افغانستان میں قومی و ملی استقلال کی جنگ ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے ۔ جسے آزادی و حریت کی تحریکوں کے مطالعہ و مشاہدہ کا شوق ہو وہ عالمی طاقتوں اور جدید ترین جنگی و حربی اوزاروں کے مقابل حریت و حمیت کے پیکر افغانوں کی طرف دیکھیں کہ جنہوں نے جنگ آزادی کی ایک نئی اور ولولہ انگیز تاریخ رقم کردی ہے۔ قابض امریکہ سترہ سالوں سے انہیں مات دینے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرچکا ہے، مگر مزاحمت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے ۔
سامراجی ہدایت اور حکم پر گمراہ افغان علماء مختلف فورمز پرگویا امریکی قبضے کو جائز و مباح قرار دیتے ہیں ۔ افغانستان کے روشن فکر حلقے تو پہلے ہی خوئے غلامی اپنا چکے ہیں ۔ یہ بات یاد ر کھنے کی ہے کہ انگریز استعمار کے خلاف مزاحت کا نقارہ افغانستان کے گُنبد و مینار اور حجروں سے بجا تھا ۔ جس کی صدا روسیوں کے خلاف بھی گونجی ۔اور امروز افغان امریکی قبضے کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے ہوئے ہیں۔
افغانستان میں موجود امریکی فوجی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ امارات اسلامیہ پر طاقت کا استعمال تو کررہے ہیں، سیاسی دباؤ بڑھانے کی سعی کررہے ہیں مگر اس کے ساتھ ان کے خلاف مذہب یعنی مذہبی حلقوں کی تبلیغات اور فتوؤں کی معاونت بھی حاصل کررہے ہیں ۔ چنا ں چہ اس حکمت عملی کے تحت درباری علما ء و مشائخ مسلسل اس مزاحمت کو ناروا باور کرانے کی سعی کررہے ہیں ۔
اس منش کے علما ء 4جون کوکابل کے لویہ جرگہ ٹینٹ میں اکٹھے کرلئے گئے تھے۔ فتویٰ جاری کیا کہ ’’افغانستان میں جنگ کی کوئی بنیادی وجہ نہیں ۔ اس جنگ کی نہ کوئی مذہبی حیثیت ہے اور نہ ہی یہ قومی اور انسانی مفاد میں ہے۔ ‘‘اس اجتماع کے اختتام پر خودکش بم دھماکا بھی ہوا جس کی حمایت ہرگز نہیں کرتے ۔مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ علماء محض اتنا ہی کہتے کہ قابضین بھی افغانستان سے نکلنے کی تیاری کریں۔
کیونکہ اس جنگ کی بنیادی وجہ امریکی قبضہ ہے ۔ پھر جنگ کی بنیادی وجہ کیسے نہیں ہے ؟۔ امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا ہے اس جارحیت کے نتیجے میں لاکھوں افغان پیوند خاک ہوچکے ہیں۔ اور افغانستان پر اپنی مرضی کی حکومتی و انتظامی مشنری مسلط کردی۔ امریکہ اچھی طرح جان چکا ہے کہ اس کے سامراجی منصوبوں کے آگے افغانوں کا جذبہ دین و آزادی آہنی دیوار کی مانند کھڑا ہے، جس کے خلاف مذہبی طبقے کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو ان کے کوہِ و دمن سے نکال دو
مگر افغانیوں کے جذبہ دین و قومی وقارکو عروج ہی ملا ہے۔ دھرتی پرجب تک ان خاک نشینوں کا وجود رہے گا حریت کا افتخارافغانوں کے ماتھے کا جھومرہی رہے گا۔ 11مئی2018ء کو انڈونیشیا کے دار الحکومت جکارتہ میں افغانستان، پاکستان اور انڈونیشیا کے علماء کی کانفرنس میں بھی امریکیوں اور ان کے افغان کاسہ لیسوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔
افغانستان بارے علماء کی اس کانفرنس کا مقصد ایک مشترکہ فتویٰ جاری کرنا تھا۔ وہاں پاکستان سے گئے علماء کا مؤقف زمینی حقائق کے مطابق رہا ، یعنی اُلٹا امریکی قبضہ و موجودگی کو جائز نہ سمجھا گیا۔ البتہ شہریوں کے جان و مال کے نقصان اور تنازع کے پرامن حل کے حوالے سے سفارشات سامنے لائی گئیں۔
