|

وقتِ اشاعت :   June 20 – 2018

گزشتہ حکومت میں بلوچستان اسمبلی میں تین وزرائے اعلیٰ نے بلوچستان حکومت کی کمان سنبھالے رکھی،ڈاکٹر مالک بلوچ کے حصے میں آئے ڈھائی سال،نواب زہری کو دو سال اور قدوس بزنجو کو محض پانچ مہینے کا اقتدار ملا۔ان تینوں نے حکومت کی بھاگ دوڑ کیسے سنبھالی اور عوامی مفادات کے لیے کتنے کام کئے یہ سب تو آنے والے الیکشن میں عوام کا ووٹ طے کرے گی مگر اس وقت تینوں سابق وزرائے اعلیٰ انتہائی مشکل صورتحال میں گھرے نظر آتے ہیں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں ڈاکٹر مالک بلوچ کی، گزشتہ حکومت میں بحیثیت وزیر اعلیٰ سب سے زیادہ عرصہ وہی مسند اقتدار پر براجمان رہے،ڈھائی سالہ معاہدے کے تحت بننے والے وزیر اعلیٰ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر مالک بلوچ کو اپوزیشن کی طرف سے تو مزاحمت کا سامنا کرنا ہی پڑ رہا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی حلیف جماعت مسلم لیگ ن نے بھی ان کے لئے ان ڈھائی سالوں میں کچھ کم مشکالات پیدا نہیں کیں۔

2013 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے متوقع وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں شامل نواب ثناء اللہ زہری اور نواب جنگیز مری کو پس پشت رکھ کر اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک غیر متوقع مری معاہدے کے تحت ابتدائی ڈھائی سال نیشنل پارٹی کو حکومت بنانے میں مدد دی جس کے خلاف پارٹی کے اندر سے کافی آوازیں اٹھیں مگر ان تمام تر آوازوں کودبا کر قرعہ فال ڈاکٹر مالک بلوچ کے نام نکلا اور یوں وہ اگلے ڈھائی سال کے لئے بلوچستان میں وزرات اعلیٰ کے مسند پر براجمان رہے،مگر ان کی حلیف اور حریف جماعتوں نے اس مسند کو ان کے لئے کچھ اتنا آرام دہ بھی نہیں رکھا اور اس تمام عرصے میں ان کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا جاتا رہا۔

بلآخر ڈھائی سال وزرات اعلیٰ سنبھالنے کے فوری بعد انھوں نے معاہدے کے تحت وزارت اعلیٰ کی گیند پھر سے مسلم لیگ کی کورٹ میں ڈال دی۔اور موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وہ شاید دلبرداشتہ ہو کر اس بار الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے ،اس بار انھوں نے کسی بھی حلقے سے اپنے فارم نہیں بھرے۔

مگر پارٹی کی الیکشن کمپین میں وہ کھل کر کام کرر ہے ہیں، اپنے بیانات میں بھی وہ پارٹی مینڈیٹ چرائے جانے کے حوالے سے مسلسل اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں،اور گزشتہ الیکشن کی طرح اس بار بھی ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے امیدواروں کو کْھل کر الیکشن کمپین نہیں چلانے دی جائے گی،اسٹبلشمنٹ پراس بار بھی سیاسی عمل میں مداخلت کے الزامات پر مبنی بیانات نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر مالک بلوچ کی مشکلات کو صاف ظاہر کرتی ہیں۔

ڈاکٹر مالک بلوچ کے بعد نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کو دو سالوں میں اتنا نقصان اپوزیشن نے نہیں پہنچایا جتنا خود ان کے دائیں اور بائیں تشریف فرما لوگوں نے پہنچایا،نواب صاحب اپنی سادگی یا غیر سیاسی طرز فکر کی وجہ سے اپنے گرد بننے والی بغاوت کے حصار کو دیکھ نہیں پائے،اور بغاوت کا یہ عقدہ تب کھلا جب ان کے ہی مشیر اور پارٹی رہنما پرنس احمدعلی نے ق لیگ کے قدوس بزنجو کے ساتھ مل کر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی درخواست دے دی ۔

