دو ہزارتیرہ کے انتخابات سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران اگر مستقبل کے وزرائے اعلیٰ کی فہرست پر جب کبھی بات ہوتی تھی تو ایک نام زبان زد عام تھا اور وہ تھا سردار اختر مینگل ۔۔۔۔بہت سے حلقوں کو یہ امید تھی کہ بلوچ قوم پرست جماعتیں نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل انتخابی اتحاد کرکے انتخاب لڑینگی اور سردار اختر مینگل اگلے وزیر اعلیٰ ہونگے۔
اُس وقت یہ اتحادکیوں نہ ہوسکا اس پر پھر کبھی بات ہوگی لیکن دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد حسب روایت بلوچستان میں کوئی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکی اور انتخابات کے بعد آزاد امیدواروں نے مرکز میں ن لیگ کی کامیابی کے بعد ن لیگ کا رخ کیا اس طرح ن لیگ کے اراکین کی تعداد اکیس کے قریب ہوگئی اور بظاہر نواب ثناء اللہ زہری وزارت اعلیٰ کے حصول کیلئے مطمئن تھے سرینا ہوٹل کی راہداریاں مبارک باد دینے والوں سے بھری پڑی تھیں لیکن میاں نواز شریف کے ذہن میں کچھ اور چل رہا تھا ۔جی ہاں وہ چاہتے تھے کہ دو سیٹوں کیساتھ بھی سردار اختر مینگل ان کے لئے وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں ۔
لیکن ذرائع کا کہناتھا کہ سردار اختر مینگل نے اس معاملے پر نہ صرف معذرت کی بلکہ وہ حکومتی اتحاد کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتے تھے جس کے بعد نواب ثناء اللہ زہری کیلئے بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن اسی اثناء میں نواب صاحب کو محسوس ہوا کہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جسکے نتیجے میں انہیں وزارت اعلیٰ سے دور رکھا جائیگا ۔نواب زہری کے مشیروں نے انہیں بتایا ہم اکیس ہیں ۔
ق لیگ کے پانچ اراکین شیخ جعفر کی قیادت میں تیار ہیں اگر میر حاصل خان اور محمود خان اچکزئی اتحادی نہیں بنتے تو ہم جے یوآئی کے آٹھ اور ق لیگ کے پانچ اراکین کو اتحاد میں لیکر حکومت قائم کرسکتے ہیں۔ نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی آنے والی حکومت کا حصہ ہونگے ایسے اشارے نواب ثناء اللہ زہری کو تخت رائیونڈ سے دئیے گئے تھے جسکی وجہ سے نواب صاحب نے پشتونخواہ اور نیشنل پارٹی کو دبے لفظوں پیغام دینے کیلئے جے یو آئی ف سے ملاقات کا اہتمام کیا۔
ملاقات کی خبر آتے ہی نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ کی کوئٹہ میں موجود قیادت نے نواب صاحب سے نہ صرف رابطہ کیا بلکہ ہنگامی پریس کانفرنس بھی کردی گئی جسمیں نواب ثناء اللہ خان زہری کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بھی تسلیم کرلیاکیونکہ دس سال سے اپوزیشن میں رہنے والی بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعت نہیں چاہتی تھی کہ اقتدار کی ٹرین ہاتھ سے نکل جائے۔
پریس کانفرنس کے فوری بعد مسلم لیگ ن کی قیادت نے نواب صاحب کو معاملات کو آگے بڑھانے سے روکنے کی ہدایت کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ اس سلسلے میں میاں شہباز شریف کوئٹہ پہنچ رہے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوا کیونکہ جس وقت نواب صاحب کو وزیر اعلیٰ بنائے جانے کا اعلان ہورہا تھا اس وقت میر حاصل خان بزنجو اور محمود خان اچکزئی کوئٹہ سے باہر یعنی رائیونڈ سے رابطے میں تھے ۔
