|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2018

قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے نا مناسب طور پرجاری کیے جانے والے اس پریس ریلیز کی بنیاد دوسرے درجے کے ایک اردو اخبار میں چار ماہ قبل شائع ہونے والے کالم پر تھی کہ وہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف 4.9 بلین امریکی ڈالر منی لانڈری کے لیے بھارت بھیجنے کی تحقیقات کرے گا۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ صحافی جس نے یہ کالم لکھا اور نیب کے حکام ،جنھوں نے چار ماہ قبل شائع ہونے والے اس الزام کی تحقیقات کے لیے جلد بازی کی، دونوں اُس بنیادی جبلت سے عاری ہیں جو کسی صحافی اور تحقیقاتی ادارے کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔اور یہ ناگزیر جبلت یہ ہے کہ انھیں ہر اس اطلاع کو جو اُن تک پہنچے، شک کی نظر سے دیکھنا چاہیئے۔

تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد عام طور سے درج ذیل ذرائع پر ہوتی ہے:
کوئی مایوس ملازم جو اپنے مالک سے ناخوش ہو؛ کوئی ایسا شخص جو کسی ادارے یا محکمے کی داخلی سیاست کی وجہ سے بعض معلومات افشا کرنا چاہتا ہو ؛کوئی ایسا کاروباری شخص جس کا خیال ہو کہ کوئی کنٹریکٹ دینے میں اس کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے؛تحقیقاتی رپورٹرکا یہ شک کہ کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے؛ اور بیشتر صورتوں میں سیاست دانوں اور سرکاری حکام کے بارے میں رپورٹس درپردہ مفادات رکھنے والوں کی طرف سے افشا کی جاتی ہیں۔پاکستان میں سیاست دانوں کے اسکینڈل اکثر و بیشترسول بیوروکریسی اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے رپورٹرز کو منکشف جاتے ہیں۔اور یہ تمام ذرائع عام طور سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ایسا کر رہے ہیں۔

میرے طویل صحافتی کیرئر میں پوشیدہ مفادات رکھنے والوں نے مجھے بھی بہت سی اسٹوریز دینے کی کوشش کی،بعض اوقات چند سرکاری دستاویزات بھی دی گئیں۔یہاں مختصراً ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتا چلوں۔90 کی دہائی میں پہلی بے نظیر حکومت کے اختتام سے کچھ پہلے انٹیلجنس کا ایک سینئر افسر،جس کے ساتھ ایک سماجی تقریب میں اتفاقاً میری ملاقات ہوئی تھی ،،آصف زرداری کے بینکنگ فراڈز

کے بارے میں ایک اسٹوری لے کر میرے پاس آیا۔اس کا کہنا تھا کہ چونکہ میں اپنے کالموں میں بینکاری کے مسائل پر لکھتا ہوں ،اس لیے یہ اسٹوری میرے لیے دلچسپی کا باعث ہو گی یہ خبر کے انداز میں لکھی ہوئی تھی اور کچھ تائیدی دستاویزات بھی ساتھ تھیں۔

میں نے اسے کہا کہ میں اس رپورٹ کی مزید چھان بین کروں گا کیونکہ پی ایم ایل(ن)کے بعض لیڈروں کے اس قسم کے بینکنگ اسکینڈلز بھی میرے علم میں ہیں۔مگر اسے جلدی تھی اور چاہتا کہ یہ جولائی کے مہینے ہی میں میرے کالم میں چھپ جائے۔اُس وقت میں نہیں سمجھ پایا کہ اسے کیوں جلدی تھی،مگر شک و شبہ کی اپنی خاصیت کی وجہ سے میرا ماتھا ٹھنکا کہ کوئی نہ کوئی گڑ بڑ ہے۔

اس نے یہ کہتے ہوئے اسٹوری واپس لے لی کہ وہ مزید معلومات لے کر واپس آئے گا مگر ہوا یہ کہ اس نے یہ اسٹوری ایک اور صحافی کو دے دی ،جس نے ایک موقر ماہنامے میںیہ جوں کی توں فائل کر دی۔اتفاق سے اس ماہنامے کی اشاعت میں ہمیشہ کی طرح تاخیر ہو گئی،مگر6 اگست1990کو صدر غلام اسحاق خان (مرحوم) نے اپنی تقریر میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے اس اسٹوری کا حوالہ دیا۔تب سمجھ میں آیا کہ اس کارندے کو اسٹوری کی اشاعت میں اتنی جلدی کیوں تھی۔

ایک سچے اور غیر متعصب تحقیقاتی صحافی کوسب سے پہلے یہ سوچنا چاہیئے کہ کوئی اسکینڈل یا اس قسم کی خبر آپ تک لانے میں خطرے کی گھنٹی بجانے والے کا کیا مفاد ہے؟اگر کوئی بھولا بھالا رپورٹر اسٹوری کو اسی طرح سے فائل کر دیتا ہے جیسے کہ اسے دی گئی تھی تو پھر یہ تحقیقاتی رپورٹ نہیں ہے۔ 

