|

وقتِ اشاعت :   July 5 – 2018

الیکشن کمیشن نے اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانے والے نگران وزراء کی تفصیلات جاری کر دیں جو الیکشن ایکٹ دوہزار سترہ کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں ۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق حلف اٹھانے کے بعد وزرا ء تین دنوں کے اندر اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کے پابند ہیں۔ 

الیکشن کمیشن نے ان وزراء کو کام سے روکنے پر بھی غور شروع کر دیا۔ پنجاب کے نگران صوبائی وزراء میں ظفر محمود، جواد ساجد خان، شجاعت جاوید، انجم نثار ، سردار تنویر الیاس، میاں نعمان کبیر اور چوہدری فیصل مشتاق، سندھ کے جنید شاہ، سعدیہ ورک اور سیمن جون ڈینیل ، خیبرپختونخواہ کے عبدالرؤف خان، ثناء اللہ، مقدس اللہ، محمد راشد خان اور جسٹس ریٹائرڈ اسد اللہ خان اور بلوچستان کابینہ کے نگران وزراء میں عنایت اللہ کاسی اور خرم شہزاد اثاثوں کی تفصیلات نہ جمع کرانے والوں میں شامل ہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کا حکمران طبقہ سب سے زیادہ امیر ہے جس کی بنیاد پر وہ ہمیشہ انتخابات لڑتے ہیں مگر اپنے اصل اثاثے کبھی سامنے نہیں لاتے،کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت اکثر سیاستدانوں نے اپنے اثاثے کم ظاہر کئے ہیں لیکن یہ جھوٹ بول کر بھی الیکشن لڑتے ہیں اور کوئی ان کو روک بھی نہیں پاتا۔ 

بدقسمتی سے قانون کی گرفت کمزور اور بعض جگہ رعایت کی وجہ سے یہ قومی خزانے کونقصان پہنچاتے ہیں تعجب اس بات کی ہے کہ یہی وہ سیاستدان ہیں جو عوامی خدمت کا جذبہ اور درد لیکرعوام کے پاس ووٹ مانگنے جاتے ہیں جب کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو ان کی زیادہ توجہ لوٹ کھسوٹ پر لگی رہتی ہے جب ملکی وسائل سے پیٹ بھر جاتا ہے توغیرملکی قرضوں پر بھی ہاتھ صاف کردیتے ہیں اور بیرون ممالک پیسے منتقل کرنے کے ساتھ وہاں بڑے پیمانے پر جائیداد اور کاروبار بھی کرتے ہیں ۔

حالت یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ میں موجود وزراء نے بھی اپنے اثاثے ظاہر نہیں کئے اور جن کے سامنے آئے ہیں وہ ان کی ملازمت یا کاروبار سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دنیا کا شاید واحد ملک پاکستان ہی ہے جہاں سیاسی جماعتوں کے قائدین سب سے زیادہ امیر ہیں اور تاحیات سیاست سے جڑے رہتے ہیں شاید یہی ان کا اصل کاروبار ہے۔ 

ملک میں اگر حقیقتاً احتساب کا عمل شروع ہوجائے تو ان میں سے بیشتر جیل میں ہی نظر آئینگے تب جاکر حقیقی تبدیلی اور نیاپاکستان بنے گا مگر اس کی بنیاد بھی عوام نے خود ڈالنی ہے جن کے پاس اصل طاقت اپنی رائے کا ہے۔ 

عام انتخابات کے دوران عوام ان تمام تر حقائق کو مد نظر رکھ کر اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں وگرنہ پانچ سال پھر غربت، پسماندگی، مہنگائی سمیت بحرانات سے گزرنا پڑے گا۔یہ بات توواضح ہے کہ حکمرانوں کا اصل اثاثہ کرسی ہے جس کی آمدن کسی بھی کاروبارسے بہت زیادہ ہے۔