اس پریس کانفرنس پر دونوں رہنماؤں نے اپنی پارٹی کی قیادت پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا میاں شہباز شریف کوئٹہ پہنچے اور پہلے نواب صاحب سے ملاقات کی اور انہیں بتایاکہ وہ بالکل اکثریت رکھتے ہیں لیکن حتمی اعلان صرف میاں نواز شریف کرینگے ۔
انہیں عجلت میں پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہئے تھی بحر حال اس ملاقات کے فوری بعد میاں شہباز شریف نے نیشنل پارٹی کی قیادت سے ملاقات کی اور ایک سوال اٹھایا کہ نیشنل پارٹی کیوں حکومت نہیں بناتی جس پر میر حاصل خان بزنجو نے انہیں واضح کیا کہ وہ اتنی بڑی اکثریت نہیں رکھتے اگر انہیں حکومت بنانی ہو تو انہیں نہ صرف پشتونخواہ بلکہ ن لیگ کی بھی ضرورت ہوگی جس پر میاں شہباز شریف نے انہیں آئندہ چوبیس گھنٹوں میں لاہور یاترا اور بڑے میاں صاحب سے ملاقات کی دعوت دی جسے میر حاصل خان بزنجو نے قبول کرلیا ۔
ابھی ملاقات کے بعد نیشنل پارٹی کی قیادت ایم پی اے ہاسٹل ہی پہنچی تھی کہ پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا کہ شہباز شریف سے ملاقات کے دوران وہ وزارت اعلیٰ کیلئے ڈاکٹر مالک کا نام تجویز کرینگے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
جسکے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان کے انتخاب کیلئے مزید ملاقاتیں ابتداء میں رائیونڈ اور پھر مری میں ہوئیں اور پھر جیسے ہی نواب ثناء اللہ زہری کو اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ کی مسند پر بٹھانے کا حتمی فیصلہ میاں محمد نواز شریف کرچکے ہیں تو نواب ثناء اللہ زہری نے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے ابتداء میں بھرپور مزاحمت کی اور ایسے اشارے ملنے لگے کہ حکومت سے قبل ن لیگ بلوچستان میں انتشار کا شکار ہوجائیگی۔
صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ایک معاہدے کے تحت درمیانی راستہ نکالاگیا اور نواب ثناء اللہ زہری کو اس بات پر آمادہ کرلیا گیا کہ مری معاہدے کے تحت ڈھائی سال کیلئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ اور آئندہ ڈھائی سال وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری ہونگے تاہم کسی بھی جگہ اس معاہدے کا اعلان نہیں کیا گیا نواب ثناء اللہ خان زہری نے گو کہ قیادت کے فیصلے پر آمادگی ظاہر کردی تھی تاہم اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا تھا اور اسکا مظاہرہ بلوچستان کے عوام نے دیکھا ۔
نواب ثناء اللہ زہری نے کابینہ کی تشکیل میں مسائل پیدا کئے، کئی مہینے بلوچستان حکومت بغیر کابینہ کے چلتی رہی ،بالآخر کابینہ کی تشکیل کیلئے شریف برادران نے اپنی صوبائی قیادت سے مشورے کے بجائے اتحادیوں کے مطالبات کو ترجیح دی جیسا کہ جے یو آئی کو حکومت سے دور رکھنے کا مشورہ پشتونخواہ کا تھا، ایسے ہی قدوس بزنجو سمیت چند ق لیگی اراکین کو کابینہ کا حصہ نہ بنانا نیشنل پارٹی اورپی کے میپ دونوں کی خواہش تھی اور ن لیگ کی اعلیٰ قیادت نے یہ مطالبات نہ صرف تسلیم کئے بلکہ ان پر عمل در آمد کیلئے نواب ثناء اللہ خان زہری کو پابند کیا۔
کچھ عرصے بعد نواب صاحب کو احساس ہواکہ اتحادیوں کا اتنا دباؤ کہیں ڈھائی سال بعد بھی میاں صاحب کومعاہدے پر عمل سے باز رکھے کیونکہ وزارت اعلیٰ کے اعلان کے وقت ایسے کسی معاہدے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا جسکی بناء پر نواب صاحب کے قریبی حلقوں میں جب اس معاملے پر بات کی جاتی تو ن لیگ کے اتحادی خاموشی اختیار کیئے رکھتے جس سے نواب صاحب کو اندازہ ہوا کہ معاملات ابھی تک ان کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو ڈھائی سال بعد میاں صاحب کاذہن تبدیل ہوجائے اور وزارت اعلیٰ کیلئے جو معاہدہ کیا گیا تھا کہیں اس پر عمل درآمد نہ ہو۔
