|

وقتِ اشاعت :   July 3 – 2018

میری آج کی اس تحریر کا مقصد ایک اعتراف ہے کہ جیسے آپ جیسا سوچتے ہیں ایسا ہوتا نہیں اور اگر کوئی چیز آپکی سوچ کے برخلاف ہوتو اسکا اعتراف کرنا چاہئیے۔ بات شروع کرتاہوںیہاں سے پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں نیشنل پارٹی مرکز میں اپوزیشن اور بلوچستان اسمبلی میں آزاد اراکین کے گروپ کی صورت میں نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ کا حصہ تھی۔ 

اٹھارویں آئینی ترمیم کے معاملات چل رہے تھے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور میر حاصل خان بزنجو جس انداز میں اس مقدمے کو لڑرہے تھے اس میں انہیں بلوچستان کے تمام سینیٹرز یہاں تک کہ اس وقت کے پی پی پی بلوچستان کے صدر اور سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔

بلوچستان کے بلوچ یا پشتون تمام منتخب اراکین کی زبردست ورکنگ ریلیشن شپ نظر آرہی تھی او ر مجھے ان دنوں یوں لگتا تھا کہ اگر ان افراد نے دلجمعی سے کام کیا تو مستقبل میں یہ بلوچستان کا نقشہ بدل سکتے ہیں اور اٹھارویں ترمیم میں بلوچستان کے منتخب نمائندوں نے اپنے اکثریتی مطالبے منوا لئے، اسے اس وقت کی میری خوش گمانی ہی کہہ لیں مجھے لگا کہ اگر ان افراد کو اب بلوچستان میں حکومت ملے تو اٹھارویں ترمیم کے ثمرات کے حصول کیلئے جس قانون سازی کی اب صوبے میں ضرورت ہے اسے یہی افراد کرسکتے ہیں۔ 

انتخابات ہوگئے بڑے اجلاسوں کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بالآخر وزیر اعلیٰ بنادیا گیا مجھے لگا کہ اب وہ تسلسل برقرار رہیگا جس کام کا آغاز اٹھارویں ترمیم سے ہوا ،وہ اپنے ڈگر پر چل رہا ہے اور بلوچستان میں بہت کچھ بدل جائیگا ۔

انتخابات کے فوری بعد مجھے ایک کام سے کراچی جانا پڑا ایک صبح نیشنل پارٹی کے رہنماء طاہر بزنجو کا فون آیا کہ آج دوپہر کا کھانا یا ہائی ٹی سرینا میں کرتے ہیں میں نے کوئٹہ میں عدم موجودگی سے آگاہ کردیا تو کچھ توقف سے انہوں نے کہا ایک بات بتاؤ اگر ن لیگ ہمیں حکومت میں شامل ہونے کا کہتی ہے تو ہمیں وزارت اعلیٰ لینی چاہئے یا نہیں ؟

میں چونکہ خوش گمانیوں کا شکار تھا تو بغیر توقف کے بولا کہ چیلنج قبول کریں اور کام کریں اور کوشش کریں کہ سابقہ روایات کو بدل دیں ۔ تھوڑی دیر بعد مرحوم ارشاد مستوئی کو اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے انہوں نے فون کیا اور پوچھا کہ اڑے طاہر بزنجو کا کوئی فون آیا میں نے کہا ہاں آیا تو میں چونکہ کراچی میں ہوں تو میں نے معذرت کرلی ہے تو ارشاد ان دنوں میرے آفس میں اسائنمنٹ ڈیسک پر ہوتے تھے اور میرا دست بازو تھے، اسلئے انہوں نے بتایا کہ اگر اجازت ہو تو میں دو گھنٹے کیلئے جاسکتا ہوں تو میں نے کہا جاؤ دیکھو کیا کہتے ہیں ۔

بقول ارشاد مستوئی کہ اس ملاقات میں موجود تین دوستوں میں دو کی رائے یہ تھی نیشنل پارٹی کو وزارت اعلیٰ لینی چاہئے لگتا ہے وہ بھی میری طرح ہی خوشگمانیوں کا شکار تھے لیکن ایک سینیئر صحافی کی رائے بقول مرحوم ارشاد اس سے مختلف تھی اگر اجازت ملی تو اس سینیئر دوست کا نام بھی ظاہر کرسکتا ہوں ۔

نیشنل پارٹی کا فیصلہ تو ہو چکا تھا لیکن طاہر بزنجو صاحب ہمارے صوبے کے ایک ایسے سیاستدان ہیں جو کہ دیگر سیاستدانوں سے مختلف ہیں اسلئے دوستوں سے معاملات شئیر بھی کرتے ہیں اور مدلل گفتگو بھی کرتے ہیں ۔

چلیں طاہر صاحب کی مشاورت اور ہماری خوش گمانیاں ایک طرف ،بات کرتے ہیں کہ یہ فیصلہ درست تھا یا نہیں اور آج نیشنل پارٹی اسکے اثرات بھی دیکھ رہی ہے گو کہ میری پچھلی تحریر پر ملنے والے فیڈ بیک کے بعد اب دو راستے ہیں یا تو خاموش ہوجاؤ یا جب میری خوش گمانیاں ٹوٹ گئیں تو اسکا کیا ہوا۔ میرے خیال سے انہیں تحریر میں نہ لانا زیادتی ہوگی۔ 

