|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2018

بلوچستا ن کے نگران وزیر اعلیٰ کا تقرر ہو ہی گیا ۔ گویا علاؤ الدین مری نامی شخص کو نگران وزیر اعلیٰ کا منصب دے کر بلوچستان پر ایک اور مہربانی و کرم نوازی کر لی گئی !۔ یہ شخص مستونگ ضلع کا رہائشی ہے ۔ والد بیوروکریٹ تھے خود کاروبار کرتے ہیں۔گاڑیوں کا بزنس بھی ہے ۔افغانستان سے سمگل کی گئی گاڑیوں کی خریدو فروخت بھی کرتے تھے یا شاید اب بھی کرتے ہیں ۔ایران سے سمگل شدہ پیٹرول کا بیوپاری بھی رہا ہے ۔

حالیہ سینیٹ انتخابات میں بھی آزاد حیثیت سے امیدوار تھے۔ عبدالقدوس بزنجو اور ان کے چند ہمراز ، ہم نوالہ و ہم پیالیہ علاؤ الدین مری کے نام پر بضد تھے ۔ انہی میں سے پرنس احمد علی بھی نگران وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل تھے، مگر وہ قدوس بزنجو کو پسند نہ تھے ۔چونکہ پشتونخوا میپ ، نیشنل پارٹی اور ن لیگ حزب اختلاف میں تھیں ۔ 

چنا ں چہ ان جماعتوں نے اشرف جہانگیر قاضی اور سابق اسپیکر اسلم بھوتانی اور علی احمد کرد ایڈوکیٹ کے نام نگران وزیر اعلیٰ کیلئے دے رکھے تھے ۔اشرف جہانگیر قاضی بڑے سیاسی گھرانے کے خانوادے ہیں ان کا خاندان قیام پاکستان کی تحریک میں نمایاں کردار کا حامل تھا۔ خود منجھے ہوئے و نامور سفارتکار رہ چکے ہیں ۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور بھارت میں پاکستان کے سفیر رہے ۔سوڈان اور عراق میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے کے طور پر بھی کام کیا۔

ان کے چچاقاضی عیسیٰ بلوچستان میں مسلم لیگ کی بانیوں میں سے تھے اور مسلم لیگ بلوچستان کے صدر تھے۔ان کے دادا ریاست قلات میں وزیراعظم کے عہدے پر رہ چکے تھے۔سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ ان کے چچازاد ہیں۔ خود اشرف جہانگیر قاضی کی والدہ’’ جنیفر موسیٰ‘‘ اور والد قاضی موسیٰ سیاسی حوالے سے نمایاں نام تھے۔ جنیفر موسیٰ 1970ء میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں ۔

اس خاتون کا تعلق آئرلینڈ سے تھا ۔قاضی موسیٰ سے شادی کے بعد تادم مرگ پشین میں ہی مقیم رہیں۔علی احمد کرد ایڈوکیٹ ملک کی معروف شخصیت ہیں۔زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں سرگرم ہیں۔وکلاء کے قائدین و بزرگوں میں سے ہیں ۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدارت ایسے وقتوں میں سنبھالی کہ جب وکلا ء اور پرویزی آمریت آمنے سامنے تھیں۔ جیلیں کا ٹی ہیں ۔ اسلم بھوتانی بھی صوبے کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔

خود صوبائی اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں یعنی سینئر سیاستدان ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ کے لئے حزب اختلاف اور وزیر اعلیٰ کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں جو بے نتیجہ رہیں ۔آخر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس گیا جس میں حکومت کی جانب سے امان اللہ نوتیزئی،طاہر محمود اور سرفراز چاکر ڈومکی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے نواب ثناء اللہ زہری، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور سید لیاقت آغا کمیٹی کے ممبران تھے ۔