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نواب صاحب کے دائیں بائیں سے ایک ایک کر کے لوگ”تو چل میں آیا ” کے مصداق اس عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بنتے چلے گئے اور نواب صاحب پر اقتدار کی زمین کو اتنا تنگ کر دیا گیا کہ انھیں خود ہی وزرات اعلیٰ سے مستعفی ہونا پڑا۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ان کے اپنے آبائی حلقے میں ان کے دست راست سمجھے جانے والے مئیر خضدار آغا شکیل درانی تک انھیں چھوڑ کر” باپ” کو پیارے ہوگئے ہیں۔


نواب صاحب اس بار قومی اسمبلی کے حلقے این اے 269 خضدار سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں مگر یہ معرکہ سر کرنا ان کے لئے اتنا آسان بھی ثابت نہ ہوگا،کیونکہ اس بار اس حلقے سے ان کے سب سے بڑے ”ناقد” سردار اختر مینگل بھی الیکشن لڑنے جارہے ہیں اور یہاں تک کہ انھوں نے نواب ثناء اللہ زہری کو ٹف ٹائم دینے کے لیے خضدارکے ایک بڑے ووٹ بینک کی حامل مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ہاتھ بھی ملا لیا ہے ۔

جس سے انھوں نے نواب صاحب کے لیے اس نشست کو جیتنا ناممکن تو نہیں مگر قدرے مشکل ضررور بنا دیا ہے اور یہ مشکل نواب صاحب کے لیے اپنی آبائی نشست پی بی 38 کو بچانے میں بھی پیش آئے گی جہاں سے انھیں اپنے ہی قریبی عزیز درانی خاندان کے ”باپ” میں شمولیت کے بعد ایک ٹف ٹائم ملنے کی امید ہے۔

اب بات کرتے ہیں 544 ووٹوں سے وزیر اعلیٰ بننے کا طعنہ سننے والے قدوس بزنجو کی،نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے صلے میں ان کے حصے میں وزارت اعلیٰ کا منصب تو آیا مگر اس کے ساتھ ہی مشکلات کا ایک نہ ختم ہونے والا بار بھی ان کے کندھوں پرپڑا رہا ،اپنے اقتدار کے پانچ مہینوں میں وہ مسلسل اس بات کا گلہ کرتے رہے کہ وفاق کی طرف سے بلوچستان کے حصے کے فنڈز نہیں مل رہے اور وہیں ۔

ان کی راہ میں روڑے اٹکانے والی شکایت بھی ان کے لبوں پر ہمیشہ رہی اور آخر کار اپنے اقتدار کے آخری دن انھیں خود یہ تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بحیثیت وزیر اعلیٰ”ڈیلیور” نہیں کر پائے،مگر ان کے لئے ”اختتام اچھا تو سب اچھا” کے مصداق یہ بات ان کے حق میں گئی کہ وہ اپنے حمایت یافتہ نگراں وزیر اعلیٰ علاؤدین مری کو تمام تر مشکلات کے باوجود منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئے گو کہ اس سلسلے میں اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی کمیٹی ان کی ایک بات بھی سننے کے حق میں نہیں تھی ۔

مگرالیکشن کمیشن کے ذریعے ہی سہی کامیابی ان کے حصے میں آئی۔اس بار قدوس بزنجو ایک بار پھر اپنے آبائی حلقے پی بی 44 آواران سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں مگر گزشتہ الیکشن کی طرح اس بار بھی وہاں ان کے لئے اور الیکشن کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں،2013 میں جب ان کے قافلوں پر حملے کئے گئے اور ان کے لئے باہر نکل کر الیکشن کمپین چلانا مشکل بن چکا تھا ۔

اس بار بھی امن و امان کی صورتحال وہاں قدرے بری نہیں توحالات اس قدر اچھے بھی نہیں کہ وہاں الیکشن جیسی گہماگہمی کو سنبھالا جا سکے ،شاید یہی سوچ کر اس بار قدوس بزنجو صوبائی اسمبلی کی ایک اور نشست پی بی29 کوئٹہ سے بھی الیکشن لڑنے جا رہے ہیں ۔

جہاں ان کے لئے یہ معرکہ سر کرنا اتنا آسان بھی نہیں۔بلوچ،پشتون اور سیٹلرز پر مشتمل اس حلقے سے گزشتہ انتخاب میں پشتونخواہ میپ کے رضا بڑیچ جیت کر آئے تھے جب کہ اس بار بھی وہاں سے امیدواروں کی فوج ظفر موج کے سامنے قدوس بزنجو کا تا دیر ٹکے رہنا مشکل نظر آتا ہے۔