بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام ف کے اندر اختلافات آنے والے عام انتخابات پر بری طرح اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ انتخاب متحدہ مجلس عمل کے تحت لڑا جارہا ہے ۔ بلوچستان میں جے یو آئی ف بڑی مذہبی جماعت ہے۔ ایک قوی پارلیمانی حیثیت کی حامل رہی ہے۔
اگرچہ صوبے کے اندر ایم ایم اے بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ البتہ قابل غور منظر خود جے یو آئی ف کے اندر بگاڑ و انتشارکے ماحول کا ہے۔ ایک مضبوط جتھہ جس کی رہبری مولانا محمد خان شیرانی کرتے ہیں ،تنظیمی فیصلوں کی قبولیت پر آمادہ نہیں ہے۔
مولانا عبدالواسع جو 2002، 2008 کی اسمبلی میں صوبے کے سینئر وزیر رہ چکے ہیں۔بناء بریں وہ گویا خود کو صوبے کا حاکم سمجھ بیٹھے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد ان کی نہ بن سکی اور چار و ناچار حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنا پڑا۔ آخری وقتوں میں غیرعلانیہ طور پر حکومت کا حصہ بن گئے۔ اپنی مرضی سے اہم محکموں میں آفیسروں کے تبادلے کرادیئے۔
یہاں تک کہ نگراں کابینہ میں بھی حافظ خلیل کو شامل کرایا ،جو بعد میں مستعفی ہوگئے۔ وجہ تھی کہ اس شخص کی اہلیہ کو ایم ایم اے نے خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کے لئے نامزد کیا ہے۔اور ترجیحی فہرست میں پہلے نمبر پر ان کا نام ہے ۔ جبکہ آئین کے آرٹیکل224بی کے تحت نگراں کابینہ کے رکن کا کوئی قریبی رشتہ دار (بیوی،شوہر ،بچے )انتخاب میں حصہ لینے کے اہل نہیں ۔
گویا سبکی کا احساس دامن گیر نہ ہوا تھا، بلکہ استعفا بہ امر مجبوری دینا پڑا۔ مولانا عبدالواسع کے حلقہ پی بی تھری قلعہ سیف اللہ پر اس بار مولانا نور اللہ کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ یہ ایم ایم اے بلوچستان کے صدر بھی ہیں۔اورجے یو آئی کے اُن ناراض لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے الگ ہوکر جے یو آئی نظریاتی کے نام سے الگ جماعت قائم کرلی تھی۔ مولانا عصمت اللہ جے یو آئی نظریاتی کے امیر تھے ۔
لمبے عرصے بعد ان کا انضمام ہوا ۔ نظریاتی دھڑا اپنی جگہ رہ گیا۔ مولانا عصمت اللہ کی سرکردگی میں کئی رہنماء پھر سے جمعیت علمائے اسلام ف کا حصہ بن گئے۔ یہ سارے جے یو آئی کے بڑے دیرینہ لوگ ہیں۔ مولانا شیرانی دھڑے کے لوگ اب بھی ان کو انضمامی کہہ کر پکارتے ہیں یعنی طعنہ زنی کرتے ہیں ۔
مولانا نور اللہ، صاحبِ حیثیت ہیں، ان کے خلاف اس گروہ کے لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس طعنے کے تحت مہم شروع کردی ہے چونکہ مولانا عبدالواسع کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے257 قلعہ سیف اللہ کم ژوب کم شیرانی کا ٹکٹ دیا گیا ہے جس سے وہ بددل ہیں۔
چنا ں چہ اس نے متوازی انتخابی مہم شروع کر رکھا ہے۔ یعنی مولانا شیرانی کے ہم خیال ان جماعتی امیدواروں کو ہرانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں جنہیں صوبائی نظم کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ مولانا عبدالواسع کی تو کوشش ہی یہی ہے کہ کسی بھی طرح مولانا نور اللہ کامیاب نہ ہوں۔
اصل بات یہ کہنے جارہا ہوں کہ مولانا عبدالواسع نے عید الفطر سے غالباً دو روز قبل وفد کے ہمراہ کوئٹہ چھاؤنی میں بلوچستان عوامی پارٹی(باپ ) کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ’’باپ‘‘ سے اپنے لوگوں کی کامیابی کیلئے تعاون مانگا۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں ان کی آئندہ بھی ملاقاتیں ہوں۔ شنید میں ہے کہ جے یو آئی کے اس دھڑے نے آزاد حیثیت سے بھی امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔
یا شاید چند کو پارٹی نظم نے ٹکٹ بھی جاری کئے ہوں۔ مولانا عبدالواسع نے پشتونخوامیپ کے نواب ایاز جوگیزئی جو این اے257پر ان کے اور پی بی 3قلعہ سیف اللہ جے یو آئی (ایم ایم اے) کے مولانا نور اللہ کے مقابل انتخاب لڑرہے ہیں کو بھی در پردہ پیش کش کر رکھی ہے کہ نواب ایاز جوگیزئی ان کو قومی اسمبلی کے حلقہ پر ووٹ دلائیں اور وہ (مولانا عبدالواسع) اُسے صوبائی اسمبلی کی نشست پر ووٹ دلائیں گے۔
