|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2018

افغانستان گزشتہ سترہ سالوں سے امریکی افواج کے پنجہ استبداد میں ہے ۔ افغانوں کی آزادی اور خود مختاری سلب ہے ۔

نیویارک میں ستمبر 2001 کو ہونے والے واقعات کے بعد امریکہ نے افغانستان کو ہولناک ہوائی حملوں کے ذریعے تاراج کیا۔ ہزاروں لاکھوں افغان عوام موت کے گھاٹ اُتارے گئے ، بستیاں اور آبادیاں اُجڑ گئیں۔

قابض ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی مرضی کی مشینری اور حکو مت مسلط کر دی۔ اس سارے عرصے میں افغان عوام اور ان کی آبادیاں خارجی افواج کے نشانے پر رہی ہیں ۔

گرفتاریاں،گمشدگیاں اور عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد اور ایذا رسانیوں کی المناک داستانیں رقم ہوئی ہیں ۔ان زیادتیوں کو چھپانے کی کوشش کی تو جاتی ہے مگر دنیا اور افغان عوام سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔

پیر 2اپریل افغانستان کے صوبہ قندوز کے ضلع دشتِ اچی کے پٹھان بازار کے علاقے میں ایک مقامی مدرسے دارلعلوم ہاشمیہ پر جس وحشیانہ انداز میں افغان طیاروں کی بمباری ہوئی ہے ، نے دنیا کے با ضمیر حلقوں کو جھنجھوڑا ہے ۔

مگر اس سانحہ رو ح فر سا، جس میں نہتے حفاظ جن کی دستاری بندی ہونے جا رہی تھی پاکستان کے اُن طبقات کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی جو اول تا آخر پاکستان ہی کو افغانستان کے مسائل اور عدم استحکام کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ۔

افغانستان کے ایوانوں سے انفرادی حوالوں سے تو آوازیں اُٹھی ہیں لیکن حکومتی سطح پر سوائے سانحے کی تحقیقات کے روایتی جملوں کے علاوہ کچھ نہ سنا گیا۔

بلکہ افغان وزارت دفاع نے اُلٹا ڈھٹائی ، بے شرمی اور دروغ گوئی کی انتہا کر دی ۔ یہ دعویٰ کیا کہ حملے میں اٹھارہ اہم طالبان لیڈرز جن میں سے ایک کوئٹہ شوریٰ کا رُکن بھی شامل ہے مارے گئے۔

اگر کوئی طالب رہنما یا کمانڈر موجود بھی ہوتا تو افغان فورسز کو عام لوگوں اور طلباء کی موجودگی میں کاروائی سے گریز کرنا چاہیے تھا۔

افغان وزارت دفاع کے اس جھوٹ کے برعکس وہاں کے شہریوں نے وزارت دفاع کے اس دعوے کو ڈھونگ قرار دیا ۔

ان افراد کے مطابق مدرسے میں فضلاء اور حفاظ کرام کی دستار بندی کی مناسبت سے سالانہ جلسہ جاری تھا۔اور اِ س تقریب میں ہزاروں لوگ شریک تھے ۔ فارغ التحصیل طلباء کے والدین ،عزیز و اقارب اور دوست و احباب شریک تھے۔

فضلاء و حفاظ کے سروں پر دستارِ فضیلت سجائی گئی۔ یہ نوجوان اور ننھے طلباء مبارکبادیں وصول کر رہے تھے کہ اس دوران افغان طیاروں نے بمباری شروع کر دی ۔کئی ننھے حفاظ کرام شہید ہو گئے ۔ جن کے جسموں کے ٹکڑے اور کفن میں لپٹی لاشیں پوری دنیا نے دیکھ لیں۔

پاکستان کے اندر جمعیت علمائے اسلام،جماعت اسلامی ،اور دوسری مذہبی جماعتوں نے اس بربریت پر احتجاج کیا ۔

عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کا مذمتی بیان بھی نظروں سے گزرا ، تاہم بہت ساری ایسی تنظیمیں جو خود کو افغانستان کے سود و زیاں میں شامل سمجھتی ہیں کے لب خاموش ر ہے ۔اور پاکستان کے وہ حلقے جو انسانی حقوق اور احترام کے پرچار کے دعویدار ہیں بھی اس خون آشامی پر خاموش ہیں ۔

پاکستان کے پشتون زُعماء سے سامراجیوں کی حمایت کا سوال افغان عوام ضرورکریں گے ۔ ان زُعماء نے تب روسی قبضے اور ظلم و زیادتیوں کو جائز قرار دیا تھا ۔1978 کی وہ کودتا ناجائز تھا۔

روسی صدرخروشچیف (1953 ء1964ء )نے پولینڈ میں اعلانیہ کہا تھا کہ اس کا ملک دنیا بھر کے کمیونسٹ انقلابوں کی مدد کرے گا۔

بعد میں آنے والے توسیع پسند ’’برزنیف ‘‘نے افغانستان کا کنٹرول حاصل کر لیا۔چناں چہ افغانستان آکرروسی افواج افغان آبادیوں اور قصبوں کو نشانہ بناتے رہے اور انسانی حقوق کی پامالی کے سنگین جرائم میں ملوث رہے ۔

افغان خواتین کی بے حرمتی کی گئی ، افغا ن آبادیوں پر بمباری کی جاتی تاکہ وہ مجبور ہو کر پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور ہوں۔ اورسترہ سالوں سے افغان وطن اور ملت پر امریکہ قابض ہے ۔

پاکستان کے ایوان زیریں و ایوان بالا میں ایسے پشتون زُعماء بھی ہیں جو اپنی تقریروں میں افغانستان کو آزاد اور جمہوری ملک کہہ کر پکارتے ہیں ۔ وہ افغان حکومت کہ جس کو سر ے سے اپنے وطن پر اختیار ہی حاصل نہیں ۔

امریکی اور نیٹو فورسز اپنے اختیار کے تحت افغانستان کے کسی بھی علاقے کو کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتی ہیں۔

لو گوں کو غائب کر سکتی ہیں۔ افغان حکومت جو امریکی سائے تلے بد عنوانی اور عیاشیوں میں مبتلا ہے ۔جس کی فورسز نے لا قانونیت کی ہر بد ترین مثال قائم کر رکھی ہے ۔کمر عمر لڑکوں کو زیادتیوں کا نشانہ بناتی ہے ۔

فورسز سرکاری اسلحہ فروخت کرنے میں بھی ملوث رہی ہیں ۔ نشے کی لت ان میں عام پائی جاتی ہے ۔یہ ساری بری صفات روس کے دور میں بھی افغان فوج اور دوسری فورسز میں موجود تھیں۔

اس آزاد و جمہوری افغانستان میں جب امریکی حکام آ تے ہیں تو فوجی اڈوں سے نکلتے تک نہیں ۔ افغان صدر اور دوسرے حکام ان کے فوجی اڈوں میں جا کر ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں ۔

امریکہ کی ایک صحافی ’’لارا لوگن‘‘ جوافغانستان گئی تھیں نے بتایا ہے کہ امریکی فوج کابل ایئر پورٹ سے اپنے اڈے تک جانے کیلئے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتی ہے ۔جبکہ یہ فاصلہ محض چند کلومیٹر ہے ۔انگریز کے خلاف جدوجہد و جنگ کا سہرا لینے والے پشتون بڑوں کا ضمیر مردہ بن چکا ہے ۔

جنہیں افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا سامراج دکھائی نہیں دیتا۔امارت اسلامیہ پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ مذاکرات اور امن کا راستہ اختیار کریں ۔