عین وقت پر یعنی 6جون کو جب پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہونا تھا تو عبدالقدوس بزنجو نے کمیٹی کے اجلاس میں نہ بیٹھنے کا اعلان کر دیا یعنی حکومتی ارکان نے مقاطعہ کا فیصلہ کر لیا۔قدوس بزنجو نے پانچ جون کو پریس کانفرنس کی کہ اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کیلئے دئیے گئے نام متنازعہ ہیں۔ 

یہ بھی کہا کہ محسوس ہوتا ہے کہ صوبے میں جوڈیشل مارشل لاء لگ چکا ہے۔عدلیہ پر مزید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کسی حلقے کی پسماندگی کیلئے کسی منصوبے کا اعلان کرتا ہے یا پھر کھلی کچہری میں کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کیلئے موجودہ صوابدیدی فنڈز بند کرادیئے گئے۔ 

ٹرانسفر پوسٹنگ کا اختیار بھی بیورو کریسی کو دے دیا گیا۔(6جون2018) یعنی واشگاف الفاظ میں عدالت کی تو ہین کا ارتکاب بھی کیا ۔عبد القدوس بزنجونے یہ عذر لنگ بھی پیش کیا کہ حزب اختلاف نے پانچ سال تک اپوزیشن میں رہنے والی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل ، جمعیت علمائے اسلام ف اور عوامی نیشنل پارٹی کو نظر انداز کیا ۔یعنی ان سے نگران سیٹ اپ کیلئے مشاورت نہ کی اور اپنے مرضی کے نام دے دئیے گئے ۔ 

اور یہ کہ آئین کے آرٹیکل 224(A) کی سب کلاز دو میں لکھا ہے کہ اپوزیشن نگران وزیر اعلیٰ کے نام تمام جماعتوں کی مشاورت سے دے گی، جس نے ایسا نہیں کیا۔اور 13ارکان اسمبلی پر مشتمل اتحاد کو نظر انداز کر دیا۔ اس طرح پارلیمانی کمیٹی متنازعہ بن گئی اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔‘

‘حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک کے بعد حکومت میں حصہ دار ومعاون بن گئی تھیں۔ ان کا کوئی بھی عمل حزب اختلاف کا نہ رہا ۔حزب اختلاف صوبے کی اسمبلی میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے اڑھائی سالہ دور میں رہی ۔نواب ثناء اللہ زہری وزیر اعلیٰ بنے تو بالخصوص جے یو آئی ف اور اے این پی ان سے شیر و شکر ہو گئیں۔سردار اختر جان مینگل اور بی ن این پی عوامی کے ظفر زہری ان پانچ سالوں میں غیر فعال رہے ،جو محض چند ایک اجلاس میں ہی شریک ہوئے۔ 

تحریک عدم اعتماد میں ان جماعتوں نے عبدالقدوس بزنجو یا یہ کہہ لیجئے کہ دوسروں کا ساتھ دے کرسب نے اپنا اپنا حصہ بٹورا۔ لہٰذا اخلاقاً ان کو حزب اختلاف کے دعوے پر ڈٹا نہیں رہنا چاہئے تھا۔ اور پھر ن لیگ یا پشتونخوا اور نیشنل پارٹی کے پاس اپنی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد حزب اختلاف میں بیٹھنے کے سوا دوسرا چارہ نہ رہا۔ جنہوں نے حزب اختلاف کی نشستوں کیلئے اسپیکر کو درخواست دی جو منظور کر لی گئی ۔

چونکہ ان کے پاس اکثریت تھی لہٰذا مولانا عبدالوسع کی جگہ پشتونخوا میپ کے عبدالرحیم زیارتوال حزب اختلاف کے قائد بن گئے ۔ عبدالقدوس بزنجوکے اعتراض پر سابق وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے جواباً کہاکہ ’’جے یو آئی،بی این پی مینگل، اے این پی اور بی این پی عوامی تحریک عدم اعتماد کے بعد عملاً حکومت کا حصہ بن گئی تھیں۔ ان کے رہنماؤں یا رشتہ دارں نے مراعات اور عہدے حاصل کئے۔ 