یہ ساری صورتحال نواب صاحب کیلئے باعث تشویش ہوسکتا تھا اور انہوں نے اسکی پیش بندی کا فیصلہ کرلیا اور مری معاہدے پر عمل درآمد سے چند ماہ قبل میاں صاحب کو ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ مری میں ایک معاہدہ ہوا تھاجس کے تحت ڈھائی سال کیلئے اقتدار کی مسند پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ براجمان ہونگے اور باقی ماندہ ڈھائی سال نواب ثناء اللہ خان زہری وزیر اعلیٰ کی مسند پر فائز ہونگے ۔
جب معاہدے پر عمل درآمد کا وقت قریب آیا تو ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنانے میں اہم رول ادا کرنے والے محمود خان اچکزئی اور انکی پارٹی کو محسوس ہوا کہ اگر معاہدے پر عمل نہ ہوا تو آئندہ آنے والے ڈھائی سالوں میں ڈاکٹر مالک بلوچ اس طرح دب کر ساتھ نہیں چلیں گے۔ اسلئے ڈاکٹر مالک کی تبدیلی ناگزیر ہے اور پھر محمود خان اچکزئی نے اپنی حمایت نواب ثناء اللہ خان زہری کے پلڑے میں ڈال دیا۔
اب مختصر بات کرتے ہیں ڈاکٹر مالک بلوچ کے دور اقتدار پر آیا انکا طرز حکمرانی ٹھیک تھا یا غلط ۔۔۔۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اقتدار سنبھالتے ہی پوری کوشش کی کہ وہ بلوچستان کہ اہم مسائل کو حل کرلیں لیکن بہت سے ایسے معاملات جن پر انتخابات تک ڈاکٹر مالک انہیں ترجیحی مسائل قرار دیتے تھے، انہیں بھول گئے لیکن تمام تر تنقید کے باوجود ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کچھ اہم کام کئے۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس جو کہ ماضی میں نوگو ایریا ہوتا تھا، اسے نہ صرف فعال کیا بلکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں موجود بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کی۔ گزشتہ ادوار حکومت سے براجمان افسروں پر اکتفاء کے بجائے اہم پوسٹوں پر اپنے ہم خیال افسران کو پوسٹ کرکے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں موجود ایک گروہ کو واضح پیغام دیا۔
لیکن ڈاکٹر بلوچ سے کچھ غلطیاں ہوئیں جیسا کہ پی کے میپ کو اپنے اہم اتحادی ن لیگ بلکہ اپنی ہی جماعت سے زیادہ ترجیح دینا ،سول سیکریٹریٹ میں بیٹھے افسر شاہی کو مصالحت والے انداز میں لیکر چلنا اور یہاں تک کہ انہوں نے صوبے کی حالت بدلنے کے بجائے زیادہ توجہ اپنے حلقہ انتخاب کیچ پر دی، وہاں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے جس میں کیچ میڈیکل کالج ،یونیورسٹی آف تربت کیساتھ ساتھ تربت سٹی ترقیات پیکج اور تربت میں ڈیٹ فیکٹری کے قیام کی کوشش کی۔
ان کے یہ کام قابل تحسین ہیں لیکن وہ صرف کیچ کہ نہیں صوبے بھر کے وزیر اعلیٰ تھے، انہیں دوسرے علاقوں کے لیے بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرنا چائیے تھا ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ملک سے باہر نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے نواب زادہ براہمداغ بگٹی اور خان قلات کو وطن واپس آنے کی دعوت دی اور ان سے مذاکرات بھی کئے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور ان مذاکرات کاآغاز ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب مری معاہدے پر عمل درآمد کا وقت قریب تھا۔
