یہ سال2013ء کے مہینے مارچ کی20 تاریخ تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطہ میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کا جَمگھٹا تھا ۔جمعیت علماء اسلام، پشتونخوامیپ، نیشنل پارٹی کے لوگ موجود تھے۔ نوابزادہ طارق مگسی، شیخ جعفر خان مندوخیل ،اسلم بھوتانی ،مولانا عبدالواسع اور اس وقت کے بلوچستان اسمبلی میں اسپیکر سید مطیع اللہ آغا بھی حاضر تھے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں نوابزادہ طارق مگسی کی درخواست پر شنوائی ہورہی تھی۔ حکومت نواب اسلم رئیسانی یعنی پیپلز پارٹی کی تھی اور یہ بڑی نرالی حکومت تھی جس میں پوری اسمبلی حزب اقتدار کا حصہ تھی۔ حزب اختلاف تھی ہی نہیں محض نوابزادہ طارق مگسی آزاد بنچ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی غیر فعال تھے۔ اسلم بھوتانی طویل عرصہ اسپیکر رہے۔
ان کی اور حکومت کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ اس خاطروہ 26 مارچ 2012 ء کوعدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹا د یئے گئے ۔ اسلم بھوتانی جب اسپیکر تھے تو وہ برابر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کو حکومت کے خلاف مواد فراہم کرتے۔ان میں پشتونخوامیپ کے نشانے پر جمعیت علمائے اسلام(ف) اور اے این پی تھی۔ جبکہ نیشنل پارٹی کی نگاہ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کی کمزوریوں پر مرکوز تھی۔ 14 فروری 2013 ء کو صوبے میں گورنر راج کا نفاذ ہوا جو 13 مارچ 2013 ء تک نافذ رہا۔
آصف علی زرداری نواب اسلم رئیسانی کو زیر نہ کرسکے۔نواب رئیسانی نے تاوقت آخر استعفیٰ نہ دیا ۔نواب رئیسانی نے بہت سارے معاملا ت کو سنجیدہ نہ لیا تھا ۔ویسے نواب اسلم رئیسانی کمزور آدمی بھی نہ تھے۔ دباؤ ان پر بھی مختلف حوالوں سے تھا لیکن موجودہ حکومت کے نوابوں اور سرداروں کے برعکس وہ کسی کے آگے سرنگوں نہ ہوئے۔
چنانچہ حکومت کے آخری دنوں میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے اراکین اسمبلی نے حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھنے کیلئے اسپیکر کو درخواست دی۔ اسپیکر نے انہیں حزب اختلاف کی نشستیں الاٹ کردیں۔ اسپیکر سید مطیع اللہ آغا کا تعلق بھی جے یو آئی سے تھا۔ اس حکومت میں شیخ جعفر خان مندوخیل کے پاس وزارت نہ تھی وہ لینا بھی نہیں چاہتے تھے ۔مگراسمبلی کے اندر فعال تھے ان کی تنقید بڑی نوک دار ہو ا کر تی تھی۔
چنانچہ اسلم بھوتانی اور شیخ جعفرخان مندوخیل کے تعاون سے نوابزادہ طارق مگسی نے عدالت سے رجوع کیا۔ اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ساڑھے چار سال حکومت اور وزارتوں پر رہنے کے بعد حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھا جا ئے ۔ دراصل یہ نواب رئیسانی کی حکومت کا باہمی مشورہ تھا ،کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد نگراں وزیراعلیٰ اور کابینہ کا انتخاب وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے طے کیا جانا تھا۔
مولانا عبدالواسع اس اسکیم کے تحت قائد حزب اختلاف بنے تھے۔غرض عدالت نے درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی۔۔ قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ باز محمد کاکڑ شہید ایڈووکیٹ مولانا عبدالواسع کی جانب سے معزز چیف جسٹس کے سامنے زبردست دلائل دے رہے تھے۔
گویا اسمبلی قواعد و ضوابط کو بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش کردیا۔ عدالت نے کئی موا قع پر سیکریٹری اسمبلی کو بھی کوسا۔ میری ساتھ والی نشست پراسلم بھوتانی بیٹھے ہوئے تھے۔ فریق ہونے کے باوجود مجھ سے سرگوشی کی کہ سیکریٹری اسمبلی جو کچھ عدالت کو بتارہا ہے عین یہی ضابطہ اور قانون ہے۔ چو نکہ نواب رئیسانی حکومت کے خلاف مبالغہ کی حد تک پروپیگنڈہ ہوچکا تھا۔ اس عرصہ میں صوبے کے حالات خرابی کی انتہاء پر تھے۔ اسی بناء پر گورنر راج کا نفاذ ہوا تھا۔
