بلوچستان کے سیاسی کارکنوں میں ایک تاریخی نام ملک نوید دہوار کا ہے جو شہادت کا درجہ پاکر امر ہوگیا۔ بلوچستان کی سیاسی تاریخ ان کے ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہوگی اور وہ صوبے کی سیاسی قیادت کی صف میں سے ہیں جن کا دْنیائے فانی سے کوچ کرجانے کے بعدتاریخ ساز کردار جاری رہتا ہے۔
وہ قوم کو شعور و آگہی دینے کے اس مقام تک اوپر اْٹھ گئے جو بہت کم سیاسی کارکنوں اوررہنماؤں کو نصیب ہوتا ہے اس کیلئے وقت کے تقاضوں کو بروقت سمجھنے اور ایکشن لینے کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ غیر جمہوری قوتوں کی سیاست میں عمل دخل کو دیکھ کرملک نوید دہوار عملی سیاست میں قدم رکھ کر بلوچستان نیشنل پارٹی کے کاروان کا حصہ بنے۔
ون یونٹ کے خلاف سرگرم عمل ان کے والد ملک نورجہاں چچا ملک سیف الدین ، محمد گلی، عبدالحئی اور محمد شریف نے خان عبدالولی خان، سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ بلوچستان کو مکمل صوبہ کا درجہ دلانے کی جدوجہد میں پیش پیش رہ کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 17 مارچ 1977ء کو مستونگ کے علاقہ کنڈاوہ میں پیدا ہونے والے ملک نوید دہوار کی سیاسی پرورش ان کے گھر میں ہوئی۔
ملک نوید دہوار سمیت بلوچستان کے دیگر سیاسی گھرانوں کی دن رات جدوجہد سے بلوچستان میں قوم پرستوں کی پہلی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ملک نوید دہوار نے بلوچ پشتون اور غیر قبائلی مستقل باشندے کو یکجا کرنے کیلئے ناقابل فراموش قربانی دی ہے ان کا فلسفہ فکر ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ ملک نوید دہوار نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے گرائمر سکول سے کی اس کے بعدانہوں نے ڈگری کالج کوئٹہ سے بی اے اور بلوچستان یونیورسٹی سے اسٹیٹس میں ایم ایس سی کیا۔
زمانہ طالب علمی میں وہ بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے منسلک ہوئے اور وہ شہید حبیب جالب بلوچ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ملک نوہد دہوار کو بلوچی زبان و ثقافت سے بہت محبت تھی اور بلوچی روایات کے پکے امین تھے۔منافقت نام کی کوئی بھی چیز ان میں نہیں پائی جاتی تھی اس لئے بلوچستان کے سیاسی کارکن ان کو اپنا دائمی سربراہ سمجھتے تھے۔ ملک نوید دہوار ایک فاضل شخصیت کے مالک تھے وہ سیاسی قبائلی سماجی ادبی تاریخی سمیت بلوچی تاریخ او روایات کا تفصیلی علم رکھتے تھے۔
ملک نوید دہوار اپنے عہد و پیمان کے پکے تھے اور جو بات کرتے اس پر ڈٹے رہتے تھے۔ ملک نوید دہوار اور انکے خاندا ن کو اپنی ذات کیلئے کسی پارٹی کی حاجت نہیں تھی بلوچستان نیشنل پارٹی کو صوبے کی اکثریتی پارٹی بنناان کی سیاست کا محور تھا۔ ملک نوید دہوار ، سردار عطاء اللہ مینگل، نواب اکبر خان بگٹی اورنواب خیر بخش مری کے سچے پیروکارتھے۔
بات گھوم کر ماضی بعید میں چلی گئی جبکہ آج کے حالات سے لوگوں کی دلچسپی زیادہ ہوگی شاید اسے مبالغہ آرائی سمجھا جائے لیکن کچھ ایسا زیادہ غلط بھی نہیں ہوگا کہ اگر کہا جائے کہ بلوچستان کی مثال شتر بے مہار کی سی ہوچکی ہے اور اس کے سیاسی عناصر کو تنظیم کی لڑی میں پرونا محال بعض اوقات تو نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔
وقت کی طنابیں شایدان سیاسی جماعتوں کو اجتماعی قوت کی سمت دے دیں۔ملک نوید دہوار کو 6 جولائی 2017ء کو کوئٹہ شہر میں دن دہاڑے بہیمانہ طریقے سے شہید کیا گیا۔ اس کی وجہ شاہد یہ تھی کہ وہ بلوچ جملہ حقوق کی جنگ لڑنے جمہوری جدوجہد کی اس حد تک چلے گئے تھے کہ واپسی کاتصور بھی شاید ان کے ذہن میں نہیں آیا وہ کوئی کمانڈو جنرل تو نہیں تھے ایک عام سیاسی کارکن تھے جس کیلئے زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں تھا وہ مر کر امر ہوگئے ہ
ملک نوید کی شہادت کے سانحہ پر شاید ہی کوئی ایسا ذی ہوش شخص ہو جس نے دکھ اور افسوس کا اظہار نہ کیا ہو۔ ملک نوید دہوار کا گھرانہ بلوچ جملہ حقوق کی جدوجہد کی عملی تعبیر کیلئے ثابت قدمی سے بلوچستان نیشنل پارٹی کاحصہ ہے۔6جولائی بلوچستان سے یہی سوگند مانگتا ہے کہ وہ عہد و پیماں کریں کہ ہم اپنے شہید کے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے ان کے فلسفہ اورفکر کی تقلید و پیروی کریں گے۔