لیکن کبھی امریکی افواج سے نکلنے کا محض میٹھے لہجے میں بھی مطالبہ نہیں کیا جاتاہے ۔ادھر افغانستان کے صوبے ہلمند میں چند نوجوانوں نے تا دم مرگ بھوک ہڑتال کر رکھی ہے جو چاہتے ہیں کہ افغان طالبان جنگ بندی کا اعلان کریں۔

اسی ہلمند میں خواتین نے بھی اس مقصد کیلئے دھرنا دے رکھا ہے، ان خواتین نے یہ بات بھی کہی ہے کہ وہ طالبان کے مراکز تک مارچ کریں گی ۔ طالبان نے ان کا خیر مقدم کیا ہے اور انہیں خوش آمدید کہاہے ۔

اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ کاش یہ بھوک ہڑتال اور دھرنے خارجی افواج کے افغان سر زمین سے انخلاء کیلئے دئیے جاتے ۔

یقیناًاس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں سیاسی سطح پر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کی تحریک کا آغاز ہو ۔

افغانستان کے اندر حزب اسلامی سیاسی طور پر اس مقصد کی خاطر فعال اور منظم کردار ادا کر رہی ہے ۔قندوز سانحہ پر حزب اسلامی اور امارت اسلامیہ کا جاری ہونے والا اعلامیہ عین افغان عوام کی ترجمانی کرتا ہے ۔

غیر ملکی افواج کو نکلنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو افغانستان میں عوامی حکومت کے قیام کا راستہ ہموار ہو گا۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہی نے افغانستان پر جنگ مسلط کر رکھی ہے ۔ امریکہ نکلتا ہے تو امارت اسلامیہ کیلئے جنگ کی نوبت اور جواز باقی نہیں رہے گا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ افغا ن طالبان کی مزاحمت جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے افغانوں نے انگریزوں کے خلاف 1839 ء میں پہلی جنگ ،1878ء تا 1880ء دوسری جنگ اور1919ء کی تیسری جنگ لڑی تھی ، اور اپنا استقلال حاصل کر لیا تھا۔ طالبان کی اس مزاحمت کو مشکوک یا متنازعہ بنانے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔

افسوس کہ مولانا محمد خان شیرانی بھی اس حوالے سے ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں ۔مولانا شیرانی نے تو ملا محمد عمر کے وجود ، انتقال ، نمازجنازہ اور تدفین تک کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ جب مو لانا ولی محمد ترابی جے یو آئی کو ئٹہ کے امیر منتخب ہوئے تو مو لانا شیرانی کے ایک بڑے سیاسی مرید نے مجھے بتایا کہ ایک سابق جہادی کو امیر بنایا گیا ہے ۔

گو یا اس نے تضحیک اور طنز یہ لہجے میں ایسا کہا ۔افغانستان کا ایک غالب رقبہ کٹھ پتلی حکومت کے کنٹرول میں نہیں رہا ہے ۔ اس حقیقت کو امریکی حکام تو تسلیم کرتے ہیں مگر ہمارے محبان وطن تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔

روسی قبضے کے دوران جب مجاہدین نے اعلان کیا کہ افغانستان کا اسی فیصد علاقہ ان کے تصرف میں آچکا ہے تو پاکستان کے پشتون زعما ء اپنی تقریروں میں تمسخر اُڑاتے کہ اگر ایسا ہے تو مجاہدین اپنی حکومت کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے ۔اور چشم فلک نے دیکھا کمیونسٹ رجیم کابل سے بھی بھاگنے پر مجبور ہو گئی تھی ۔

سورج کو آج بھی دو انگلیوں سے چھپانے کی احمقانہ کوشش کی جا تی ہے ۔قندوز کے دینی مدرسہ میں ہونے والے قتل عام کی باز پرس افغان عوام ، کٹھ پتلی حکومت اور قابض امریکہ سے کرنے کا حق رکھتی ہیں ۔ الغرض عالمی دنیا افغانستان کے اندر انسانی حقوق کی پامالی ،جنگی جرائم کو روکنے اور اس کی تحقیقات کے لئے آواز بلند کرے۔