اسکے بعد نواب ثناء اللہ خان زہری کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا بظاہر نواب صاحب وزیر اعلی بن گئے لیکن نواب صاحب کو وزیر اعلیٰ بنانے اور مری معاہدے پر عمل در آمد کیلئے جن چند افراد نے نواب ثناء اللہ خان زہری کا بھر پور ساتھ دیا ،ان میں میر قدوس بزنجو اور انکا گروپ شامل تھا لیکن نواب صاحب نے بھی وہی غلطی دہرانا شروع کردی جو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے سرزد ہوچکی تھی۔
جی ہاں پشتونخواہ اب بھی وزیر اعلیٰ کی منظور نظر تھی اور اب نواب صاحب ایک مکمل نواب کی حیثیت سے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں براجمان تھے۔ سونے پہ سہاگہ جس افسر شاہی کو وزیر اعلیٰ ہاؤس سے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نکال باہر کیا تھا انہیں نواب صاحب واپس زرغون روڈ لے آئے اور یہی افسر شاہی نواب ثناء اللہ خان زہری کو اپنے منتخب اراکین اور صوبے کے عوام سے دور لے گئی۔
اب نواب صاحب کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ انکی حکومت کو مقررہ مدت کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ ن لیگ، نیشنل پارٹی اور پی کے میپ انکے ساتھ ہیں۔ اپوزیشن میں موجود مولاناواسع کو انہوں نے مکمل نہیں لیکن کسی حد تک مطمئن رکھا ہوا تھا جسکی وجہ سے وہ بے نیاز ہوکر وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے اور اب وہ اپنے ان دوستوں سے دور ہونا شروع ہوگئے تھے جنہوں نے مری معاہدے پر عمل در آمد کیلئے انکا ساتھ دیا تھا۔
نئی کابینہ میں بھی میر قدوس بزنجو وزیر نہ بن سکے، وجہ بنے نیشنل پارٹی اور پی کے میپ ۔ جان جمالی کو اسپیکر شپ سے ہٹانا، انکی بیٹی کو سینیٹ کا ٹکٹ نہ دینا، اظہارکھوسہ کو نئی کابینہ سے دور رکھنا اور دیگر کئی ایسے اقدام نواب زہری نے اٹھائے جن سے ن اور ق لیگ کے اراکین کو ایسا محسوس ہوا کہ جس مقصد کے تحت انہوں نے نواب زہری کو وزیر اعلیٰ بنایا، وہ حاصل نہیں ہوا۔
وزیر اعلیٰ تو بدل گیا لیکن نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ کے مقابلے میں ن اور ق لیگ کے اراکین نظر انداز ہوتے رہے۔ ن لیگ کے اراکین کیلئے وزیر اعلیٰ سے ملاقات مشکل ترین عمل بن گیا اب ایسے میں کیا ہوسکتا تھا کہ اچانک خبر آئی کہ ڈپٹی اسپیکر کے خالی عہدے پر پرنس احمد علی کو لائے جانے پر غور کیا جارہا ہے ۔انہی دنوں پانامہ اور اقامہ کا فیصلہ آیا۔ میاں صاحب نااہل ہوئے ملک بھر میں احتجاجی جلسے شروع ہوئے۔
نواب ثناء اللہ خان زہری اس حقیقت سے واقف تھے کہ ن لیگ کے اراکین نظریاتی مسلم لیگی نہیں ہیں اور وہ ان سے ناراض بھی ہیں جسکی وجہ سے نواب صاحب نے میاں صاحب کو ایسے کسی موقع پر بلوچستان میں جلسے کی دعوت نہیں دی اور میاں صاحب کے اتحادی محمود خان اچکزئی نے موقع کا بھر پور فائدہ اٹھا یا اور میاں نواز شریف کو کوئٹہ میں جلسے کی دعوت دیدی۔
یہ جلسہ اور اس جلسے کے بعد ہونے والی ملاقات کا فیصلہ نواب صاحب کی مشکلات کا آغاز تھا۔ جی ہاں میاں صاحب نے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کو ڈپٹی اسپیکر کی خالی نشست دینے کیلئے نواب صاحب کو ہدایات دی تھیں۔ میاں صاحب اس زعم میں مبتلا تھے کہ یہاں موجود ن لیگ کے اراکین خاموشی سے فیصلہ تسلیم کرلینگے یا پھر انہیں اسکی کوئی پروا ہی نہیں تھی کہ اس فیصلے کا نتیجہ کیا آئیگا۔
