|

وقتِ اشاعت :   April 29 – 2018

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے آزادیِ اظہار رائے کی صورتِ حال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ ” رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” کی حالیہ رپورٹ میں ،اس موقر تنظیم کی طرف سے جن161 ملکوں کا جائزہ لیا گیا،ان میں پاکستان میں آزادیِ اظہار اور برداشت کی صورت حال کو139 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔البتہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں بھارت کا 138 واں نمبر ہے۔

زیادہ تر آزاد پریس ناروے، سوئیڈن اور ڈنمارک میں ہے،یہ تمام ممالک سوشل ڈیمو کریسی پر عمل کرتے ہیں۔اب جب کہ نئے انتخابات قریب ہیں اور” ملٹ اسٹیبلشمنٹ” انتخابی نتائج کو سیاسی طور پر اپنی پسند کے مطابق بنانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے، میڈیا پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ہمیشہ کی طرح یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا آزادی صحافت کی کوئی حد ہونی چاہیئے؟اور کیا ایک آزاد عدلیہ کے بغیر آزادیِ صحافت ممکن ہے؟

آئیے ان دو سوالوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اُن لوگوں کی طرف سے جو مراعات یافتہ حکمران طبقات سے تعلق رکھتے ہیں یا ابھی تک جمہوری اقدار کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں،میڈیا کے بارے میں مخصوص قوانین کے ذریعے آزادی صحافت کو محدود کرنے کا سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے۔

بعض صحافیوں کو بھی اس بات کا بہت کم ادراک ہے کہ آزادیِ صحافت ،آزادیِ اظہار کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو صرف ایک جمہوری معاشرے میں ہی ممکن ہے۔میں نے لفظ معاشرے پر اس لیے زور دیا ہے کہ آزادیِ اظہار کا احترام صرف ایک سیاسی معاملہ نہیں ہے؛ یہ ایک وسیع دائرہ ء کار کا حامل سماجی اور معاشی مسئلہ بھی ہے۔

3 مئی کو پوری دنیا میں یومِ آزادیِ صحافت منایا جا رہا ہے۔ آزاد میڈیا کو قبول کرنے کی خاطر صحافیوں، سول سوسائٹی اور جمہوری قوتوں کی سالہا سال کی جدوجہد کا پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈالنے کا بہت کم اثر ہوا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور غیر ریاستی اداکاروں کی طرف سے نجی ملکیت کے چینلز کو زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔اب پرائیویٹ سیکٹر کے چینلز مالکان اور ممتاز اینکرز کو رشوت اور دباؤ ڈالنے کے ذریعے کنٹرول کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ان پرائیویٹ چینلز مالکان کا اسٹیک بہت زیادہ ہے اس لیے انھیں دبانا آسان ہوتا ہے۔

عامل صحافیوں کو پھانسنے کے لیے حکومت کے پاس کئی قسم کے پھندے ہوتے ہیں۔ممتاز ٹی وی ہوسٹ،حامد میر نے چند سال قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد کو خرید لیا جاتا ہے۔۔چونکہ وہ ایک انتہائی با خبر صحافی ہیں ،اس لیے مجھے حیرت ہوئی کہ صحافی کی قیمت 150 ملین روپے کی بلند سطح تک پہنچ چکی ہے۔متوسط طبقے کے اُن صحافیوں کا احترام کیا جانا چاہیئے ،جو اس صورت میں بھی جب کوئی ان سے اختلاف کرے، اس قسم کے لالچ کی مزاحمت کرتے ہیں۔

اس قسم کے چینلز پر اکثر صرف سیاست دانوں اور سول بیوروکریسی پر لعن طعن کی جاتی ہے۔یہ صحافی کہتے ہیں کہ آزادی محدود ہے،زیادہ تیزی مت دکھاؤ،بعض اوقات ان کی طرف سے حکومت کے خلاف ہتک آمیز خبریں دی جاتی ہیں اور ایسے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے جن کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی،اور آخر میں کہتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنے بے لگام ہو گئے ہیں۔برقی میڈیا پر غیر جانب دار اینکرز اور تجزیہ کار تلاش کرنا محال ہو گیا ہے۔