ڈاکٹر مالک کے وزیر اعلیٰ بننے کی داستان میں پچھلی تحریر میں قلمبند کرچکا ہوں میری ذاتی رائے میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نیشنل پارٹی نے پہلا غلط فیصلہ یہ کیا کہ پی کے میپ اور ن لیگ کی مدد لی وزارت اعلیٰ کیلئے اورحقیقت یہی ہے ۔

اسکے بغیر یہ ممکن بھی نہیں تھا لیکن نیشنل پارٹی بطور جماعت مجھے اس وقت بہت کمزور لگی جب وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر نے اپنے محکمے کے سیکریٹری کی تبدیلی کیلئے ناراضی اختیار کی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بحیثیت وزیر اعلیٰ اور نیشنل پارٹی نے بحیثیت جماعت اس مشیر کی ضد کے سامنے سرنڈر کردیا۔ 

اتحادیوں کے سامنے سرنڈر ہونے کے بعد اپنی جماعت کے رکن کے سامنے حکومت اور جماعت جب سرنڈر ہوئی تو پھر اسکے بعد ڈھائی سالہ دور اقتدار میں سرنڈر ہی ہوتی چلی گئی اور پھر غلطیوں کا تانتا بندھتا چلا گیا ۔

گو کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں جو اقدامات اٹھائے وہ لائق تحسین تھے اور بحیثیت رکن اسمبلی اور قائد ایوان انہوں نے کیچ کیلئے اقدامات اٹھائے وہ بھی لاجواب ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کو اسی انداز میں نوازا جیسا کہ ماضی کہ وزرائے اعلیٰ اپنے کچن کیبنٹ کو نوازتے رہے۔ 

اس حوالے سے بھی اگر ڈاکٹر عبدالمالک وہی اپروچ رکھتے جو انہوں نے کیچ کیلئے اختیار کی تو جن آٹھ حلقوں میں نیشنل پارٹی کامیاب ہوئی تھی وہاں بھی آج ترقی کا دور دورہ ہوتا لیکن چونکہ وقت کم تھا اور مقابلہ سخت تھا تو ڈاکٹر صاحب صرف کیچ کی حد تک ہی فوکس رہے اور بھول گئے کہ وہ پورے صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ 

نیشنل پارٹی کے وزراء کے محکموں کا حال کچھ ماضی کے وزراء اور انکے محکموں سے مختلف نہ تھا نیشنل پارٹی کے قریبی دوستوں یہاں تک کہ طاہر صاحب سے حکومت کے قیام کے بعد کچھ نشستیں ہوئیں تو انہیں ہم نے بتایاکہ ہماری خوش گمانیاں غلط ثابت ہورہی ہیں وہ بھی صرف اتنا ہی کہتے یار کوشش کررہے ہیں ۔

چیزیں بہتر ہوں لیکن لگتا تھا کہ جب ابتداء ہی سرنڈر سے ہوئی اب سرنڈر ہی کرکے چلنا ہے۔حیرت تو اس دن ہوئی جس دن ہمارے بلوچستان کے وائسرائے یعنی چیف سیکریٹری بابر یعقوب فتح محمد صاحب جو ان دنوں سیکریٹری الیکشن کمیشن ہیں انہوں نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہوکر بلدیاتی انتخابات کی تاریخ دید ی۔ 

میں چونکہ ان دنوں اس کیس کو بھی دیکھ رہا تھا اور حکومت کے اس حوالے سے مؤقف سے بھی آگاہی رکھتا تھا تو حیران ہو کر سی ایم ہاؤس میں موجود متعلقہ لوگوں سے پوچھا کہ کیا حکومت نے چیف سیکریٹری کو یہ اختیار دیا تھا، جواب نفی میں ملا۔

اگلے روز تو جو تماشا لگنا تھا صوبائی کابینہ کے اجلاس میں چیف سیکریٹری صاحب نہ صرف بولے بلکہ سنا ہے گرجے بھی اور حکومت مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق وائسرائے صاحب کے حکم پر انتخابات کی تاریخ کی توثیق پر مجبور ہوئی۔ 

یہاں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وہ بولڈ فیصلہ نہ کرسکے جو انہوں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے وقت کیا تھا یہاں تک کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد جو قانون سازی صوبے نے کرنی تھی وہ بھی پس منظر میں چلی گئی۔ میری ذاتی رائے میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اگر مصلحتوں کا شکار نہ ہوتے تو وہ اس صوبے کی تاریخ کے کامیاب وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے ۔

تو اب جو بھی صورتحال نیشنل پارٹی کے سامنے ہے اسکی وجوہات سے وہ بخوبی واقف ہیں نیشنل پارٹی کے احتساب کا حق بلوچستان کے عوام کے پاس ہے لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر کچھ فیصلوں میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ یا نیشنل پارٹی کی قیادت مصلحتوں کا شکار نہ ہوتے تو حکومت چلانا ناممکن تھا لیکن اس وقت حکومت چلانے کیلئے کئے گئے ایسے فیصلے جو آج سیاسی میدان میں مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں وہ اچھے کاموں کو بھی ماند کرگئے ہیں ۔

آئندہ انتخابات کے بعد نیشنل پارٹی کی پارلیمانی حیثیت کچھ بھی ہو لیکن نیشنل پارٹی کو جماعت کے ادارے سینٹرل کمیٹی کو منتخب نمائندوں سے زیادہ مضبوط بنانا ہوگا تاکہ کوئی مشیر یا افسر انہیں مصلحتوں کے تحت فیصلوں پر مجبور نہ کرسکے ۔