|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2018

تین مارچ کے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے آنے والا نتیجہ غیر متوقع ہرگز نہ تھا، بلکہ طے شدہ اور یقینی تھا۔ یقیناًچیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بلوچستان کے میر صادق سنجرانی کی کامیابی بھی سیاست کی بازی گری کا کمال تھا۔

اب اسے کوئی جمہوری عمل یا جمہوریت کا حُسن کہے تو یہ اُس کی مرضی اور ظرف پر ہی منحصر ہے ۔ صادق سنجرانی کی کامیابی پر محمود خان اچکزئی نے اگلے روز یعنی تیرہ مارچ کو قومی اسمبلی کے فلو رپر کہا کہ ’’ہم زر اور زور کی وجہ سے ہار گئے اور جمہوریت کا جنازہ نکالا گیا ۔

‘‘ محمود خان اچکزئی کی جانب سے اس طرح کے رد عمل کی توقع تھی ہی ۔ مگر اس انہونی کو دیکھ کر میر حاصل بزنجو جیسے قدرے دھیمے اور محتاط سیاستدان بھی طیش میں آگئے۔ چیئر مین کے انتخاب کے معاًبعد ایوان بالا میں اپنی تقریر میں کہا کہ ’’پارلیمنٹ مکمل طور پر ہار چکی ہے۔آج ہاؤس کا منہ کالا ہوگیا ہے ،مجھے اس ہاؤس میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے ۔

بالا دست طاقتیں پار لیمنٹ سے طاقتور ہیں ‘‘جو کچھ حاصل بزنجو نے ایوان بالا میں کہا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ سینیٹ کے انتخاب کے بعد مسلم لیگ نواز پر صدمہ طاری ہوا اور برابر صادق سنجرانی کا منتخب ہونا ان کے زیر موضوع ہے۔

24مارچ کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ننکانہ صاحب کے قریب دریائے راوی پر پل کی افتتاحی تقریب میں بھی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کو اپنی تقریر کا لازمی حصہ بنایا۔ کہ’’ پیسوں سے لوگوں کے ووٹ اور ضمیر خرید کر چیئر مین سینیٹ منتخب کرایا گیا، اس سے لوگوں کے دلوں میں اُن کی عزت نہیں ہو سکتی۔

آج سینیٹ کا چیئرمین خریدے گئے ووٹوں سے وہاں بیٹھا ہے جس کی عوام میں کوئی عزت نہیں ۔‘‘ وزیر اعظم کے ان ریمارکس پر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کے حکومتی ساتھیوں نے بہت برا منایا ۔ حالانکہ اُ نہیں وزیر اعظم کی بات کی پرواہ اس لئے نہیں کرنی چاہئے کہ اب اُن کے بولنے سے کیا ہو گا جو مقصد کسی نے حاصل کر نا تھا وہ تو کر ہی لیا ہے ۔

اب خاموش رہنے میں ہی مصلحت ہے ۔ لیکن اگر قدوس بزنجو اور ان کے دوست عوام کو یہ باور کراتے رہیں گے کہ سینیٹ الیکشن میں سرے سے کچھ ہوا ہی نہیں توعوام ان کی اس تبلیغ کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔

عوام یہ سمجھتی ہے کہ بلوچستان میں جس انداز میں چھ آزاد سینیٹر منتخب ہوئے ،کو ووٹ ارکان اسمبلی نے ان کی عظیم سیاسی جہدو قر بانیوں، آئینی و قانونی امور پر بے پناہ گرفت رکھنے و خدمات کے صلے میں نہیں دئیے۔ اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے یقیناًان حضرات کو اللہ کے نام پر بھی اپنے قیمتی ووٹ نہیں دئیے ۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جناب آصف علی زرداری کا کرشمہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔

عبدالقدوس بزنجو کہتے ہیں کہ عمران خان ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان کا ساتھ دیا اور ہم بھی ثابت کریں گے کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں ۔ اب قدوس بزنجو کو کون سمجھائے کہ بلوچستان کے عوام تو پاکستان کے ساتھ ہیں ہی ۔

آپ مذکورہ حضرات کا ضرور ساتھ دیں بے شک آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے آپ پابند اور مقلد ہیں ۔اور ایسا بھی ہرگز نہیں کہ محض آصف علی زرداری اور عمران خان ہی پاکستان کے مفاد اور ترقی کیلئے کُڑتے ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو نے 29مارچ کو کوئٹہ کے پرفضاء وتفریحی مقام ہنہ اوڑک کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں کچھ وقت عمران خان کے ساتھ گزارا ۔

دونوں حضرات نے وہیں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت بھی کی ۔ عمران خان کے پہلو میں کھڑے ہو کر عبدالقدوس بزنجو نے شاہد خاقان عباسی کے چیئر مین سینیٹ کے حوالے سے ریمارکس کا ذکر چھیڑا ، کہ’’ جو بیان صادق سنجرانی سے متعلق انہوں نے دیا ہے ، اس سے بلوچستان سمیت پورے ملک کی عوام کو دھچکا لگا ہے اور بلوچستان کے عوام کو دُکھ پہنچا ہے ۔

