|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2018

بلوچستان میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات کی اہمیت اور اِن میں بطور انتخابی اْمیدوارجان محمد دشتی کے نام نے ایک بھر پور اور نئی بحث چھیڑی ہے۔ جان محمد دشتی بلوچ قوم پرست حلقے اور عمومی طور پر عوام الناس کے لیے ایک انتہائی قابلِ احترام بلوچ دانشور ، ماہرِ لسانیات اور ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ 

جان محمد دشتی کاضلع کیچ کے حلقہNA271سے قومی اسمبلی کے انتخاب میں مقابلے کا فیصلہ بلوچ سیاسی و سماجی میدان میں اْس کے چاہنے والوں اور مخالفین دونوں کیلئے کسی حیرت سے کم نہیں۔بلوچستان کے حوالے سے روایتی طور پر وہ لوگ جو اعلیٰ حکومتی پوزیشن رکھتے ہیں، ریٹائر منٹ کے بعدعام طور پر خودکو تبلیغی جماعت سے وابستہ کرلیتے ہیں یا ذاتی کاروبار ی شعبے سے جْڑ جاتے ہیں اور سماج کے مسائل اورتقاضوں سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔

البتہ شاذ ونادر ہی یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی اعلیٰ بیوروکریٹ اور بلوچ لکھاری پہلے سے طے شدہ رجحان کے برخلاف قوم پرست سیاست میں حصہ لے رہا ہوتا ہے۔بلوچستان کے لوگوں کو عام طور پر،کسی استثنائی معاملے کو چھوڑ کر، اپنے نمائندے منتخب کرنے میں مشکل صورتحال کاسامنا کرنا پڑتا ہے ۔

کیونکہ انہیں برے یا کم برے افرادمیں سے ہی کسی کا انتخاب کرنا ہوتا ہے لیکن موجودہ انتخابات میں جان محمد دشتی کے نام کوتعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت اور سماجی حلقوں میں ناامیدی کی طویل سیاہ رات کے بعد روشنی کی کرن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اگر موجودہ سیاسی تقسیم کی رو سے دیکھا جائے تو یہ بات لازمی طور پر مخالفت کی زَد میں آ تی ہے۔جس طرح منڈیلا نے کہا تھا،’’سیاست میں بہت سارے حساس مسئلے ہوتے ہیں اور لوگ عام طور پر غیر مقبول نقطہ نظر کونہیں چاہتے۔

کچھ لوگ عسکریت پسندہونے کا تاثر دینا چاہتے ہیں تاکہ مسائل کا سامنا نہ کر پائیں، خاص طور پراگر یہ مسئلے اْس قسم کے ہوں جو آپ کو غیر مقبول بناتے ہوں ‘‘۔بہرحال، یہ عوام اور سماج کا مفاد ہی ہوتا ہے جو ایک باشعور انسان کے عمل اور فیصلوں کی رہنمائی کرتا ہے۔

چاہے وہ کسی بڑی تنقید کوجنم دینے کا سبب ہی کیوں نہ بنے۔آنے والے انتخابات میں جناب دشتی کی شرکت کو معاشرتی حلقوں میں وسیع پیمانے پر سراہا جا رہا ہے کیونکہ انہیں بڑی مدت کے بعد ایسا معتبر شخص نظر آیا ہے جسے وہ ووٹ دے سکیں باوجود یہ کہ انہیں اپنے مینڈیٹ کی قربانی کا خدشہ بھی لاحق ہے۔

دشتی صاحب کے بہت سے ایسے چاہنے والے جو اْن کے حلقہء انتخاب سے باہر رہتے ہیں،مصلحت آمیز انتخابی عمل یا انتخابات میں ریاستی اداروں کی مداخلت کی وجہ سے اور انتخابات میں غیر شفافیت کے سبب ان کی کامیابی کے بارے میں دو مختلف نقطہ نظررکھتے ہیں۔