حکومت کے بارے میں پرنٹ میڈیا کم و بیش آزاد ہے۔معمول یہ ہے کہ اگر حکومت کسی اخبارکو پسند نہیں کرتی تو وہ اس کے سرکاری اشتہارات کم کر دیتی ہے۔مگر جب اصل طاقت کی طرف سے چالاکی کے ساتھ کی جانے والی پولیٹیکل انجینئرنگ پر تنقید ہو تو یہاں بھی مالکان اور ایڈیٹرز پر اپنے تئیں سینسر شپ کا اطلاق کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ترقی پذیر معاشروں میں ،داخلی طور پر جمہوری قوتوں کے ابھار،غیر ملکی دباؤاور ٹیکنالوجی کے سامنے آنے سے ،جن پر قابو نہیں پایا جا سکتا،حکومتیں زیادہ متحمل مزاج ہو رہی ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال پشتون/ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بیانیہ پر قابو پانے میں اسٹیبشمنٹ کی ناکامی ہے۔اس کے باوجود موومنٹ نے صرف سوشل میڈیا پر ایک موثر مہم کی وجہ سے زور پکڑااور سول سوسائٹی کی حمایت حاصل کی ۔

تاہم حبیب یونیورسٹی اور LUMS جیسے تعلیمی اداروں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ پی ٹی ایم کے لیڈروں کو اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ان اداروں کے کیمپس استعمال نہ کرنے دیں۔ان جامعات کی انتظامیہ ان ایونٹس کو منسوخ کرنے لیے دباؤ میں تھی،جن کا مقصد پی ٹی ایم کو اپنے جائز اور ملک میں تعلیمی آزادی کے مطالبات پیش کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔

دوسری طرف تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے متعصب لوگوں کو اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج اور لاہور میں مال روڈ بند کرنے کی اجازت دی گئی ،جس سے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔یونیفارم میں افسروں نے انھیں تھپکیاں دیں اور انہی لوگوں نے ان کے ساتھ طے پانے والے سمجھوتے کی ضمانت دی۔

ایک اور مثال کنٹونمنٹ اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز میں جیو کی بندش ہے۔اس چینل کو اب بھی انٹرنیٹ کے ذریعے براہ راست دیکھا جا سکتا ہے۔تاہم اطلاعات یہ ہیں کہ بالآخر جنگ گروپ نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔

میڈیا کے لیے بڑھتا ہوا خطرہ ،انتہا پسندوں، اور نسلی گروپوں، فسطائی سیاسی جماعتوں،جرائم پیشہ گروہوں، قبائلی اور زمیندار طبقے کے غنڈوں ،بڑے کاروبار اور ایڈورٹائزنگ کلاؤٹ سے ہے۔ فاٹا کے علاقے میں فوج کے ساتھ طالبان کے تنازع کو کور کرنے والے متعدد صحافی جاں بحق ہوگئے۔

سندھ میں جن صحافیوں نے بڑے جاگیرداروں اور قبائلی رہنماؤں کے ظلم و زیادتی کو رپورٹ کیا وہ یا تو مارے گئے یا انھیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کر دیا گیا۔ بلوچستان میں قوم پرست عسکریت پسندوں اور انٹیلجنس ایجنسیوں کی طرف سے صحافیوں کودھمکیاں دی جاتی ہیں۔

فسطائی قوتوں کا یہ بڑھتا ہوا رجحان ہمیں ” آزادیِ اظہار” کے ایک بڑے مسئلہ تک لے آتا ہے،جو کسی معاشرے میں مجموعی جمہوری اقدار کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔یہ خام خیالی ہے کہ کسی دوسرے فرد کے خیالات کو برداشت کرنا جمہوری کلچر کی بنیاد ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں،برا مناتے ہیں ،اشتعال میں آ کر احتجاج کرتے ہیں اور پھر واپس اپنی جگہ پر آ جاتے ہیں۔سیاسی جماعتوں نے،جنھیں آزادیِ صحافت کا زیادہ شدت کے ساتھ دفاع کرنا چاہیئے تھا ،اپنا کردار موثر طریقے سے ادا نہیں کیا۔پی ایم ایل (ن) اپنی سیاسی اور شخصی حماقتوں کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے غیض و غضب کا سامنا کر رہی ہے مگر پی ٹی آئی کو پولیٹیکل انجنیئرنگ اور متعصب میڈیا سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔

اس مرحلے پر آزادی اظہار کا معاملہ اٹھانا ان کے مفاد میں نہیں ہے۔پی پی پی مفاد پرستی کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ان کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز موقف انھیں نیب کی توپوں سے دور رکھے گا۔