روس کی معروف رکن پارلیمان کو اس وقت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب انھوں نے روسی خواتین سے التماس کیا کہ وہ روس میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے دوران غیر ملکی مردوں کے جنسی روابط سے اجتناب کریں۔
کمیونسٹ جماعت کی رکن پارلیمان تمارا پلینی اووا نے ماسکو ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا وہ قوم پرست نہیں ہیں لیکن روسی خواتین کو دوسری نسل کے مردوں کے ساتھ سیکس سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ آخر میں بچے ہی متاثر ہوتے ہیں۔
انھوں نے یہ بات ’اولمپکس کے بچوں‘ کے سوال پر کہی۔ ’اولمپکس کے بچوں‘ کی اصطلاح 1980 میں روس میں ہونے والے اولمپکس کے بعد ایجاد کی گئی تھیں کیونکہ مخلوط النسل بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوا تھا۔
تمارا پلینی اووا نے کہا کہ ان بچوں کو ان کے غیر ملکی باپ چھوڑ کر چلے گئے۔
’اگر باپ بھی اسی نسل کے ہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ دوسری نسل کے ہیں تو پھر یہ اچھا نہیں ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’بچوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ اپنی ماؤں کے ہمراہ رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو جنم دینا چاہیے۔‘
دوسری جانب ایران کے دارالحکومت تہران میں فیفا ورلڈ کپ میں ایرانی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بہت بڑا بل بورڈ لگایا گیا ہے۔
لیکن اس بل بورڈ پر تنقید اس لیے کی جا رہی ہے کہ اس تصویر میں ایک بھی خاتون نہیں ہیں۔
تصویر میں مختلف لسانیت سے تعلق رکھنے والے مرد ہیں جو فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کے گرد جشن منا رہے ہیں۔ اس تصویر کے نیچے لکھا ہے ’متحد ہم چیمپیئن ہیں: ایک قوم، ایک دھڑکن‘۔
اس بل بورڈ کے جواب میں قانون اخبار نے اس بل بورڈ کی تصویر صفحہ اول پر چھاپی ہے اور نیچے لکھا ہے ’خواتین کے بغیر ہم ہاریں گے‘۔
ایرانی صحافی حسین نے کہا کہ ’جشن میں ہمارے ملک کی خواتین کہاں ہیں؟ کیا اس ملک میں خواتین نہیں رہتیں؟‘
تہران میونسپیلیٹی کے اصلاح پسند رکن مصطفیٰ موسوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس معاملے کو حکام کے ساتھ اٹھایا ہے اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ یہ بل بورڈ تبدیل کر دیے جائیں گے اور وہ لگائے جائیں گے جن میں خواتین بھی ہوں۔