بلوچ کاز اوربلوچ تاریخ وادب کے لئے جناب دشتی کی بے پناہ قربانیوں اور بلوچوں پر زیادتیوں کو بے نقاب کرنے پر نفرت کے تیر کھانے کے باوجودبھی، ان کے چاہنے والے اس شبہے کا اظہار کرتے ہیں کہ جناب دشتی جیسے بلندقد و قامت والے شخص کومقتدرہ کی جانب سے ’’ سب سے زیادہ نا پسندیدہ ‘‘ جان کر انہیں لوگوں کے ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

کچھ لوگ عام انتخابات میں جناب دشتی کی شرکت کی مذمت کررہے ہیں۔البتہ، اْسکے ناقد اِس سچ کو نظر اندازکررہے ہیں یا اْنہیں اس بات کا علم نہیں کہ دشتی صاحب نے بلوچ عوام، ان کی زبان اور بلوچ معاشرت کی بہتری کے لئے جوخدمات انجام دی ہیں اس دوران وہ اعلیٰ بیوروکریسی میں ملازمت کر رہے تھے۔

سول بیوروکریسی کی ملازمت کے دوران ہی انہوں نے بلوچ کلچر اور قوم پرستی پرسب سے زیادہ شاندار کتاب لکھی۔ دشتی صاحب کے دور صدارت ہی میں بلوچی اکیڈیمی نے کامیابی کے آسمان کو چھوا اور بہت سارے بلوچ سرکاری ملازم بلوچستان کے عوام اور سول ملازمین کی غیر متزلزل حمایت پر انہیں یادکرتے ہیں۔

امریکہ میں مقیم بلوچ صحافی ملک سراج اکبرنے جناب دشتی کی زیرنگرانی روزنامہ آساپ کونوجوان بلوچ مصنّفین اور کالم نگاروں کی تربیت اور آبیاری کے لئے قابل ذکر پلیٹ فارم قراردیا ، انہوں نے کہاکہ جب بلوچ پر سخت گھڑی آئی تو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کو بے نقاب کرنے میں روزنامہ آساپ نے ہمیشہ سرخیل کا کردار ادا کیا۔

یہ بات قابل ذکرہے کہ دشتی صاحب نے بلوچ معاشرے کی ترقی اور واضح طور پر بلوچ لوگوں کی خدمت اپنی انفرادی حیثیت میں کی ہے، اور اب انتخابات میں کھڑے ہونے کے اپنے فیصلے کے بعد انہیں بلوچستان میں انتخابات میں سب سے زیادہ اہل اورلائق امیدوار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اِس کے باوجود، مثبت اورترقی پسندسوچ کے بغیر مثبت نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ 

ایک ایسے شخص کو منتخب کرنے کے لئے کافی جواز موجود ہے جس کی مہارت اور کام غیر معمولی طور پر ثمر آور ہیں اور اسے اْن لوگوں پر ترجیح دی جاسکتی ہے جو ترقی پسند اورسیکولر سوچ سے مکمل طور پر لاتعلق ہیں۔ایسے انسان کو چْننا جس کی ضروریات اور خواہشات اْس کی اپنی زندگی تک محدود نہیں بلکہ اپنے لوگوں کے لیے ہوں، جس معاشرے سے اس کا تعلق ہو اْس معاشرے کی ناکامی اْس کی اپنی ناکامی ہو،اور اْس معاشرے کی کامیابی اْسکی اپنی کامیابی ہو۔

جان محمد دشتی کی زندگی بذات خود ایک سچے بلوچ کی کہانی ہے جواپنے معاشرے کی سچائیوں ، اذیتوں اور تجربات سے اثر مند ہے جس نے کامیابی اورجدوجہدکے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو اپنی زبان خود بولتے ہیں۔

آنے والے عام انتخابات میں جناب دشتی کی شرکت نے مکران کے شعور کو امتحان میں ڈالا ہے جوبلوچستان کا دانشورانہ دارلحکومت ہونے کی ساکھ رکھتا ہے، جو ایسے شخص کو اپنا نمائندہ منتخب کرنے جارہا ہے جو بلوچوں کی سیاسی و معاشرتی، ثقافتی اور معاشی حقوق کی پاسداری میں پس و پیش نہیں کرے گا۔