|

وقتِ اشاعت :   July 10 – 2018

بلو چستان کا پا کستان میں انضمام کو اب 70برس ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک بلوچ جا ئز آ ئینی حقوق سے محروم ہیں۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اقتدار میں آنے والے ہر حکومتی سر براہ نے چا ہے سویلین ہوں یا فوجی بلو چستان آکر یہ جملہ ضرور دہرایا کہ ’’ماضی میں آپکے ساتھ بڑی نا انصا فیاں ہو ئیں اب ہماری حکومت انکا ازالہ کرے گی ‘‘یہاں تک کہ دو تین نے ما ضی کی غلطیوں اور نا انصا فیوں کی کو ئٹہ آکر معافی بھی مانگی ۔

لیکن معافی مانگنے والوں نے بھی سا بقہ حکمرانوں کی پیروی کی اور ظلم ڈھا ئے ۔آج سو شل میڈیا کا دور ہے کوئی بات چھپا ئی نہیں جا سکتی ،بلوچ عوام کے سا منے ایک جا نب انکی بے انتہا غربت اور پسما ندگی ہے تو دوسری جا نب انکا سمندر اور قیمتی معدنی وسائل ہیں جنکا انہیں کو ئی فائدہ نہیں مل رہا۔

انہیں معلوم ہے اگر ان وسائل پر انکا اختیار ہو تو وہ تیل پیدا کر نے والے عرب ممالک سے زیادہ خوشحال ہونگے۔اس وقت بلوچوں کو دوبنیادی مسائل کا سا منا ہے ایک انکی شناخت اور قومی بقا کا دوسراحق حکمرانی (Self-rule)اورساحل وسائل کی ملکیت کا ۔ شناخت کے حوالے سے پہلی بار 2017 کی مردم شماری میں صوبے کی ڈیمو گرافی تبدیل کی گئی۔کوئٹہ ڈویژن اور ضلع کی آبادی میں بالتر تیب، 144% اور200% اضافہ ہواجسکی ملک بھر میں مثال نہیں ملتی۔

کو ئٹہ ڈویژن کی آبادی 1713900 سے بڑھ کر 4174500 ہو گئی اور ضلع کو ئٹہ کی آبادی 759941 سے 2275699 ہو گئی۔پہلے کو ئٹہ ڈویژن کی آبادی صوبے کی آبادی کا 1/4 حصہ تھی اب بڑھ کر 1/3 ہو گئی۔اس اضافہ کا نقصان دوسرے ڈویژنز جن میں ژوب بھی شامل ہے کو ئٹہ ڈویژن کی اسمبلی نشستوں،بجٹ، پرو فیشنل کا لجوں کی سیٹوں اور ملازمتوں کے کوٹہ میں اضافہ کی صورت برداشت کریں گی۔

مزید یہ کہ صوبے میں 1951 ؁ سے چلی آرہی بلوچ پشتون آبادی کی تنا سب میں تبدیل واقع ہوئی۔ بلوچ آبادی 65% سے کم ہو کر 61% اور پشتون 28.42 % سے بڑھ کر 33% ہو گئی ۔محکمہ شماریات اس اضافہ کی کو ئی تو جیح پیش کر نے سے قا صر ہے۔

اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ افغان شہریوں کو پا کستانی نیشنل قرار دیا کیا گیا۔میر ظفراللہ جمالی نے سچ کہا ’’ افغان مہاجر ین کو نواز شریف نے پا کستانی قرار دیکر بلو چستان کو پٹھا نستان بنا دیا‘‘۔ اس کے علاوہ گوادر بندرگاہ میں جب کام کا آغازہوگا توروزگارکی تلاش میں افغان مہا جر اور ملک کے دوسرے صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ گوارد آئیں گے اوربلوچوں کواقلیت میں بدل دیں گے۔