بحر کیف جیسے ہی معاملہ کھل کر باہر آیا،ن لیگ اور ق لیگ کے اراکین کی مجلسوں کا آغاز اندرون خانہ شروع ہوچکا تھا معاملہ تھا ڈپٹی اسپیکر کا راستہ روکنے کا۔ گزشتہ سینیٹ کہ انتخابات میں میر قدوس بزنجو ن لیگ کی قیادت کو واضح کرچکے تھے کہ وہ ق لیگ سے تعلق رکھتے ہیں ن لیگ کے فیصلوں کے پابند نہیں اور وہ ن لیگ کی حمایت کرکے حکومت کا حصہ نہیں بنے ۔
انہوں نے نواب زہری کی حمایت کی تھی اب سارا معاملہ نمبرگیم کا تھا۔ میر قدوس بزنجو نے ہی بی این پی مینگل سے رابطے کئے اور پی کے میپ کا راستہ روکنے میں مدد کی ۔درخواست سردار اختر مینگل تک انکے رکن اسمبلی حمل کلمتی کے ذریعے بھجوا دی سردار اختر مینگل نے واضح جواب دیا کہ اگر پہلا قدم اٹھانے کا فیصلہ ن اور ق لیگ کے اراکین نے کیا ہے تو پہلے وہ بتائیں کہ کہیں وہ واپس تو نہیں پلٹیں گے جب یقین دہانی ہوگئی ۔
تو معاملہ نواب صاحب کے بھی کسی حد تک علم میں آچکا تھا اگر انکے باغی اراکین اپنی مہم میں کامیاب ہوئے تو میاں صاحب کو کیسے مطمئن کیا جائیگا ،یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا اور باغی اراکین بھی بخوبی واقف تھے کہ اگر یہ وار خالی گیا تو اسکے نتائج کیا ہونگے کیونکہ نواب صاحب صرف وزیر اعلیٰ نہیں ایک قبائلی نواب بھی ہیں۔ اس سارے کھیل میں کھیلنے والے کھلاڑی صوبے کی حد تک بڑے نام تھے لیکن انہیں کسی بڑے کھلاڑی کی ضرورت تھی اور وہ بڑے کھلاڑی ملک میں دو یا تین ہی تھے۔
ان باغی اراکین نے تین چار بڑے کھلاڑیوں میں دو سے رابطے قائم کیے اور معاملے کو آگے بڑھانے میں مدد چاہی اور دونوں بڑے کھلاڑیوں نے کھیل کی بساط بدل دی اور کہاکہ وہ ہر طرح کی مدد کو تیار ہیں لیکن معاملہ صرف ڈپٹی اسپیکر تک نہیں رہیگا بلکہ واضح پیغام میاں نواز شریف کو دیا جائیگا کہ بلوچستان میں ن لیگ کا کوئی وجود نہیں اور یہ کہ اراکین کی خاموشی کو وہ انکی مجبور ی نہ سمجھیں ۔جی ہاں اب باغی اراکین نے فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کرنا ہے۔
چونکہ ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ن اور ق کے اراکین کی ناراضگی کسی حد تک نواب زہری سے ضرور تھی لیکن اسکی وجہ وہ میاں نواز شریف کو سمجھتے تھے اور درست بھی تھا چار ساڑھے چار سال کے عرصے میں میاں صاحبان نے بلوچستان میں اپنی جماعت کے اراکین کو کوئی اہمیت نہ دی، کسی سے ملاقات تو کیا مصافحہ کرنا گوارا نہ کیا اور اب تمام اراکین کے پاس موقع تھا میاں صاحب سے بدلہ لینے کا اور پھر ہمت کرکے ڈپٹی اسپیکر کا راستہ روکنے کے بجائے نواب زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کرلیا گیا ۔
گو کہ ڈپٹی اسپیکر کا راستہ روکنے کی مہم کا آغاز میر عبدالقدوس بزنجو اور انکے دوستوں نے کیا تھا اس معاملے پر بھی پہلا قدم انہوں نے ہی اٹھایا، گیارہ یا دس اراکین کے دستخط سے جمع ہونے والی تحریک عدم اعتماد جمع کروانے والے اراکین میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل تھے اورکھیل ایسے پلٹا کہ نواب زہری نے جن افراد یا انکے اہلخانہ کو رکن اسمبلی ذاتی حیثیت میں بنوایا تھا، وہ بھی ساتھ چھوڑتے چلے گئے۔