کانفرنس میں علماء کی جانب سے فتویٰ جاری نہ کرنا امریکی جارحیت پر دلالت کرتا ہے ۔ رہی بات افغان فوج اور پولیس کی تو ان کی تنظیم و تربیت کا مقصد ہی کٹھ پتلی افغان حکومت اور امریکی مفادات کا تحفظ ہے ۔ گلبدین حکمتیار نے کہا تھا کہ افغان فورسز امریکی افواج کی ڈھال کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ سر دست امارت اسلامیہ نے اپنا بیانیہ مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ہے ۔
ان کا اولین مطالبہ قابض افواج کا افغانستان سے انخلاء کا ہے ۔ انڈونیشیا کانفرنس میں یہ نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے علماء نے امارت اسلامیہ سے مزاحمت روک دینے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ یہ کہا کہ افغانستان میں امن امریکی قبضے سے مشروط ہے۔ امریکہ نکلتا ہے تو امن کا قیام یقینی بن جائیگا۔ افغانستان پر مسلط حکومتیں سرے سے بے اختیار ہیں اپنی رائے اور تحفظات کا اظہار کریں گی تو بے دخل کردی جائیں گی اور نشان عبرت بن جائیں گی۔
ماضی میں روس اپنے کئی کاسہ لیسوں کو انجام تک پہنچا چکا ہے ۔1973ء میں سردار داؤد نے ظاہر شاہ سے اقتدار چھینا تو کمیونسٹوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔روسی حکومت نے داؤد کی آمد پر گرمجوشی کا اظہار کیا۔ روسی اور افغان کمیونسٹ اسے کامریڈ داؤد کہہ کر پکارتے۔ مرحوم ڈاکٹر نجیب اللہ نے تب کہاتھا کہ ’’داؤد روس کا پکا دوست ہے ۔ وہ افغانستان میں کمیونسٹ تحریک کو استحکام دینا چاہتا ہے۔
‘‘ ڈاکٹر نجیب نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ ’’پاکستان کے خلاف جنگ کے عزم کا اظہار جیسے اقدامات داؤد کی ترقی پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔‘‘سردار داؤد پرچمیوں کے ہاتھوں کھلونا بن گئے ۔رفتہ رفتہ سردار داؤد نے ایک افغان کی حیثیت سے ترجیحات بدلنا شروع کردیں ۔ پاکستان،مشرق وسطیٰ اور دوسرے اسلامی ممالک کے دورے کئے ان کے وزیر تجارت محمد خان ہمراہ ہو تے ۔یہ شخص ان کی مخبری پر مامور تھا ۔ داؤد کی کابینہ میں اور بھی کمیونسٹ شامل تھے ۔
کمیونسٹوں کو داؤد کے عزائم کا پتہ چل چکا تھا۔داؤد نے پیش بندی کے طور پر کمیونسٹوں پر ہاتھ ڈالا مگر اب دیر ہوچکی تھی ۔یوں خود مختاری کی سزا خاندان سمیت بھیانک موت کی صورت میں دی گئی۔غرض افغانستان میں امن کے قیام کیلئے بات چیت کا در کھلا ہونا چاہیے ۔ افغان کٹھ پتلی حکمرانوں سے بھی مذاکرات ہوں، مگر ان کا با اختیار ہونا ایک اہم سوال ہے ۔
امارت اسلامیہ درست سمجھتی ہے کہ جس نے ان کی حکومت ختم کی ہے اور جو جنگ کے ذریعے افغانستان پر قابض ہوئے ہیں ،سے مذاکرات ہوں تاکہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جائے۔ا فغان درباری علماء بھی بنگال کے میر جعفر جسے لوگ ’’خرِ لارڈ کلائیوں‘‘ کہتے تھے اور دکن کے میرصادق کے کردار کی بجائے ملت کی ترجمانی کا حق ادا کرے ۔
ذاتی نفع اور باطل کی مدد چھوڑ کر ملک و عوام کی آزادی و خود مختاری کا نعرہ بلند کریں۔دنیا یہ حقیقت تسلیم کرے کہ قابض افواج کی موجودگی میں افغانستان کی داخلی استقامت اور سیاسی استحکام ممکن نہیں!
افغانستان کی داخلی استقامت
وقتِ اشاعت : June 22 – 2018