بلوچ شناخت کو بچا نے کے لیئے قانون سازی کی ضرورت ہے ، گو کہ ہمارے آ ئین میں کسی شہری کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے پر کوئی پا بندی نہیں لیکن اس کثرت سے نکل مکانی جس سے مقامی لوگ اقلیت میں بدل جا ئیں آئین کے روح کے منافی تصور ہوگی ۔بد قسمتی سے ڈیمو گرافی میں حالیہ تبدیلی اور ساحل وسائل پر بلوچ لیڈرشپ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ لگتا ہے انکی تر جیحات میں صرف الیکشن اور اقتدار کا حصول ہے۔


بلوچستان کے معدنی وسائل میں سے سب سے اہم 1952 ؁ میں سوئی ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس ہے۔ صرف یہ گیس 20 سال تک(ماسوائے بلو چستان )ملک کے کونے کونے گھریلو ،انڈسٹری، فرٹیلا ئزرز،پاور پلانٹس یہاں تک کہ اینٹوں کے بھٹوں میں بے دردی سے استعمال ہو تا رہا اور بدلے میں بلو چستان کو ایک پیسہ بھی نہ ملا۔کو ئٹہ کو گیس کی سپلائی 1984 سے شروع ہوئی۔بلو چستان کو اس وقت بھی صرف 2% گیس مل رہی ہے۔

ملک کے مشہور معیشت دان(Economist ) اور سابق وزیراعلیٰ بلو چستان ڈاکٹر مالک بلوچ کے مشیر قیصر بنگالی کی حالیہ کتاب ’’انصاف کی خاطر پکار ‘‘(A Cry For Justice )جس میں صوبے سے متعلق مالی حقا ئق پہلی بار اعدادوشمار کے ساتھ دستاویزی صورت میں سا منے لائی گئیں ،کے مطابق 1965 سے لیکر 2015 تک سو ئی گیس کی مد میں بلو چستان کے حصہ کے 7.69 ٹریلین روپے(77 کھرب) دوسرے علاقوں کی ترقی پر خرچ کیئے گئے اورفیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP ) جس میں گوادر کو نکال کر، بلو چستان کا حصہ 0.15% ہے ۔

1990سے اسکا 78%سیکیورٹی ایجنسیزاور فیڈرل سول ایڈ منسٹریشن کے دفاتر اورہاؤ سنگ پر خرچ ہو رہی ہے ۔اور آخری 11 سال میں PSDP کا 100% ان پر خرچ ہوا۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق بلو چستان سے گیس کی مد میں ہر سال قومی خزانہ میں 1400 ملین امریکی ڈالرجمع ہوتے ہیں اور بلو چستان کو صرف 116 ملین ڈالر واپس ملتے ہیں۔گیس رائیلٹی بلو چستان کو 35 ، پنجاب کو240 اور سندھ کو125 روپے فی ہزار مربع فٹ کے حساب سے ملتی ہے۔ 

اسکی کوئی وجہ نہیں بتائی جاتی کہ بلو چستان کو رائلٹی پنجاب کے مقا بلے 8 گنا کم کیوں ملتی ہے حالانکہ بلو چستان کی گیس پنجاب اور سندھ کی گیس سے زیادہ صاف اور قیمت میں سستی ہے۔ بلو چستان میں حبکو اور اوچھ پا ور پلانٹس سے بجلی کی پیداوار 2400MW ہے صوبے کی ضرورت 1600MW ہے اور اسے صرف 700MW بجلی مل رہی ہے۔