مولانا محمد خان شیرانی کے فلسفہ سیاست کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ دیانتدار بیوروکریٹ سے بہتر کام نکالنے والا ایک بد عنوان آفیسر ہوتا ہے۔مجھے سول سکرٹریٹ کے ایک سینئر آفیسر نے بتایا کہ بالخصوص دو ہزار دو اور آٹھ کی اسمبلیوں میں جے یو آئی کے چند با اثر وزراء نے بیوروکریسی کے اندر بد عنوانی کی حوصلہ افزائی کی ۔ یقینی طور پر اس مکروہ عمل کے لئے جواز و حجت مو لانا شیرانی کا مذکورہ سیاسی فلسفہ ہی ہے ۔
مولانا شیرانی کا دھڑا اپنے طور پر اپنے لوگوں کی کامیابی کیلئے بھاگ دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی نظر میں صوبائی یا مرکزی نظم کی پرکاہ برابر اہمیت نہیں ہے۔ قیاس آرائیاں یہ بھی ہورہی ہیں کہ شیرانی کے زیر اثر کارکن اپنے رہنماؤں کی ہدایت پر ووٹ کا استعمال کریں گے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نیشنل پارٹی کے بعض سرکردہ لوگ بھی باپ سے رجوع کر چکے ہیں۔
اوردوسرا رخ دیکھئے کہ ابھی24جون ہی کوحاصل بزنجو کہہ چکے ہیں کہ’’ باپ کا بلوچستان میں کوئی کردار ہوسکتا ہے نہ یہ کریکٹر کے حامل ہیں۔پرانی (ق) لیگ کا نام تبدیل کرکے باپ رکھ دیا گیا ہے۔اورجن لوگوں نے مسلم لیگ (ق) بنائی تھی انہی کی مہربانی سے “باپ” بنی ہے‘‘۔ بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کے بعض لوگ بھی ’’باپ ‘‘کے در پر دستک دے چکے ہیں۔
ممکن ہے کہ دوسری جماعتیں بھی منت مانگنے اس دربار پہنچ جائیں۔ گویا باپ ان کیلئے ایک وسیلہ بن چکا ہے!۔ ایم ایم اے کا یہ عالم ہے کہ خضدار میں ضلع کی سطح پر جے یو آئی ف نے اس پلیٹ فارم سے سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلی۔
اتحاد میں شامل کسی دوسری جماعت کا اعتماد اور رائے سرے سے ضروری ہی نہ سمجھا گیا۔ اس سے انداز ہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایم ایم اے بلوچستان میں کتنی مؤثر اور نظم و تنظیم کی حامل ہے ۔سردار اختر مینگل کو مینڈیٹ چرائے جانے کا اندیشہ لاحق ہے۔ اشاروں کنائیوں میں بلوچستان عوامی پارٹی(باپ) پر نیش زنی کرتے رہتے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں کہ ’’مخصوص صف بندیاں ہورہی ہیں۔ کبھی فرماتے ہیں کہ مصنوعی جماعت صوبے پر مسلط کی جارہی ہے۔یہ کہ باپ کے نام سے ایک پارٹی کو لاکر انتخابات کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ سردار مینگل نے مینڈیٹ چرانے والوں کے خلاف سڑکوں پر آنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
سردار مینگل اس تناظر میں کہتے ہیں کہ ’’صوبے میں مخصوص صف بندیاں نئی بات نہیں۔ یہ ہر دور میں چلی آرہی ہیں۔اوربلوچستان میں عوام کے حقوق کی بات کرنے والی حکومتوں کو چلنے نہیں دیا گیا۔ جس کی واضح مثال1970ء اور1999کی حکومتیں ہیں جسے وقت سے پہلے سازشوں کا شکار بناکر گرایا گیا۔
نیز یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے کسی کی حکومت کو کمزور نہیں کیا۔ نواب زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمہوری عمل کا حصہ تھا اور عبدالقدوس بزنجو کی حمایت بلوچستان کے عوام کے اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھ کر کیا۔
‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا پشتونخوامیپ ، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے میں بی این پی نے ضرب نہیں لگائی؟ اگر ان کا یہ اقدام جمہوری عمل کا حصہ تھا تو کیا 1970اور1999کی حکومتوں کا خاتمہ ماورائے آئین اقدام تھا؟ اور پھر محترم سردار اختر مینگل کو ’’باپ‘‘ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہی لوگوں کے ساتھ مل کر تو بی این پی نے نواب زہری کی حکومت کو چلتا کیا۔ ان کی صفوں میں شامل ہوکر بی این پی کے کہدہ بابر سینیٹر بنے۔ اور اب بی این پی کی فرزانہ بلوچ نگراں کابینہ میں وزارت بہبود آبادی، ترقی نسواں، سماجی بہبود اور اقلیتی امور کاقلمدان سنبھالے ہوئی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے اندر اگر اصول و نظریات کی ذرہ بھی رمق باقی ہے،تو راستہ یہ ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ، بی این پی عوامی، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف صوبے میں جاندار سیاسی و جمہوری روایات کی واپسی پر متفق ہوں۔
رہی بات بی این پی کی جس نے باپ کے لوگوں سے ملکر اتنا کچھ کیا تو انتخابات کے حوالے سے دستِ تعاون دراز کرنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ ویسے بھی باپ وسیلہ ظفربن چکا ہے ۔ القصہ ، جمعیت علمائے اسلام ف کی قیادت ہوشیار رہے ۔