پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو سینچر کو جب کراچی میں پیپلز پارٹی کے گڑھ تصور کیے جانے والے علاقے لیاری میں پہنچے تو انہیں عوامی اشتعال اور ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، عوام نے آلودہ پانی کے ساتھ ان کا استقبال کیا اور یہ بھی سوال کیا کہ جب لیاری گولیوں سے گونج رہا تھا تو اس وقت آپ کہاں تھے۔ اس صورتحال سے سوال یہ پیدا ہوا تھا کہ لیاری آخر پیپلز پارٹی سے کیوں ناراض ہے۔؟
بلاول بھٹو لیاری کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 246 سے امیدوار ہیں جبکہ ماضی میں اسی حلقے سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو بھی انتخاب میں حصہ لے چکی ہیں ماضی میں یہ حلقہ 248 تھا حالیہ حلقہ بندیوں کے بعد اسے 246 قرار دیا گیا ہے جو اس پہلے شہر پر راج کرنے والی جماعت ایم کیو ایم کے مرکز لیاقت آباد یعنی نائن زیرو پر مشتمل تھا۔
پیپلز پارٹی اور لیاری لازم و ملزوم : لیاری کے ککری گراؤنڈ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں جلسہ کر کے کراچی میں پارٹی کا پہلا دفتر قائم کیا تھا۔ اپنی جماعت کا دفتر کھولنے سے پہلے یہاں کے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ریلی کا اہتمام کیا، جس نے کئی گھنٹوں تک لیاری کی گلیوں اور سڑکوں پر چکر لگائے، بعد میں یہ سب جلوس ککری گراؤنڈ میں جمع ہوئے جہاں پیپلز پارٹی کا جلسہ اور لیاری پیپلز پارٹی کا سیاسی قلعہ بن گیا۔
بینظیر بھٹو انیس سو چھیاسی میں جب خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے واپس وطن پہنچیں تو انہوں نے بھی سندھ میں پہلا جلسہ بھی لیاری میں ہی کیا تھا بعد میں اسی گراؤنڈ میں ان کی اور آصف علی زرداری کی شادی کی تقریب ہوئی تھی۔
ایوب خان سے لیکر جنرل ضیاالحق اور بعد میں جنرل پرویز مشرف کی ڈکیٹیرشپ تک اس علاقے کا ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی، ترقی پسند قوتوں کے ساتھ رہا، جبکہ اسی شہر کی دیگر سیاسی قوتیں جماعت اسلامی، جمعیت علما پاکستان اور ایم کیو ایم ان آمریتوں کے ساتھی بن، اس طرح کراچی میں نظریاتی فرق اگر کسی نے زندہ رکھا تو وہ لیاری کا علاقہ ہی تھا۔
پیپلز پارٹی میں اختلاف رائے : لیاری میں مقامی قیادت اور کارکنوں کو نظر انداز کرنے کی شکایات 2000 کے بلدیاتی انتخابات میں سامنے آئیں تھیں اور نتیجے میں باغی دھڑے کے ناظم منتخب ہوگئے تھے، ان اختلافات کی وجہ نبیل گبول کو قرار دیا گیا تھا اور جب 2007 میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو ایک بار پھر جماعت میں دھڑا بندی ہوئی اور شکور شاد کی قیادت میں مقامی قیادت آزادانہ حیثیت میں سامنے آئی۔یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ جب 18 اکتوبر کو بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر جب ان کے استقبالیہ جلوس پر حملہ ہوا تو اس میں ہلاک ہونے والے اکثر کارکنوں کا تعلق لیاری سے تھا، جو جانثاران بینظیر کے نام سے بنائے گئے گروپ میں شامل تھے۔
راولپنڈی میں بینظیر بھٹو کی حملے میں ہلاکت نے لیاری میں پیپلز پارٹی کو دوبارہ منظم کردیا اور باغی دھڑے کے امیدوار دستبردار ہوگئے۔2008 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر رفیق انجنیئر اور سلیم ہنگورو رکن صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے جبکہ قومی اسمبلی پر نبیل گبول نے کامیابی حاصل کی، یاد رہے کہ اس کے بعد کے الیکشن میں کچھی برادری سے کوئی امیدوار سامنے نہیں لایا گیا ، جس نے آگے چلے کر سیاسی چپقلش میں اضافہ کیا۔
