*ملک بھر میں عام انتخابات اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں لیڈروں اور امیدواروں کی طرح رخشان بیلٹ میں بھی انتخابی سرگرمیاں روز بہ روز بڑھ رہی ہیں قومی سیاسی پارٹیز صوبائی وعلاقائی پارٹیز کے ساتھ آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں انتخابی حلقوں میں ردوبدل سے رخشان کے سیاسی ماحول امیدوار اور ووٹر کے سوچ وفکر میں تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے ۔
نوشکی خاران چاغی بیسمہ ناگ واشک ماشکیل بھی رخشان بیلٹ۔کا حصہ ہیں انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو 2018 کے عام انتخابات میں ووٹ دینے والوں میں کافی تبدیلی آ چکی ہے جہاں ووٹ کارکردگی دیکھ کر دینے والوں نے انداز بدلا ہے وہاں ووٹ بیچنے اور خریدنے والوں نے بھی تیور بدلے ہیں نوشکی چاغی خاران جو کہ رخشان بیلٹ کے قدرے ترقی یافتہ یا تعلیم یافتہ آبادی پر مشتمل ہے ۔
یہاں سے انتخابی معرکہ میں قوم پرست جماعتوں اور ملک گیر و مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ آزاد امیدوار بھی الیکشن کا حصہ ہیں مگر خطے میں سیاسی ووٹوں کی تعداد انتہائی کم ہے قبائلی شخصی اور پیسے عیوض ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ جیتنے والے امیدواروں سے عوام کوئی توقع نہیں رکھتی رخشان بیلٹ یا رخشان ڈویژن کا رقبہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے پورے صوبے سے بھی بڑا ہے ۔
یہاں کی فنڈز اتنی طویل علاقے میں انتہائی ناکافی ہے چونکہ آدھے سے زیادہ۔پیسہ کمیشن اور کرپشن کی نظرہورہا جاتے ہیں بچا کچا کسی خاص مسئلے کاحل بھی نہیں تے نتیجہ خانہ پری ہی ہوتی ہے اس لئے عوام کو اپنے منتخب نمائندگان سے کوئی توقع نہیں رہتی ہے ووٹ ڈالنا یا انتخابات ایک رسم یا تہوار کی۔
ماند تصور کا جا رہا ہوتا ہے جیسے عید کے دن بچے عیدی لے کر خوش ہوتے ہیں یوں عوام بالخصوص نوجوان نسل سپورٹ مین سماجی ورکرز کو مقامی سیاست دانوں نے اسطرح رکھی ہے کہ عیدی لے لو اور ووٹ ڈال دوچند لوگوں کو راتوں کے وال چاکنگ بینر پوسٹر لگانے کی۔مزدوری لگ جاتی ہے ۔
بڑی گاڑیوں میں گھومنے جھومنے کا موقع ملتا ہے یوں نتائج کے رات سے پانچ سال تک خاموش اور مایوس کے بادل جمے رہتے ہیں اب کی بار سما قدرے بدلا ہے ووٹوں کے سوداگروں اور سیاسی رہنماوں قبائیلی لارڈز کو مشکلات ہے عوام کارکردگی کا راگ الاپ رہی ہے ۔
رخشان بلیٹ میں حلقہ این اے 268 جسمیں بی این پی۔ پی پی ہی مسلم ن لیگ۔ متحدہ مجلس عمل اور ایک آزاد امیدوار کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے لیکن اصل مقابلہ پی پی پی کے سردار عمر گورگیج۔بی این پی کے محمد ہاشم نوتیزئی۔اور آزاد امیدوار سردار فتح حسنی کے درمیان ہوگا مسلم لیگ ن کے امیدوار عبدالقادر ضلع خاران سے زیادہ ووٹ لینے کی پوزیشن میں ہے ۔
