|

وقتِ اشاعت :   April 20 – 2018

غیرملکی خبررساں ادارے نے رپورٹ کی ہے کہ امریکی حکام کے مطابق یکم مئی سے پاکستانی سفارتکاروں کی نقل و حرکت جوابی طور پر محدود کردی جائے گی اور وہ اپنے تعینات کردہ مقام سے 40 کلو میٹر کی حدود میں رہیں گے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو سرکاری طور پر اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔

امریکہ کے سیاسی امور کے لیے انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ نائب وزیر خارجہ تھامس شینن کا کہناہے کہ امریکہ یہ سب اس لیے کر رہا ہے کیونکہ پاکستان میں امریکی سفارتکاروں کو اسلام آباد کی جانب سے پہلے ہی اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔

امریکی نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ سفارتکاری میں اس طرح کے اقدامات معمول کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کاروں کو اپنے مقام سے دور سفر کرنے سے قبل حکومت پاکستان کو مطلع کرنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو اطلاع دی گئی ہے کہ یکم مئی سے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے اور دیگر شہروں میں موجود قونصلیٹ کا عملہ بغیر اجازت کے 40 کلو میٹر سے باہر سفر نہیں کر سکے گاجبکہ سفارتکاروں کو 40 کلو میٹر کی حدود سے زیادہ سفر کرنے کے لیے کم از کم 5 روز قبل درخواست دینا ضروری ہو گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اٹھایاجانے والا یہ قدم انتہائی غیر مناسب ہے اس سے صاف واضح پیغام دیاجارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے اور امریکہ نے جس طرح کا جواز پیش کیا وہ انتہائی نامعقول ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے حالات میں فرق ہے، پاکستان میں تمام غیرملکیوں کی سیکیورٹی کے پیش نظر ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں کیونکہ پاکستان اس وقت دہشت گردوں کے خلاف نبرد آزما ہے اور خدشہ ہے کہ دہشت گرد کسی بھی جگہ کارروائی کرسکتے ہیں۔ پوری دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ پاکستان میں شدت پسند گروہ انتشار پھیلانا چاہتے ہیں جس کی پشت پناہی غیرملکی دشمن عناصر کررہے ہیں مگر امریکہ کی جانب سے اس طرح کا روش اپنانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لاناچاہتا ہے تاکہ وہ اپنے اہداف مکمل کرسکے ۔ 

امریکہ کا اتحادی بن کر فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے کے باوجودپاکستان کے کردار کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھاگیا اور قربانیوں کو فراموش کردیا گیا ۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ کو نومور کہنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ انتقامی کارروائی پر اتر آیاہے۔ چونکہ یہ بات صاف ہے کہ امریکہ میں پاکستان جیسے حالات نہیں تو پھر صرف پاکستانی سفیروں کے ہی نقل وحرکت پر پابندی کیوں عائد کی جارہی ہے۔

یہ سب پر لاگوہونا چاہئے جس طرح پاکستان اپنی حکمت عملی کے تحت پالیسی مرتب کررہا ہے اور مناسب رویہ اختیار کرتے ہوئے تمام غیرملکی سفیروں کیلئے یکساں قانونی طریقہ کار اپنایا ہے۔ امریکہ افغان جنگ میں ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے اور یہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ 

حال ہی میں پاک افغان تعلقات اور مذاکرات کی بحالی پر بات چیت ہوئی ہے جس پر پاکستان نے ہر سطح پر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے البتہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ اب کسی اور کے جنگ کا حصہ ہم نہیں بنیں گے کیونکہ اس جنگ کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان اٹھاناپڑا ہے ۔ امریکہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی بجائے ماحول کو مزیدکشیدہ کرنے کے درپے ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں۔