نواب بہاولپور،صلاح الدین عباسی کی طرف سے2018 کے انتخابات سے قبل ایک بار پھر علیحدہ بہاولپور صوبے کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔نوجوان رکن قومی اسمبلی،خسرو بختیار کی قیادت میں علاقے کے بعض ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے علیحدہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ(جے پی ایس ایم) بنالیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلخ شیر مزاری بھی اس محاذ کی قیادت کر رہے ہیں۔بلخ شیر ،مزاری قبیلے کے سربراہ ہیں اور ان کا خاندان ڈیرہ غازی خان سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتا رہا ہے۔
نواب بہاولپور اور جے پی ایس ایم کے مطالبے میں فرق یہ ہے کہ محاذ کے حامی سرائیکی بولنے والے تمام علاقوں پر مشتمل نسلی بنیاد پر علیحدہ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ بہاولپور صوبے کی بحالی کی دلیل اس حقیقت سے تقویت حاصل کرتی ہے کہ یہ اُس وقت بھی الگ صوبہ تھا جب صوبوں کو ون یونٹ میں ضم کر دیا گیا تھا۔
اگر پاکستان میں تاریخی حقوق کی کوئی اہمیت ہے تو بہاولپور صوبے کا مطالبہ ایک مضبوط تاریخی جواز رکھتا ہے۔5 اکتوبر،1947 کو اس وقت کے امیر بہاولپور،صادق محمد خامس عباسی نے پاکستان کے گورنر جنرل،محمد علی جناح کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
اس دستاویز کی شق7 میں وفاق پاکستان کی اتھارٹی کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ” اس دستاویز کے کسی بھی جزو سے یہ مطلب نہیں لیا جائے گا کہ میں نے کسی بھی طرح سے پاکستان کے مستقبل کے آئین کو قبول کرنے کا کوئی وعدہ کیا ہے یا مستقبل میں اس قسم کے کسی آئین کے تحت قائم کی جانے والی حکومت پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے میری صوابدید پر کوئی پابندی ہو گی” ۔ٍ
ریاست بہاولپور کے الحاق کی دوسری ضمنی دستاویز پرامیر بہاولپور، محمد صادق عباسی اور گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے دستخط کیے تھے۔یکم مئی،1951 کے سول ملٹری گزٹ میں کہا گیا کہ” بہاولپور کے لیے صوبے کا درجہ” ۔اسی بارے میں اخبار ڈان کی سرخی تھی
” بہاولپور دوسرے صوبوں کے برابر— امیر نے نئے معاہدے پر دستخط کر دیئے– وفاقی قوانین قابل اطلاق” ۔اس نئے صوبے کی اپنی مقننہ اور ہائی کورٹ تھا۔مگر جب مشرقی پاکستان کے عوام کو ان کی اکثریت سے محروم کرنے کے لیے ون یونٹ بنایا گیاتو مغربی حصے کے تمام صوبوں کو ایک صوبے میں ضم کر دیا گیا ۔تاہم جنرل یحییٰ خان نے جب ون یونٹ ختم کیا تو بہاولپور صوبے کی حیثیت بحال نہیں کی گئی۔
علیحدہ صوبہ بنانے کے لیے جے پی ایس ایم کے مطالبہ کی بنیاد نسل پرستی پر ہے اور یہ سرائیکی بولنے والے ان تمام علاقوں پر محیط ہے جو کبھی بھی بہاولپور ریاست کا حصہ نہیں تھے۔
سوال یہ ہے کہ بہاولپور کے لیے الگ صوبے کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے اور علیحدہ سرائیکی صوبے کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا،جس کی تحریک زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا سکتی ہے کیونکہ اس میں ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن بھی شامل ہوں گے؟
میرے اس سوال پر لگ بھگ تمام مقامی سیاسی رہنماؤں نے ،خواہ ان کی پارٹی سرائیکی صوبے کی حمایت کر رہی ہو،کہا کہ بہاولپور صوبے کا مطالبہ تاریخی بنیاد رکھتا ہے اور اس کی کامیابی کا زیادہ امکان ہے۔
بعض رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرائیکی صوبے کی وکالت کرنے والوں نے ملتان اور ڈی جی خان ڈویژن میں زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی اور انھیں پچھلے انتخابات میں بمشکل دو تین ہزار ووٹ ملے تھے۔ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ” گیلانیوں ، لغاریوں اور کھوسوں کوطاقت ور پنجاب کو تقسیم کر کے علیحدہ صوبہ بنانے سے کو ئی دلچسپی نہیں ہے” ۔مگر اس بار مزاری قبیلے کے سربراہ کی موجودگی شاید ہوا کے بدلتے رخ کا اشارہ ہے۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پنجاب میں سے نیا صوبہ بنانے کی اجازت دینا پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں نہیں ہے۔اس وقت پنجاب کی آبادی110 ملین ہے،جو پاکستان کی کل آبادی کا 53 فیصد ہے۔
یہ حقیقت اسے دوسرے تین چھوٹے صوبوں کے مقابلے میں بھرپور طاقت دیتی ہے۔ ادارہ ء شماریات پاکستان کے مطابق پنجاب میں 17 فیصد لوگوں کی مادری زبان سرائیکی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں سرائیکی بولنے والوں کی تعداد 18.7 ملین ہے اس طرح پنجاب کی باقی آبادی91.3 ملین بنتی ہے۔
اگر جے پی ایس ایم کا مطالبہ مان لیا جاتا ہے اور نیا صوبہ بن جاتا ہے تو پاکستان کی آبادی میں پنجاب کا حصہ کم ہو کر44 فیصد کے قریب رہ جائے گا ۔قومی اسمبلی میں بھی پنجاب کی طاقت کم ہو جائے گی جبکہ ٹیکسوں کے federal divisible pool میں بھی اس کا حصہ10 فیصد کم ہو جائے گا۔یہ صورت حال پنجاب کی قیادت کو ،سرائیکی بولنے والوں کے الگ صوبے کے قیام کی مزاحمت پراکسائے گی۔
دوسری طرف 1950 سے اب تک بھارت نے لسانی اور انتظامی بنیادوں پر بڑے صوبوں کو تقسیم کر کے مزید نو صوبے بنائے ہیں۔وہاں بھی اس کی مزاحمت ہوئی مگر انھوں نے اس مسئلہ کو حل کیااور لگتا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی نئے صوبے بنائیں گے۔
یہ تجویز الیکشن سے پہلے پی پی پی کی زیر قیادت اتحاد کو دلکش محسوس ہو سکتی ہے کہ بہاولپور یا سرائیکی ڈویژنوں کو علیحدہ صوبے کی حیثیت دی جائے ، مگر ان کا مسئلہ ہی ہے کہ آئین میں ترمیم کے لیے ان کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔
اگر تاریخی حقوق کی بنیاد پر علیحدہ صوبے کی تحریک کو صحیح راستے پر لایا جاتا اور اس علاقے کے ارکان قومی اسمبلی متحد ہو جاتے تو یہ کام اس وقت ممکن ہو سکتا تھا،جب 18 ویں ترمیم منظور کی جا رہی تھی۔اب علیحدہ صوبہ ایک سہانا خواب لگتا ہے۔بہر حال میری نیک تمنائیں ان دوستوں کے ساتھ ہیں!