میڈیا تک عدم رسائی کے سبب ان کی آواز فقط آواران تک محدود ہے۔ نوجوان اپنی آواز حکام تک پہنچانے کے لیے کوئٹہ کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا تعلق ضلع آواران سے ہے۔ انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کام جو کیا ہے وہ عوامی مسائل کی شنوائی کا ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کا آبائی علاقہ آواران کے نوجوان تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور عدم مستقلی کے خلاف احتجاج پر ہیں۔ یقیناً سائلین کی آواز ان تک پہنچ گئی ہو گی۔

آواران پہلے سے شورش زدہ ضلع تصور کیا جاتا ہے۔ شورش کی بنیادی وجہ علاقہ اور بلوچستان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو گردانا جاتا ہے۔ حکومت بلوچستان کے پاس ملازمتوں کی مد میں ہزاروں آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ آواران کے 500 انٹرنیز کو روزگاری کی فراہمی میں حکومت بلوچستان کو دشواری پیش نہیں آنی چاہیے۔

حکومت پنجاب دو سال تک اپنا کام کرتی رہی۔ اب حکومت بلوچستان اور بالخصوص وزیراعلیٰ بلوچستان کے کندھوں پر یہ بھاری ذمہ داری آتی ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے اقدامات اٹھا کر نیک نامی کمائیں۔