اس خاطر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی عمومی فضاء کو مدنظر رکھ کر فیصلہ نوابزاہ طارق مگسی کے حق میں دیا ،وہ قائد حزب اختلاف بنے۔یو ں نگراں وزیراعلیٰ مشاورت سے نواب باروزئی بنائے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ شہید باز محمد کاکڑ ایڈووکٹ نے سماعت کے دوران معزز چیف جسٹس سے ازراہ مذاق کہا کہ آپ جلدی فیصلہ سنادیں تاکہ ہم سپریم کورٹ میں اپیل کی تیاری شروع کردیں۔
مولانا عبدالواسع نے ہمیں احاطہ عدالت میں بتایا کہ وہ سپریم کورٹ سے اسمبلی کے اس ضابطے ،قائدے اور قانون کی وضاحت کیلئے رجوع کر یں گے ۔ اب مولانا عبدالواسع اس غلط فیصلے کو بنیاد بناکر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کے خلاف عدالت میں گئے ہیں(اُنیس مارچ کو عدالت میں پٹیشن داخل کی گئی)۔یقیناًان کا یہ اقدام اپنے سابقہ قول اور رائے کی ضد ہے۔
پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی اقتدار سے بے دخل کردیئے گئے ہیں۔اب اگر وہ حزب اختلاف کی نشستوں پر نہ بیٹھیں تو کہاں جائیں؟۔ اسپیکر کو حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے کیلئے درخواست دی۔ 23ارکان کی حمایت حاصل ہوئی ۔اسی طرح15مارچ کو پشتونخوامیپ کے عبدالرحیم زیارتوال کا بطور قائد حزب اختلاف نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ مولانا عبدالواسع ہنوز کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ 13 اراکین ہیں اور ہم حزب اختلاف میں ہیں۔
آپ یقیناًحزب اختلاف کا حصہ ہو لیکن اکثریت ثابت نہ کرنے کی بناء پر آ پ عبدالرحیم زیارتوال کو بطور قائد حزب اختلاف تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مولانا عبدالواسع یا جے یو آئی تضادات کا شکار ہیں۔ حکومت کا بھی بالواسطہ حصہ ہیں اور حزب اختلاف سے بھی چمٹے ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر جے یو آئی کے تمام ارکان نے عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیئے۔ رؤف عطاء ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان بنائے گئے ۔
منصوبہ بندی و ترقیات کا محکمہ مولانا عبدالواسع کا بھائی محب اللہ چلارہا ہے۔ محکمہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی جے یو آئی کے رکن مفتی گلاب کے تصرف میں ہے۔ اور شنید ہے کہ کوئٹہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا اختیار بھی جے یو آئی کے رکن اسمبلی خلیل دمڑ کو دیا گیا ہے۔
کیا ایک نظریاتی اور دینی جماعت کو یہ دو رنگی زیب دیتی ہے؟ اخلاقاً مولانا عبدالواسع کو دائر کی گئی رٹ پٹیشن واپس لے لینی چاہیے کیونکہ عدالت کا وہ فیصلہ خود مولانا عبدالواسع اور ان کے پیرِ سیاست مولانا محمد خان شیرانی نے درست قرار نہیں دیا تھا۔ مجھے بی این پی عوامی، اے این پی اور بی این پی کے حزب اختلاف سے وابستگی کی منطق بھی سمجھ نہیں آتی۔
میر ظفر زہری تو عبدالقدوس بزنجو کی ہر محفل میں شریک رہتے ہیں۔ ایسی ہی سیاست نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو کی ہے۔ حکومت میں ہیں اور نیشنل پارٹی میں بھی ہیں۔27مارچ کے اجلاس میں مولانا عبدالواسع سے اُلجھ پڑے، پیش ازیں بھی اسمبلی اجلاسوں میں زودرنجی و تلخی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ مولانا عبدالواسع نے پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کی پچھلی حکومت پر تنقید کی، کہا کہ پانی کی ٹینکیوں سے پیسے برآمد ہوئے۔
ظاہر ہے کہ میر خالد کے گھر یا دفتر سے ایک پائی بھی برآمد نہیں ہوئی۔ جن کے گھروں سے رقم برآمد ہوئی وہ پوری دنیا کو معلوم ہے۔ لہٰذا خالد لانگو حوصلہ مند رہیں۔ اگر وہ سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کیس میں با عزت بری ہوبھی جائیں تو معاشرے کا عمومی مزاج رہا ہے کہ وہ طعنہ زنی کرتا رہے گا۔
میر خالد لا نگو نیشنل پارٹی کے ساتھ نبھا نہ کرسکے ہیں۔ پارٹی نے بھی کسی موقع پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ الیکشن کمیشن میں ڈی سیٹ کرنے کی درخواست تو چھو ریئے ،آج تک اخباری بیان تک میں ان پر تنقید نہ کی ہے ۔ بہتر ہے کہ میر خالد نیمے دروں ونیمے بروں کی کیفیت سے نکلنے کا خود ہی فیصلہ کریں۔