|

وقتِ اشاعت :   June 24 – 2018

یہ خاصی دلچسپ بات ہے کہ کتاب’ The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace”ایسے وقت میں سامنے آئی جب سپریم کورٹ نے شہرت یافتہ اصغر خان کیس ایک بار پھر سماعت کے لیے کھولا،اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ کتاب کے شریک مصنف او ر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی )کے خلاف انتخابات جیتنے کے لیے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو فنڈز دیئے تھے۔

جنرل درانی اس الزام کے حوالے سے تسلیم کر چکے ہیں کہ انھوں نے یہ فنڈز اس وجہ سے تقسیم کئے تھے کہ اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل مرزا اسلم بیگ نے انھیں ایسا کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے جواب میں جنرل بیگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے سیاست دانوں کو اس وجہ سے فنڈز دلوائے تھے کہ اُ س وقت کے صدرغلام اسحاق خان انتخابات میں پی پی پی کو شکست سے دوچار کرنا چاہتے تھے۔وجہ کچھ بھی ہو ان دونوں نے اپنے فرض سے تجاوز کیا اور اس حلف کی خلاف ورزی کی جو انھیں اس بات کا پابند بناتا تھا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوں گے۔

اب اس کتاب کی بات کرتے ہیں جو جنرل درانی، را کے سابق سربراہ اے ایس دُولت اور صحافی ادتیا سنہا نے مل کر تصنیف کی ہے۔اس کتاب پر جی ایچ کیو نے سخت رد عمل ظاہر کیا اور جنرل درانی کے خلاف انکوائری شروع کر دی۔اگر یہ کتاب را کے ایک سابق سربراہ کے ساتھ مل کر نہ لکھی جاتی تو شایداُن متعدد ریٹائرڈ جرنیلوں کی تحریر کردہ کتابوں کی طرح زیادہ توجہ حاصل نہ کر پاتی ،جنھوں نے پاکستان کے سرکاری بیانیہ کی نفی کی ۔
یہاں کچھ مثالوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے؛ میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکبر خان کی تصنیف’Raiders in Kashmir’ (1975) ،جس میں انھوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ جس لشکر نے کشمیر میں مداخلت کی تھی اسے حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ 

ایک اور مثال میجر جنرل (ریٹائرڈ) شوکت رضا کی کتاب’ ‘Pakistan Army War 1965 مطبوعہ 1984 کی ہے ،جس میں تسلیم کیا گیا کہ 1965 کی جنگ خفیہ آپریشن جبرالٹر کا نتیجہ تھا۔ایک اور اچھی مثال جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی کتاب ‘In the Line of Fire’ (2006) کی ہو سکتی ہے،جس میں اعتراف کیا گیا کہ فوج یہ منصوبہ بنا چکی تھی کہ اگر آرمی چیف کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا تو منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔

جنرل مشرف نے اپنی کتاب میں القاعدہ کے لیڈروں کو امریکیوں کے حوالے کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ائر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان نے سرکاری بیانیہ کے برعکس، ایک سے زیادہ بار یہ کہا کہ بھارت کے ساتھ تمام جنگیں پاکستان کی طرف سے شروع کی گئیں اور بالآخر ان میں شکست ہوئی۔لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز نے2013 میں انگریزی روزنامہ نیشن میں اپنے ایک آرٹیکل اور اور پھر اپنی کتاب میں کارگل آپریشن کے ذمہ داروں پر کڑی تنقید کی۔

مجھے تعجب ہے کہ آیا ان تمام جرنیلوں نے اپنے ادارے سے این او سی لیا تھایا اشاعت سے قبل اپنی کتابوں کے متن کی چھان بین کرائی تھی،جس کا مطالبہ اب اسٹیبلشمنٹ کے خود ساختہ ترجمانوں کی طرف سے جنرل درانی کی کتاب کے ضمن میں کیا جا رہا ہے۔

اس بات پر بھی حیرت ہے کہ جی ایچ کیو نے جنرل درانی کی طرف سے لکھے گئے جوائنٹ پیپرز اور ان متعدد ملاقاتوں کا نوٹس نہیں لیا جو استنبول، بنکاک اور نیپال میں ہوئیں،جہاں ادتیا سنہا نے ان دونوں اسپائی ماسٹرز کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا۔

یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ ان ملاقاتوں اور اس کتاب کے لیے فنڈز کس نے دیئے،کیونکہ یہ تمام ملاقاتیں الگ تھلگ مقامات پر ہوئیں اور ان پر بہت پیسہ خرچ ہوا ہو گا۔ ایک اور بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ دوسری کتابوں کے برعکس جو بیسٹ سیلرز بن سکتی ہیں، پبلشرنے اس کتاب کے حوالے سے اپنے کاپی رائٹس کو محفوظ بنانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ انھوں نے کتاب کا ایسا ورژن عام کر دیا جسے کسی معاوضہ کے بغیر ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ایک بات بالکل عیاں ہے—— 

اس کتاب پر پیسہ شاید اسی لابی کی طرف سے خرچ کیا گیا ہے جو جنوبی ایشیا کے امن کے مفاد میں پاک بھارت بات چیت کو فروغ دینے کی کوشش کرتی رہی ہے۔دونوں مصنفین نے کوئی ایسا انکشاف نہیں کیا جسے سرکاری راز قرار دیا جا سکے۔

جنرل درانی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے صرف یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کی طرف سے ایک حملے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں ان کے خیالات پاکستان کے سرکاری بیانیہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ خیالات ،اس سرکاری موقف کی نفی کرتے ہیں کہ پاکستان کی انٹیلجنس ایجنسیوں کو معلوم نہیں تھا کہ اسامہ،پاکستان کے انتہائی باوقار آرمی ٹریننگ اسکول ،کاکول سے چند کلو میٹرز کے فاصلے پر رہائش پذیر تھا اور یہ کہ اس سے پہلے کہ پاکستان کچھ کر سکتا، امریکیوں نے حملہ کر کے اسامہ کو ہلاک کر دیا۔اس معاملہ پر جنرل درانی کے خیالات اُن معلومات کے قریب ہیں جو ممتاز صحافی سیمور ہرش کی طرف سے ان کے طویل تحقیقاتی آرٹیکل میں فراہم کی گئیں، جو لندن بک ریویو میں شائع ہوا تھا۔

تاہم ،اس کتاب کی بنیاد زیادہ تر ان دونوں اسپائی ماسٹرز کے ان خیالات پر ہے جو ان کی دانست میں دونوں ملکوں کے درمیان امن مذاکرات کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔کتاب میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہیئے۔یہ ایک انتہائی اہم تجویز ہے کیونکہ سفارتی محاذ پر یا ٹریکII چینل کے ذریعے عام طور پر جو پیش رفت ہوتی ہے ، اسے یا تو انٹیلجنس ایجنسیوں یا پھر ان غیر ریاستی اداکاروں کی طرف سے تباہ کر دیا جاتا ہے جو جنگی معیشت پر زندہ ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر جنگ بندی اہم ہے مگر یہ بات بھی یکساں اہمیت کی حامل ہے کہ دونوں ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان کسی قسم کی جنگ بندی ہونی چاہیئے۔زیادہ واضح لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انٹیلجنس اداروں کو صرف معلومات جمع کرنی چاہئیں اور ایک دوسرے ملک کے اندر خفیہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہونا چاہیئے۔مگر بدقسمتی سے زیادہ تر ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں دوسرے ممالک میں مایوس عناصر کی معاونت میں ملوث ہوتی ہیں۔

یہ بات بھی انتہائی اہم ہے کہ امن مذاکرات اور کاوشوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے پاکستان اور بھارت دونوں کو پہلے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیئے۔’ The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace’برصغیر میں امن کی جانب آگے بڑھنے کے لیے اچھا راستہ ہے۔ 

جو لوگ اس قسم کی کتابوں پر جن میں دیانت داری کے ساتھ اپنا جائزہ لیا گیا ہوتا ہے،ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں ،وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ وہ شور مچا کر آزادی اظہار پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ملک میں قومی سلامتی کا صرف ایک ہی بیانیہ نہیں ہو سکتا ۔ آزادانہ اور منصفانہ مکالمہ ہی امن کی جانب صحیح راہ دکھانے میں مدد کر سکتا ہے۔