انہی جماعتوں کی ایماء پر پشتونخوامیپ ،نیشنل پارٹی اور ثناء اللہ زہری کیخلاف انتقامی کارروائیاں کی گئیں‘‘۔ دراصل جے یو آئی اور اے این پی کی مشاورت پہلے ہی حکومت سے ہوئی تھی ۔حکومتی اتحاد نے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے جو نام دیئے ، ان میں جے یو آئی کے سابق سینیٹر کامران مرتضیٰ اور اے این پی کے سابق سینیٹر داؤد خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ 

یعنی وزیراعلیٰ نے حکومتی جماعتوں کی حیثیت سے جے یو آئی اور اے این پی کے نامزد کردہ نام بھی نگراں وزیراعلیٰ کے امیدواروں کی فہرست میں شامل کرائے۔کیا اس صورت میں ان سے مشاورت کا حق بنتا تھا ؟۔غرض نگران وزیر اعلیٰ کے معاملے پر اسمبلی کے اندر اتفاق رائے مشکل بن گیا تھا ۔ سردار اختر جان مینگل نے اعتماد میں نہ لئے جانے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی تڑی دے دی تھی۔

یہ سب کچھ کسی کے اشاروں پر ہو رہا تھا۔ یہ جماعتیں پشتونخوا میپ اور نیشنل پارٹی کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی سعی کر رہی تھیں۔ان کا حقیقی حزب اختلاف کا دعویٰ کرنا بے مقصد کی راگنی تھی ۔چناں چہ پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کر کے عبدالقدوس بزنجو اور ان کے دوست اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ۔ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس گیا ۔ 

الیکشن کمیشن نے 7جون کو علاؤ الدین مری کو صوبے کانگران وزیر اعلیٰ منتخب کر لیا۔ الیکشن کمیشن نے لا محالہ علاؤ الدین مری کے حق میں ہی فیصلہ کرنا تھا ۔ یوں الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد آئندہ ہونے والے انتخابات کی شفافیت و غیر جانبداری میں اِشتباہ کا پہلو نمایاں ہو گیا ہے ۔آٹھ جون کو علاؤ الدین مری نے گورنر ہاؤس میں منصب کا حلف اُٹھایا ۔

ما بعد وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کی، کہا کہ الیکشن کمیشن اگر سمجھے تو آئندہ انتخابات میں کچھ دن کی تاخیر میں کوئی قباحت نہیں۔علا ؤ الدین مری کا یہ کہنا غور طلب ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شخص آتے ہی مخصوص ایجنڈے پر کا ربند ہوا۔ اور یقیناًالیکشن کمیشن نے ہدایت کے تحت ایک سطحی اور غیر معروف شخص کو صوبے کی انتہائی اہم ذمہ داری حوالے کر دی ۔ 

اس نوع کی زیادتیاں اس یتیم صوبے سے آئندہ بھی ہو ں گی ۔ایک باخبر صحافی دوست نے بتایاحلقے کہ علا ؤ الدین مری عبدالقدوس بزنجو کے بزنس پارٹنر بھی ہیں۔ نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے الیکشن کی شفافیت پر سوالات اُٹھائے ہیں۔

تاہم پشتونخوا میپ کے عبدالرحیم زیارتوال کہہ چکے ہیں کہ پسند و نا پسند کے باوجود الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اعتراض نہیں۔اور اعتراض اُٹھا کر الیکشن کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ عبدالرحیم زیارتوال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اندر یں علاؤ الدین مری کے نام پر معترض نہ تھے!بہر کیف نگران وزیر اعلیٰ کی حلف برداری سے قبل ہی بیوروکریسی میں من پسند تبادلے کر لئے گئے ہیں اور یہ سب ایک حکمت عملی کے تحت ہی ہوا ہے ۔گویا بلوچستان ہائی کورٹ کے احکامات ہوا میں اُڑا دئیے گئے ۔