|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2018

ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی الیکشن کا ماحول گرم ہے ۔ہر شخص اپنے پارٹی کو جتوانے کی تگ ودو میں مصروف ہے ۔حالانکہ تاثر یہی ہے کہ اس بار بھی پچھلے الیکشن کی طرح سلیکشن ہوگی مگر کچھ رائے اس کے برعکس بھی ہے کہ فئیر الیکشن ہونگے ۔ بلوچستان کی بڑی بڑی پارٹیاں اپنے اپنے کارکنوں کے ہمراہ دوروں میں مصرو ف ہیں ۔

کہیں پے ووٹ مانگے جارہے ہیں تو کہیں پے ووٹ خریدے جارہے ہیں ۔اور اسی دورا ن کچھ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس دفعہ کسی کو بھی ووٹ دے کر کامیاب نہیں کریں گے ۔لیکن اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے کیا لوگوں کو خاموشی سے اپنے گھر میں بیٹھنا چاہیے ؟یاکہ اپنا قیمتی ووٹ دیکر کسی ایسی پارٹی کو کامیاب کرنا چاہئیے جو حقیقتاً عوام کی پارٹی ہو ۔

بلوچستان میں بہت سی پارٹیاں موجود ہیں جوپچھلے کئی دہائیوں سے بلوچستان میں سیاست کررہی ہیں انہی پارٹیوں میں ایک پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی بھی ہے جواس وقت بلوچستان کی ایک مضبوط پارٹی ہے ۔جسکی سربراہی اختر جان مینگل کررہے ہیں اور اب تک اس پارٹی کاکردار مثبت ہی رہا ہے ۔یہاں مثبت سے مراد یہ ہے کہ بلوچستان کی باقی تمام پارٹیوں کا کردار عوام دیکھ چکی ہے۔

حالانکہ بی این پی کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملاتھا مگر اسکی مدت کم تھی اور بلوچستان میں کرنے کو کام بہت تھے لیکن پھر بھی اس پارٹی سے جتنا اس مختصر مدت میں ہوپایا انھوں وہ تما م کام کئے جو اب تک یاد کئے جاتے ہیں ۔ اس پارٹی میں اس بار کچھ نئے چہرے سامنے آرہے ہیں جن سے لوگوں کی کافی امیدیں وابستہ ہیں جن میں ایک نام جان محمد دشتی صاحب کا بھی ہے ۔

جان محمد دشتی کا شمار بلوچستان کے ان لوگوں میں کیا جاتا ہے جن کو عوام کے لئے کام کرنے میں مزہ آتا ہے نہ کہ لوٹ کھسوٹ میں ،جو باقی عہدہ داران کرتے آرہے ہیں۔جان محمد دشتی کی وابستگی اس پارٹی سے اخلاقی طور پر تو بہت پرانی ہے مگر سیاسی حوالے سے یہ پہلی بار ہوگا کہ وہ خود سیاست میں حصہ لے کر عوام کی خدمت کرسکیں گے ۔

بی این پی کا پارٹی منشور ایک دم صاف اور واضح ہے کہ جہاں کہیں جیسے بھی اور جتنا بھی ہو عوام کی بھلائی اورفلاح کے لیے کام کیا جائے اور ایسے تمام مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے ، اور جتنا ہو سکے عوام کے ساتھ جھڑے رہیں ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا بلوچستان کے حالات اس وقت بہت نازک ہیں اور اس وقت سیاسی سرگرمیاں بھی اس طرح نہیں ہوپائیں گی جیسا کہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں ہورہا ہے ۔

یعنی جلسے ،جلوس ، لوگوں سے آمنے سامنے مل کر باتیں کرنا یا گھر گھر جاکے ووٹ کی اپیل کرنا ،ان حالات میں یہ سب کرنا بہت ہی مشکل کام ہے مگر پھر بھی بی این پی کی پارٹی ان حالات میں بھی پارٹی کے لئے اور عوام کی خدمت کے جذبے کو دل میں لیئے یہ کام کررہی ہے ۔

ایک ہی سوال بار بار ذہن میں آرہا ہے کہ اگر اس مرتبہ بی این پی کی پارٹی حکومت میں آتی ہے تو کیا وہ ان حالات کا سامنے کرپائے گی جو پچھلی حکومتیں نہیں کرپائی تھیں؟ حالانکہ حالات بدتر ہیں مگر ابھی بھی ہاتھ میں ہیں اگر کوئی حکومت بلوچستان کے محکوم عوام کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی فلاح و بہبو د کے لئے کام کرے تو بلوچستان بھی پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح خوشحال اور ترقی یافتہ صوبہ بن سکتا ہے ۔

شرط یہ ہے پارٹی صرف اپنے خاندان والوں کو ترجیح نہ دے بلکہ خاندان سے اٹھ کر عوام الناس کی خدمت کرے ۔اگر اس بار بھی خاموشی اختیار کی گئی اور اس پارٹی کو جتایا گیا جو الیکشن سے نہیں بلکہ سیلکشن سے آئی ہو تو حالات مزید بگڑیں گے ۔