مگر نوشکی اورچاغی میں ن لیگ کمزور ہے جبکہ پی پی پی کے عمر گورگیج نوشکی و خاران میں ووٹ لے سکے گی اور چاغی کے ووٹ اسکے لئے جیت کا سبب بن سکتے ہیں جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی۔کے ہاشم نوتیزئی چاغی میں ووٹ اچھا ووٹ بینک رکھتے ہیں اگر نوشکی و خاران سے سپورٹ اس قدر ملی جس انداز سے نوشکی اور خاران۔کے صوبائی امیدواروں کو مل جائے تو بی این پی این اے 268 اپنے نام کر سکتی ہے بصورت دیگر یہ نشست ضلع چاغی سے تعلق رکھے والا کوئی دوسرا اپنے نام کر سکتا ہے۔
آزاد امیدوارسردار فتح حسنی دالبندین اور خاران سے ووٹ لے سکے گا مگر نوشکی میں سردار فتح حسنی جو الفتح پینل کا سربراہ ہے ووٹرز کا رخ اپنی جانب موڑنے میں تاحال ناکام ہے جو اسکے ناکامی کا سبب بن سکتی ہے نوشکی سے سردار فتح حسنی ووٹ نکالنے میں اگر کامیاب ہو گئے اورخاران کے عوام۔نے سردار موصوف کے ماضی کو فراموش کر دیا تو این اے 268 کا تاج اسکے سرسج سکتی ہے ۔
لیکن کافی محنت طلب اور مشکل مرحلہ ہے صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں مقابلہ کافی سخت اور کانٹے دار ہے ضلع چاغی میں 1988 سے لے کر 2018 تک بر سر اقتدار نوتیزئی خاندان کو میر عارف محمد حسنی ٹف ٹائم۔دے چکے ہیں میر امان اللہ نوتیزئی کے اقتدار کا سورج ڈوبتا ہوا نظر آ رہا ہے مگر سخی خاندان انتخابی معاملات میں کھلاڑی ہیں اپنے حلقہ انتخاب میں نشیب وفراز کا اندازہ ان کو بخوبی ہے دیکھتے ہیں ۔
ان حالات میں امان اللہ نوتیزئی اپنی ڈوبتی ہوئی ناو کو کیسے بچا لیں گے اس بار سخی پینل کا اقتدار عارف حسنی کے سیاسی بھنور سے اگر نکلنے میں کامیاب ہو گی تو عارف حسنی کے لئے آگے مشکلات بہت ہی زیادہ ہونگے ضلع چاغی سے جمعیت اور دیگر سیاسی جماعتیں مقابلے کے میدان میں ہے لیکن مقابلہ ون ٹو ون ہے ۔
ضلع خاران میں میر کریم نوشیراونی کیلئے بی این پی کے امیدوار ثناء بلوچ راسکو کے پہاڑ ثابت ہو رہے خدشہ ہے کہ میر کریم نوشیروانی راسکو کی چھوٹی عبور نہ کر سکے اور ثناء بلوچ راسکو سے چلتن کا سفر مشکلات کے بعد طے کر جائے کہا جاتا ہے کہ خاران کے عوام کے سیاسی نبض سے میر کریم نوشیروانی سے زیادہ ماہر کوئی دوسرا سیاسی طبیب نہیں اور میر صاحب ہر مرض کی دوا جانتے اور ساتھ رکھتے ہیں اسکے علاوہ متحدہمجلس عمل کے حامد چشتی اور مسلم ن کے امیدوار عبدالقادر بلوچ بھی صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے امیدوار ہے لیکن مقابلہ بلوچستان عوامی پارٹی کے میر عبدالکریم نوشیروانی اور بی این پی کے ثناء بلوچ کے درمیان ہے ۔
ماضی کے نسبت میر صاحب کو 2018 کے انتخابات کافی پریشان کئے رکھا ہے جبکہ حلقہ 33 نوشکی جہاں انتخابی معرکہ واگہ باڈر کی صورتحال اختیار کر چکا ہے سیاسی محاذ سخت اور 24 گھنٹے ہر امیدوار کو اپنی سیاسی سرحدوں کے تحفظ کیلئے الرٹ رہنا پڑ رہا ہے ووٹر صبح ایک امیدوار کے ساتھ اور شام کو دوسرے امیدوار کے ساتھ اعلان کرتے نظر آ رہے ہیں ۔