پیپلز امن کمیٹی کا قیام : لیاری میں منشیات فروش گینگز اور ان کا سیاسی استعمال ایوب خان دور حکومت سے جاری ہے، جس کی تصدیق گل حسن کلمتی اپنی کتاب ’’ کراچی سندھ جی مارئی اور رمضان بلوچ اپنی کتاب ’’لیاری کی ادھوری کہانی’’ میں کرتے ہیں۔
رحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت نے 2008 میں پیپلز امن کمیٹی کی بنیاد رکھی اور یہ صرف لیاری تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کی شاخیں ملیر، گڈاپ اور گولیمار تک پھیلائی گئیں، اس کی قیام کی سیاسی وجہ ایم کیو ایم کی عسکریت کا مقابلہ بتایا گیا تھا جبکہ اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کھل کر اس کی سرپرستی کا دعویٰ کرتے تھے۔
اسی سال یعنی 2008 کو ہی گڈاپ میں ایک چوہدری اسلم کے ساتھ ایک مبینہ پولیس مقابلے میں رحمان ڈکیت ہلاک ہوگئے اور اس کے بعد ان کے جانشین ان کے دوست عذیر بلوچ کو بنادیا گیا، لیاری کی تاریخ کا اگر اسے سیاہ دور قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا جبکہ لیاری ایک نو گو ایریا بن گیا اور اس کے رہائشی لوگوں کی شناخت گینگسٹر کے طور پر ہونے لگی، شہر کے کئی علاقوں میں ان بلوچ نوجوانوں کے لیے روزگار کے لیے دروازے بند کردیئے گئے۔
لیاری آس پاس کے علاوہ شہر میں ایم کیو ایم کے عسکری دہڑی اور امن کمیٹی کے تصادم اور حملے عام ہوگئے، اس صورتحال نے شہر میں بلوچ اور مہاجر لسانی تصادم کی فضا قائم کردی، اسی دوران شیر شاہ کے کباڑی مارکیٹ میں تاجروں پر حملہ کیا گیا جس میں 13 تاجر ہلاک ہوگئے تھے اور صورتحال مزید سنگین ہوگئی۔
ایم کیو ایم کی شکایات پر اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک ان کے ساتھ تھے جبکہ صوبائی وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا عذیر بلوچ کے ساتھ کھڑے رہے، عذیر بلوچ نے اپنی نیٹ ورک بناکر ایک فلاحی روپ اختیار کرنے کی کوشش کی جس میں غریب خواتین کو راشن کی فراہمی، طالب علموں کو تدریسی کتابوں اور لڑکیوں کو جہیز کی فراہمی سمیت کئی ایسے اقدامات اٹھائے جس سے وہ غریب آبادی میں مقبول ہونے لگے۔
لیکن ساتھ میں ہی ان کے پرتشدد کارروایوں کا نشانہ لیاری کا تاریخی حصہ کچھی کمیونٹی بھی بننے لگی جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس طرح علاقے کی قدیم آبادی کئی سال تک آپس میں لڑتی رہے۔
عذیر بلوچ کی بادشاہت کو ماننے سے دیگر گروپس نے انکار کردیا، جن میں ارشد پپو گروپ سر فہرست تھا، نتیجے میں لیاری کے اندر بھی صورتحال جنگ جیسی رہی، فائرنگ دستی بم کے حملے عام سی بات تھی اب لوگ نے روزگار کے لیے باہر جاسکتے تھے اور نہ ہی اپنے گھروں اور محلوں میں محفوظ سمجھتے تھے۔
پیپلز امن کمٹی کی جانب سے بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کی شکایت میں بھی اضافہ ہونے لگا اور ایم کیو ایم ان کو بنیاد بناکر حکومت سندھ سے علیحدگی اختیار کی اور نتیجے میں یوسف رضا گیلانی کی حکومت دباؤ میں آگئی اور 2011 میں رحمان ملک نے پیپلز امن کمیٹی کو کالعدم قرار دے دیا، اور اگلے سال یعنی 2012 میں ایس پی چوہدری اسلم کی قیادت لیاری میں بدترین آپریشن کا آغاز کیا گیا اور چیل چوک سے یہ آپریشن کئی روز تک جاری رہا جس کی وجہ سے مقامی آبای محصور ہوکر رہ گئی۔