اور بلوچستان کے عوام مسلسل یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم چیئر مین سینیٹ سے متعلق اپنا بیان واپس لے لیں ورنہ صوبے کے عوام اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے ۔‘‘ دیکھا جائے تو ملک اور صوبے کی عوام کو در اصل صادق سنجرانی کے چیئرمین منتخب ہونے پر دھچکا لگا ہے ۔ عوام کو ان کا کامیاب ہونا ’’سامری جادوگر‘‘ کا جادو ہی لگا۔ یقینااس طرح کے اپ سیٹ سے لوگوں کو دھچکا ہی لگتا ہے ۔

معلوم نہیں کہ بلوچستان کے عوام نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کب اور کہاں کیا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ دو درجن لوگ کوئٹہ پریس کلب کے باہر جمع ہو گئے تھے ،ان کے ہمراہ پلے کارڈز پر ایسی تنظیموں کے نام درج تھے کہ اس شہر کوئٹہ کا باسی ہونے کے باوجود میں نے یہ نام آج تک نہیں سنے تھے۔

معلوم نہیں کہ کون سی مخلوق تھی ۔ عبدالقدوس بزنجو نے بیان واپس نہ لینے کی صورت میں اسلام آباد لانگ مارچ کی تڑی بھی دے دی ۔لیکن وزیر اعظم نے اُس کے بعد پھر دہرایا کہ وہ اپنی بات پر قائم ہیں اور تکرار کیا کہ سینیٹ انتخاب میں پیسہ چلا اور ہارس ٹریڈنگ ہوئی بلکہ یہ بھی کہہ ڈالا کہ صادق سنجرانی کی جگہ نیا چیئرمین سینیٹ منتخب کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور آصف علی زرداری اور عمران خان کو ان انتخابات کے دوران ہیرا پھیری میں ملوث قرار دیا۔

بہرکیف ہم منتظر ہیں کہ عبدالقدوس بزنجو کی معیت میں ہزاروں لاکھوں افراد پر مشتمل بلوچستان کے عوام کا احتجاجی قافلہ کب اسلام آباد کا رُخ کرے گا۔ویسے ہونا یہ چاہئے کہ عبدالقدوس بزنجو اس مقصد کیلئے پہل اپنے آبائی ضلع آواران سے کریں۔ ایک عوامی رہنما اور سیاسی قائد کی حیثیت سے نہ صرف آواران شہر بلکہ دور دراز کے دیہاتوں اور قصبوں میں جا کر عوام کو بیدار کریں اور وہیں سے لانگ مارچ کا آغاز کر دیا جائے ۔

یوں ژوب تک صوبے کے محبانِ وطن ایک فقید المثال لانگ مارچ کا حصہ بن جائیں گے بلکہ اس غرض کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو سکتی ہے! ۔ اور وہ درجن بھر افراد جنہوں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا کو اگر جیب خرچی دی جائے تو وہ بھی ضرور اپنی شرکت یقینی بنائیں گے۔

دو اپریل کو وزیر مملکت پیٹرولیم جام کمال نے وزارت چھوڑ دی ۔ٹی وی چینلز پر خبر چلی کہ وزیر موصوف نے استعفیٰ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے سینیٹ کے نو منتخب چیئرمین پر تنقید کے ردعمل میں دیا۔خبر اگلے روز اخبارات میں بھی لگی ۔اگر ایسا ہی ہے تو جام کمال نے اپنے والد جام یوسف مرحوم کے مزاج کے برعکس اقدام اُٹھا کر کمال کر دکھا یا ہے ۔

جام یوسف مرحوم 2002ء کے انتخابات کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے ۔تعلق کنگز پارٹی سے تھا (ق لیگ )۔پرویز مشرف کی آمریت کا سورج نصف النہار پر تھا ۔ اسی سیاہ دور میں26اگست 2006کو نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کا سانحہ پیش آیا۔ اس واقعے نے پورے پاکستان کو جھنجوڑ کر کے رکھ دیا۔

کوئٹہ سمیت آدھا بلوچستان کئی روز تک بند رہا بلکہ آدھا بلوچستان احتجاج کے دوران جل گیا تھا ۔ شمالی بلوچستان میں بھی احتجاج ہوا۔ ان اضطراری حالات میں اکتوبر 2006ء میں قلات کے اند ر گرینڈ بلوچ جرگہ منعقد ہوا ۔پیش ازیں بلوچ قبائل کا بڑا جرگہ 1876 ء میں ہوا تھا ۔چناں چہ اس جرگہ میں سندھ اور پنجاب کے بلوچ قبائلی رہنما بھی شریک ہوئے۔یہاں تک جذباتی ما حول تھا کہ فیڈریشن سے لاتعلقی اختیار کرنے تک کی باتیں ہو ئیں۔

مگر جام یوسف مر حوم ٹس سے مس نہ ہوئے۔اور با کمال فرزند نے صوبے سے تعلق رکھنے والے چیئر مین سینیٹ پر محض تنقید کی پاداش میں وزارت کو لات ماردی ،واہ!۔جام کمال نے اگر مستعفی ہی ہونا تھا تو صاف صاف کہہ دیتے کہ میں نے بلوچستان کے آئندہ کے سیاسی منظر نامے میں خود کو فٹ کر نا ہے یا بلوچستان کا آئندہ وزیر اعلیٰ بننے کی تگ و دو کرنی ہے ۔کذب کی کیا ضرورت تھی ۔