|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2018

کوئٹہ: وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ محدود وقت میں بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اپنے عوام کو مایوس نہیں کرینگے کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں زیر زمین پانی کا مسئلہ گھمبیر صورتحال اختیار کر تا جا رہا ہے ۔

اگر ہم نے اس پر توجہ نہ دی تو آئندہ آنیوالی نسلیں پیاسی رہ جائے گی کوئٹہ سمیت صوبے بھر کے لئے گریٹر ووٹر اتھارٹی بنانے کی اشد ضرورت ہے ایسے حصول وضح کرنے کی ضرورت ہے جو آئندہ آنیوالی حکومتوں کے لئے بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہو ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بلوچستان ایڈیٹر کونسل کے وفد سے بات چیت کر تے ہوئے کہی اس موقع پر چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق،صوبائی سیکریٹری اطلاعات محمد طیب لہڑی، ڈی جی پی آر شہزاد ہ فرحت احمدزئی اورمحکمہ فنانس کے متعلقہ حکام سمیت دیگر افراد بھی موجود تھے ۔

وفد کی قیادت بلوچستان ایڈیٹر کونسل کے صدر انورساجدی کر رہے تھے وفد میں روزنا مہ جنگ کے خلیل الرحمان، روزنامہ ایکسپریکس کے رضا الرحمان، بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر خلیل احمد، روزنامہ اعتماد کے جاوید احمد خان ودیگر بھی موجود تھے ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت میڈیا کی آزادی پرمکمل یقین رکھتی ہے بلوچستان میں اخباری صنعت سے وابستہ لوگوں کے مسائل سے حکومت بخوبی آگاہ ہے ۔

انہوں نے اس موقع پر اخبارات میں15 ٹیکس عائد کرنے کے معاملے کو آئندہ ایک دو روز میں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی وزیراعلیٰ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ صوبے میں میں اخبارات کا دارو مدار صوبائی حکومت پر منحصر ہے وہ کسی طور پر بھی اخباری صنعت کو تباہ نہیں ہونے دینگے ۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان نے بات چیت کر تے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں پانی کا مسئلہ گھمبیرصورتحال اختیاکر تا جا رہا ہے پانی زندگی ہے اس کے ایک ایک قطرے کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں پینے کے صاف پانی کے لئے سابقہ حکومتوں نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور آج حالات انتہا ئی خطرناک صورتحال کرتا جا رہا ہے

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سمیت صوبے بھر کے لئے ایک واٹر اتھارٹی بنانے کی ضرورت ہے جس میں پینے کے صاف پانی سمیت پانی سے منسلک تمام شعبوں کو اس اتھارٹی میں شامل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے اور وسائل بہت زیادہ شہر کی صفائی پر ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنے ہو گی ہم ایک طرف مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر تے تو دوسرا مسئلہ سر اٹھالیتا ہے

وزیراعلیٰ نے ڈاکٹرز کی ہڑتال پر سخت برہمی کا اظہار کر تے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف ڈاکٹرز عوامی خدمت کا دعویٰ کر تے ہیں تود وسری طرف ہڑتالیں کر کے عوام کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ خود بھی سول ہسپتال کا دورہ کر چکے ہیں ہسپتال کی حالت انتہائی خراب اور ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کا انہوں نے نوٹس بھی لیا لیکن اس کے باوجود حالت بہتر نہ ہو سکی افسوس مجھے اپنے آپ پر ہو تا ہے کہ ڈاکٹرز اپنے آپ کو مسیحا کہتے ہیں لیکن ہسپتال میں غریب مریضوں کو چیک کرنے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ جلد ہی کوئٹہ پیکج پر کام شروع کر دیا جائیگا اس حوالے سے صوبائی حکومت کمانڈر سدرن کمانڈ کی بھر پور حمایت حاصل ہے جلد ہی کوئٹہ کے شہریوں کے لئے مسائل کو کم سے کم کرکے ان میں ایک خوشحال اور پرسکون زندگی گزارنے کا موقع میسر کرینگے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں اس کی پرواہ کہ سیاسی طور پر ہمارے مخالفین ہم پر تنقید کر رہے ہیں

ہم کم وقت میں وہ کام کر دیکھنا چا ہتے ہیں جو ماضی کی حکومتیں نہ کر پائی بلوچستان کی وسائل کو بلوچستان کے عوام کی امانت سمجھتے ہیں اور یہ وسائل انہیں پر خرچ کئے جائینگے۔

دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ بہت سے تحفظات کے باوجود ہم نے بلوچستان کی روایات کو ملوظ خاطر رکھتے ہوئے بڑے بن کا مظاہرہ کیا اور کھلے دل کے ساتھ وزیراعظم شاہد خان عباسی کا پرتپاک استقبال کیا اور انہیں ملک کے سربراہ کی حیثیت سے پروٹوکول دیا

لیکن بعد ناعاقبت اندیش دوست ہماری اس روایت کو اپنی سیاست چمکانے کیلئے جو رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

شاید نہ صرف صوبے کی روایات کے منافی بلکہ سیاسی آداب کے بھی بر خلاف ہے یہ بات انہوں نے کوئٹہ شہر کے دورے کے موقع پر صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کر تے ہوئے کہی ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ ہمارے یہ سیاسی دوست ایسی باتیں کر کے شاید اپنی پارٹی کے جلسہ عام کے پنڈال کو بھرنے کی خواہش رکھتے تھے انہیں معلوم ہونا چا ہئے کہ کل تک جو لوگ ان کے جماعت اور ان کے ساتھ تھے ۔

آج وہ ان کے ساتھ نہیں جس طرح وہ ماضی میں اپنے دوسرے اتحادی جماعتوں کے جلسوں میں جاتے رہے ہیں ہماری اپنی جماعت ہے اور اپنا سیاسی قد ہے ہم کسی دوسری جماعت کے جلسے کے اسٹیج پر جا کر اپنا سیاسی قد بڑھانے کا شوق ہر گز نہیں رکھتے روایات کی پاسداری کا شائد ہیں ۔

ان سے زیادہ خیال ہے ہم نے اپنے تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مہمان کا پر تپاک استقبال کر کے انہیں عزت واحترام دیا اور صوبے کی روایات کا خیال رکھا اور کس اور جماعت کے جلسہ میں اپنا قد بڑھانے کی کوشش نہیں کی اگر کوئی اسے بلوچستان کی روایات کے بر خلاف سمجھتا ہے تو یہ ان کے اپنے زہن کی اختراع ہے۔