پیپلز امن کمیٹی نے دباؤ کے باوجود پیپلز پارٹی کو لیاری میں محدود کردیا، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی برسی میں وہاں سے بسیں روانہ نہیں ہوتی تھیں، جو جن پی پی نے بنایا اب اس نے خود اس کا ہی گلہ دبا دیا تھا۔
جب 2013 میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ آیا تو پیپلز پارٹی نے گھنٹے ٹیک دیئے اور نتیجے میں عذیر بلوچ کی قیادت میں امن کمیٹی کی نامزد امیدواروں کو ٹکٹ دیئے گئے جن میں ثانیہ ناز اور جاوید ناگوری صوبائی اسمبلی اور شاہجہان بلوچ قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھی کمیونٹی کو اس میں شامل نہیں رکھا گیا اس طرح کچھی کمیونٹی اپنا فیصلہ لینے میں آزاد ہوگئی۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو عام تھی جس میں امیدوار عذیر بلوچ کے ساتھ وفاداری کا حلف لیتے ہوئے نظر آرہے تھے۔کراچی آپریشن کا جب آغاز ہوا تو مستفید ہونے والوں میں لیاری کے لوگ بھی شامل تھے، جہاں صورتحال میں کافی قدر بہتری آئی اور گینگ کا تسلط کمزور ہوا، لیکن یہ پانچ سال لیاری کے سینے پر ایک گھاؤ دے گئے، جس نے وہاں محرومی کے احساس میں اضافہ کیا جس کا عکس بلاول بھٹو کے دورے کے موقع پر واضح نظر آتا ہے۔
بیروزگاری اور بد انتظامی : لیاری کے لوگ دوسری ریاستوں میں جاکر محنت مزدوری کرتے تھے یا پھر اسپورٹس سے جنون کی وجہ سے ملازمتیں حاصل کرتے تھے، کراچی پورٹ، بینکوں، پی آئی اے سمیت مختلف محکموں میں کھلاڑیوں کا کوٹہ مختص تھا، جو لیاری کے نوجوان کی حوصلہ افزائی کرتا تھا جس کی وجہ سے وہ باکسنگ، فٹبال، سائیکلنگ میں نمایاں نظر آتے کئی بین الاقوامی باکسروں نے ان گلیوں میں جنم لیا۔
یہ شوق تو اس وقت بھی جاری ہے لیکن ان محکموں میں کوٹہ ختم کردیا گیا ہے جس نے لیاری کے نوجوان کے لیے ملازمت کے دروازے بند کردیئے ہیں۔کراچی کے انتظامی معاملات پر مسلسل ایم کیو ایم کی گرفت کی وجہ سے یہاں کے نوجوان کو سرکاری شعبے میں ملازمت سے دور رکھا گیا جبکہ پیپلز پارٹی بھی اس میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکی جبکہ نجی شعبے میں مہذب ملازمت کی راہ میں ان کی اور علاقے کی مخصوص شناخت نے ان کے لیے دروازے بند کر دیئے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی بدترین صورتحال، سرکاری ہسپتالوں بشمول لیاری جنرل ہسپتال میں سہولیات کی عدم دستیابی اور پانی اور بجلی کی عدم فراہمی نے یہاں کے لوگوں کو سیاسی نظام سے بدظن اور باغی کردیا ہے۔
اب ان کے لیے پولنگ اسٹیشن پر جاکر ووٹ دینے کا کوئی مقصد اور پرکشش آپشن نہیں رہا ہے اور صورتحال کو مزید سنگین امیدواروں کی نامزدگی نے بھی کردیا ہے، جس سے مقامی قیادت اور کارکن ناراض ہے۔ شکور شاد تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں جبکہ حبیب حسن آزاد امیدوار کی حیثیت سے موجود ہیں، کچھی کمیونٹی کو ایک بار پھر نظر انداز کیا گیا ہے۔
بالی ووڈ کے نامور اداکار سلمان خان کی حالیہ فلم سلطان کا ایک ڈائیلاگ پاکستان پیپلز پارٹی کی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، اس ڈائیلاگ میں سلمان خان کہتا ہے کہ سلطان کو صرف سلطان ہی ہرا سکتا ہے اسی طرح ماضی کا تجزیہ کیا جائے تو پیپلز پارٹی کو صرف اس کی لاپرواہی اور لاتعلقی ہی ہراسکتی ہے۔