|

وقتِ اشاعت :   April 5 – 2018

گزشتہ روز کوئٹہ میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں سیکیورٹی حکام نے بھی شرکت کی۔ اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ سیکیورٹی انتظامات کو مزید مؤثر بنانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کو مزید بہتر بنانے کے علاوہ افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں آمدورفت پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں سے آنے والے تخریب کاروں کو روکا جاسکے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جان ومال کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور سماج دشمن عناصرسے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ اجلاس نے کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں امن وامان کی مجموعی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ پبلک مقامات کے علاوہ ایسے مقامات پر بھی سیکیورٹی انتظامات کو مزید بہتر بنایا جائے جہاں دہشت گردوں کو سافٹ ٹارگٹ حاصل ہونے کا خدشہ ہو۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا وسیع بارڈر افغانستان سے ملتا ہے جہاں پاکستان کے دشمنوں نے دہشت گردی کے کیمپس قائم کئے ہوئے ہیں لہٰذا ہماری سیکیورٹی فورسز کو ہروقت متحرک رہنا چاہئے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ پر جلد کام کا آغاز کیا جائے گا جس سے سیکیورٹی کے مسئلے میں کافی بہتری آئے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ امن وامان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانے کے لئے حکومت ان کو ہر طرح کی معاونت فراہم کرے گی۔

اس وقت بلوچستان پردنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں اس صورتحال میں ہمیں مزید چوکس رہتے ہوئے اپنے دشمنوں پر کھڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم مزید مؤثر اور مربوط انداز میں ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کرسکیں۔ سیکیورٹی فورسز کی کوششوں اور لوگوں کے تعاون سے پچھلے دو مہینوں سے صوبے میں امن وامان کی مجموعی صورتحال میں غیرمعمولی بہتری آئی ہے تاہم ہمیں ہروقت چوکس رہنا چاہئے تاکہ دہشت گردوں کے عزائم ناکام ہوسکیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگرکوئی کالعدم تنظیم کسی دہشت گردی کے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتی ہے تو اس واقعہ کی مزید گہرائی سے تفتیش کی جائے تاکہ اس کے پیچھے ملوث عناصر اور ان کے نیٹ ورک تک پہنچناممکن ہوسکے۔

سوویت یونین کی افغانستان آمد کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک بڑا چیلنج کا سامنا کرناپڑرہا تھا اس دوران انہوں نے سوویت یونین کے خلاف جو اقدامات اٹھائے اور پالیسیاں بنائیں، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی توہر ایک نے اسے اپنے لئے چیلنج سمجھا۔

جب نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تو امریکہ اور نیٹو نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ نائن الیون کے پیچھے طالبان حکومت ملوث ہے جس کے خلاف پاکستان کی مکمل حمایت درکار ہے اور پاکستان فرنٹ لائن کا کردار ادا کرے۔ اس طرح اس جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن پر رکھا گیا۔ افغانستان سے طالبان حکومت کا خاتمہ تو ہوا مگر امن وامان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ پھر امریکہ نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا اور آج بھی پاکستان اس جنگ کی سزا بھگت رہا ہے۔

یہاں بڑے بڑے سانحات رونما ہوئے خاص کر بلوچستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں یہاں کے اہم لوگوں کو ہدف بنایا گیا۔اس سب کے باوجود پاکستان نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو پناہ دی لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسے شواہد بھی سامنے آئے کہ مہاجرین یہاں کی بدامنی میں ملوث ہیں جس کااظہار ہماری عسکری وسیاسی قائدین کرتے رہے ہیں مگر پھر بھی عالمی قوانین کے تحت پاکستان اپنا فرض ادا کررہا ہے ۔

دنیا کو یہ بات اب سمجھنی چاہئے کہ اس خطے میں دیرپااور پائیدار امن کیلئے یہیں کی قیادت کو فیصلہ کرنے کاموقع دیاجائے بجائے یہ کہ مزید طاقت کا استعمال کیا جائے اور الزام تراشی کا سلسلہ جاری رکھا جائے جو خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے گی جو کسی کے مفاد میں نہیں۔