نیشنل پارٹی اور پی کے میپ نے بظاہر نواب صاحب کا ساتھ دیا لیکن انکے اراکین بھی باغی گروپ کیساتھ جا کھڑے ہوئے ۔اب نواب صاحب کو اندازہ ہوا کہ وہ ن لیگ کی قیادت کیلئے کتنے اہم ہیں کیونکہ عدم اعتماد پیش ہونے کے تین دن تک تو مرکز سے کسی نے بلوچستان کا رخ ہی نہ کیا، جب تمام اراکین ساتھ چھوڑ گئے تو آخری روز وزیر اعظم صاحب کوئٹہ پہنچے جو کہ آئے ہی خانہ پوری کی نیت سے تھے تو کیا کرسکتے تھے اور بالآخر نواب زہری نے خاموشی سے مستعفٰی ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
اس سارے معاملے میں واقفان حال بتاتے ہیں کہ نواب صاحب کے قریب موجود انکی بیوروکریسی کے نو رتن جنہیں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ ختم ہونے کے بعد نکال باہر کیا تھا اور نواب صاحب نے انہیں واپس سی ایم ہاؤس لا بٹھایا تھا انکی دلچسپی اہم تھی ۔نواب صاحب کے استعفٰی کو فیکس مشین سے زیادہ تیزی سے گورنر ہاؤس لیجاکر منظور کرواکے اسکی پہلی کاپی لیک کرنے میں انکا کردار نواب صاحب کو اب پتا چلا۔
ممکن ہے اب انہیں نواب اسلم رئیسانی کا مشورہ یاد آیا ہو جب انہوں نے کہا تھا کہ نواب صوبے کی افسر شاہی کیلئے اپنے لوگوں کو ناراض نہ کرنا یہ کسی کہ نہیں ہوتے۔ کاش نواب ثناء اللہ زہری نے نواب رئیسانی کے مشورے پر کچھ غور کیا ہوتا تو وہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرکے صوبے کی سیاسی تاریخ میں امر ہوتے لیکن وہ ایسا نہ کرسکے۔ اعصاب کی جنگ میں نواب صاحب کامیاب نہیں ہوئے جسکے بعد باغی گروپ نے میر عبدالقدوس بزنجو کو قلیل مدت کیلئے وزیر اعلیٰ بنا کر میاں نواز شریف اور تخت راوئیونڈ کو واضح پیغام دیا کہ خاموشی کو کمزوری سمجھنا انکی غلطی تھی ۔
چونکہ قدوس بزنجو اس بات سے واقف تھے کہ قلیل مدت میں وہ کچھ بڑا نہیں کرسکتے ،لیکن وہ عوام کا نبض شناس تھے، انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے دورازے عوام کیلئے کھول دیئے، پشین سے لیکر سریاب روڈ تک خود عوام کے پاس گئے اور ایک ایسا پیغام دیا کہ ماضی کے وزرائے اعلیٰ عوام سے دور تھے اور یہی انکی غلطی تھی اور انکے اس اقدام کو عوام نے سراہا۔
انکی وزارت اعلیٰ کے دور میں ان سے چند لمحوں کی ملاقات ہوئی تو صرف دو باتیں ہوئیں ایک جمہوریت بہترین انتقام ہے کی سیاست کو انہوں نے بلوچستان میں ثابت کیا جب ڈاکٹر مالک نے انہیں وزیر نہ بننے دیاتو انہوں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ہٹانے اور مری معاہدے پر عمل درآمد کیلئے نواب ثناء اللہ زہری کا بھرپور ساتھ دیا جب دوسری بار نواب صاحب کی کابینہ میں میاں صاحب نے شامل نہ ہونے دیا تو صوبے میں ان کی حکومت گرانے میں انکا اہم کردار رہا۔
انہوں نے دونوں سیاسی بدلے جمہوری انداز میں لئے اور ویسے ان پانچ سالوں میں قسمت ان پر مہربان رہی ،وہ رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے، ڈپٹی اسپیکر اور پھر قائم مقام اسپیکر کیساتھ قائم مقام گورنر بھی رہے اور جاتے جاتے صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ بھی رہے۔
آخری ملاقات میں جاتے جاتے میں نے ان سے کہا، اگلی حکومت میں زرغون روڈ پر آنے والے وزرائے اعلیٰ کچھ کریں یا نہ کریں آپکو بہت دعا دینگے تو مسکراتے ہوئے قدوس بزنجو نے کہا ،دعا دیں نہ دیں بد دعا ضرور دینگے ۔لیکن ان پانچ سالوں کے اقتدار میں بڑی خاموشی سے بلوچستان کی سیاست اور وزیر اعلیٰ کی کرسی کا جو زعم تھا، وہ ٹوٹ چکا ہے۔ آنے والے ادوار میں بہت کچھ بدلے گا، کاش چرواہے کا بلوچستان بھی بدلے ۔
Bijar khan marri
بہت خوب لکھا شاہد جان
Amin Khaskheli
کاش چرواہے کا بلوچستان بدلے۔۔۔۔ کاش