بنیادی طور پریہ کسی کی خواہش پر مبنی رپورٹ ہے۔کوئی تحقیقاتی رپورٹ ان معلومات سے شروع ہوسکتی ہے جو پوشیدہ مفاد رکھنے والے نے رپورٹر کو دی ہیں مگر یہ تحقیقات کا نکتہ ء آغاز ہوتا ہے۔رپورٹر کو دیگر قابل اعتبار اور متعلقہ ذرائع سے حقائق کی تصدیق کرنی چاہیئے۔

اسٹوری میں زیادہ تر، ایک سے زیادہ رخ ہوتے ہیں اور ایک بہتر تحقیقاتی رپورٹ میں زیادہ سے زیادہ ممکنہ رخ شامل ہونے چاہئیں۔تحقیقاتی رپورٹر کو پیش نظر مواد کی متعلقہ غیر جانب دار ذرائع سے جانچ پڑتال کے بعد ہی اُس شخص یا ادارے سے سوال جواب کرنا چاہیئے ،جس کے خلاف اسٹوری پر وہ کام کر رہا ہے۔یہاں بھی تحقیقاتی رپورٹر یا سرکاری تفتیش کارکے لیے ضروری ہے کہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ آگے بڑھے۔ 

خصوصاً جب خبر کی بنیاد رپورٹر کے شک پر ہو تو اسے متعلقہ شعبہ کے کسی ماہر کے ساتھ اس کی چھان پھٹک کرنی چاہیئے۔ بے شک وہ مفروضہ فنی اعتبار سے درست ہو،رپورٹر کوانصاف کے ساتھ یہ فیصلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیئے کہ وہ جو تحقیقات کر رہا ہے وہ صحیح خطوط پر ہے یا دوسرے فریق کے پاس بھی کہنے کے لیے کوئی معقول بات ہے۔

اس قسم کی اسٹوریز لکھتے ہوئے اسے ملزم شخص یا ادارے کے نکتہ ء نظر کومحض اس وجہ سے نہیں دبانا چاہئیے کہ اس سے اسٹوری کی سنسنی خیزی کم ہو جائے گی۔میرے ایک ساتھی کہا کرتے تھے کہ دوسرے فریق کے نکتہ ء نظر کو شامل کرنے سے اسٹوری کی اہمیت کم ہو جاتی ہے، مگر میرا خیال ہے کہ ایک صحافی کوعمومی سوچ کا شکار ہونے کی بجائے ممکنہ حد تک معروضیت سے کام لینا چاہیئے۔

مشکلات میں گھرے ہوئے نواز شریف کے خلاف مذکورہ بالا اسٹوری کے حوالے سے نہ تو کالم نگار نے عالمی بینک کی رپورٹ کے فنی پہلوؤں کے بارے میں کسی ماہر اقتصادیات سے بات کی اور نہ نیب نے پریس ریلیز جاری کرنے سے پہلے متعلقہ محکمے سے مشاورت کی۔نیب کے سربراہ ،جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ انھوں نے صرف تحقیقات شروع کرنے کی بات کی تھی اور یہ نہیں کہا تھا کہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔

مگر جن ہاتھوں نے نواز شریف کے خلاف یہ اسکرپٹ لکھا ،انھوں نے ہی صحافی کو یہ سب کچھ دیا اور نیب کو بھی پریس ریلیز جاری کرنے پر اکسایا۔اس قسم کے مضحکہ خیز الزامات لگانے سے نواز شریف کو اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے میں مدد ملے گی۔اگرچہ یہ صرف ایک الزام تھا مگر متعدد اینکرز اور نام نہاد تجزیہ کار یہ الزام لگانے میں اکٹھے ہو گئے کہ سابق وزیر اعظم غدار ہیں۔

،ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ متاثرہ فریقوں کی طرف سے تردیدوں اور وضاحتوں کو مناسب کوریج نہیں ملتی۔ایسے ذرائع پر جن کا درپردہ مفاد ہوتا ہے،اندھا انحصارکسی رپورٹر یا اینکر کی ساکھ کو تباہ کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کی یہ غیر مصدقہ رپورٹ سامنے ہے کہزینب قتل کیس میں گرفتارعمران علی کے 30 سے زیادہ بینک اکاؤنٹ تھے۔انھیں اپنی اس بے بنیاد رپورٹ پر سپریم کورٹ سے معافی مانگنی پڑی۔وہ اپنے ان ذرائع پر لازماً لعن طعن کر رہے ہوں گے،جنھوں نے انھیں اس نوبت تک پہنچایا۔