نوشکی کا ووٹر کافی پریشان اور مخمصے کا شکار ہے سوشل میڈیا رپورٹ سے صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بلوچستان عوامی پارٹی کے میر غلام دستگیر بادینی بی این پی کے بابو محمد رحیم آزاد امیدوار میر اورنگ زیب جمالدینی اورمتحدہ مجلس عمل کے امیدوار میر عبدالحئی مینگل کے درمیان مقابلہ ہو گا۔
نوشکی کے ووٹرز کا مزاج کافی جلد تبدیل ہوتا رہتا ہے یہاں کا ووٹر اپنا بھروسہ کا چکا ہے 2018 میں نوشکی کے امیدواروں کو کافی پریشانی کا سامنا ہے تو میں سیاسی ووٹوں کی تعداد کم روایتی شخصی۔ و قبائلی بنیادوں پر ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں نوشکی میں سیاسی بنیادوں پر ووٹ کے دعوے دار خوابوں کی جنت میں ہوتے ہیں ۔
البتہ جمعیت علماء اسلام ف کے نظریاتی ووٹ یہاں ہزاروں کی تعداد میں ہے مگریہ سیٹ حاصل کرنے کیلئے ناکافی ہیں باقی سیاسی جماعتوں کی دعوے صرف لفاظی حد تک ہیں نوشکی میں سیاسی میدان چاغی۔خاران اور رخشان بیلٹ کے دیگر اضلاع سے کافی تیز اور گرم ہے۔
4 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ظاہری طور پر ہونے جا رہا ہے لیکن اصل مقابلہ بلا آخر دو امیدواروں کے درمیان ہو گا بلوچستان عوامی۔پارٹی کے حاجی۔میر غلم دستگیر بادینی اور پی این پی کے امیدوار بابو محمد رحیم کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا چند ایک۔حلقے اس امید سے تبصرے کرتے ہیں اور سیاسی پروپگنڈے بھی کہ ان دو امیدواروں کے سیاسی ٹکر سے تیسرا امیدوار جیت سکتی ہے جو آزاد امیدوار میر اورنگ زیب یا متحدہمجلس عمل کے میر عبدالحئی ہو سکتے ہیں ۔
مگر جیسے جیسے انتخابات نزدیک ہوتے جا رہے ہیں سیاسی صورتحال بدلتی جا رہی ہے اور ووٹرز سیاسی رخ کے منتظر ہیں اور سیاسی ہوا جس جانب چل پڑی ووٹرز وہاں کا رخ کر لینگے کہتے ہیں کہ نوشکی میں ایک بڑی تعداد خاموش ووٹرز کی ہے یہ حقیقت ہے کہ نوشکی کا خاموش ووٹرز نے ہمیشہ امیدواروں کی جیت میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اب خاموش ووٹرز کا مکمل تعارف کیا ہے اس کو ہر عام و خاص جاننے سے قاصر ہیں یہاں تک کہ امیدوار بھی البتہ تادم تحریر نوشکی کے 55 فیصد عوام نے اپنا فیصلہ نہیں کیا کہ ووٹ کس کو دیں لیکن امید کی جارہی ہے۔
وہ بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی کے امیدواروں کا رخ کرینگے چونکہ دونوں امیدوار سابقہ سیاسی حریف ہیں اور سیاسی و قبائلی اثر ورسوخ بھی رکھتے ہیں ۔
میر عبدالحئی یا میر اورنگ زیب جمالدینی ان دو امیدواروں کے سیاسی جنگ کے درمیان کس حد تک فائدہ لینگے یہ آنے والے تحریر اور تجزیوں میں اسکا زکر کیا جائے گا مجموعی صورتحال۔میں رخشان کی سیاست کافی گرم اور صورتحال غیر اطمینان بخش ہے ۔