ضلع چاغی میں سیندک پرو جیکٹ صوبے کی ایک اور اہم دولت ہے جس پر ایک چینی کمپنی 2002 سے کام کر رہی ہے۔اسکا کل تخمینہ 412 ملین ٹن ہے۔فی ٹن سونا 0.5 کلو، چاندی1.5 کلواور باقی تانبا ہے۔سالانہ سونا 1.5 ٹن، چاندی 2.8 ٹن اور تانبا 158000 ٹن نکالا جا رہا ہے۔اسطرح 2002 سے ابتک سونا 24 ٹن ،چاندی 44.8 ٹن اور تانبا 252800 ٹن نکالا جا چکا ہے۔اس میں چین کا حصہ 50% ، مرکزکا 48% او ر بلو چستان کا 2% ہے۔سیکیورٹی اور دوسرے اخراجات بلو چستان کے ذمہ ہیں جو ان دو فیصد سے بمشکل پورے ہوتے ہوں گے۔

سمندری وسائل پرکوسٹل عوام کا گزر بسر ہے ایک اندازے کے مطابق سالانہ 124000 میٹرک ٹن مچھلی پکڑی جا تی ہے۔مقامی طور پر سٹوریج اور پیکنگ کی سہولت نہ ہونے کے سبب کرا چی کے سیٹھ یہ مچھلی مچھیروں سے اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں۔اگر سٹوریج اور پیکنگ کی سہولت ہوتی تو مقامی لوگوں کی آمدنی کئی گنا زیادہ ہو تی اور روزگار کے بہتر مواقع ملتے۔جہاں تک تعلیم کی بات ہے ہائر ایجو کیشن کمیشن (Higher Education Commission )اسلام آباد کے ایک یونیورسٹی، نیسٹ(NEST ) کوسالانہ جو گرانٹ دیتی ہے بلو چستان کے تمام یونیورسٹیوں کو ملاکر اس رقم کے آدھے سے بھی کم ملتا ہے۔

وفاق کی جانب سے صوبے کی ترقی اورروزگارکے لیئے ایک اہم منصوبہ کچھی کینال، 2002 ؁ میں شروع کیا گیا جس سے ڈیرہ بگٹی، کچھی، جھل مگسی اور نصیر آبادکی 5 لاکھ 13 ہزار ایکڑ زر خیز اراضی سیراب ہونا تھا ۔لیکن حال ہی میں بدخواہ حکمرانو ں نے ڈیرہ بگٹی سے آگے اس پر کام روک دیا۔

اب اس کینال سے صرف 70 ہزار ایکڑ اراضی ضلع ڈیرہ بگٹی میں سیراب ہوگی جسے فیز ون کانام دیا گیا۔فیز 1 کو مکمل ہونے میں 15 سال لگے ظاہر ہے فیز 2 اورفیز3 کو مکمل ہونے میں برسوں لگیں گے۔حیرت ہے اس منصوبے کے روکے جانے پر علاقائی اشرافیہ اور بلوچ لیڈرشپ مکمل خاموش رہی۔کہتے ہیں اگر بچہ روئے گا نہیں تو ماں بھی دودھ نہیں دیتی ، لگتا ہے بلو چستان میں رونے والے بھی نہیں رہے۔

صوبے کے لوگوں کی غربت اور پسماندگی کے بارے میں سینٹ کی فنکشنل کمیٹی کو دی گئی حا لیہ بریفنگ میں بتا یا گیا کہ بلو چستان میں صحت اور سماجی شعبوں کی صورت حال سوڈان اور صوما لیہ سے بھی بد تر ہے صرف20-30 فیصد لوگوں کو صحت کی سہو لیات میسر ہیں۔ 

یو این ڈی پی (UNDP ) کی ملٹی ڈائیمنشنل غربت(Multy Diamentional Poverty ) رپورٹ 2017 ، برائے انسانی ترقی کے مطابق جس میں صحت تعلیم اور معیار زندگی کو بنیاد بنایا گیااور 2015 کی ما ئیکرو (Micro ) عدادو شمار کا استعمال ہوا ،بلوچستان کے 28 اضلاع میں13میں انسانی ترقی کی بہت ہی کم درجہ(V Low Human Development Index ) اور 14 کم درجہ(Low HDI ) میں آتے ہیں۔

صرف کو ئٹہ درمیانہ درجہ (Medium HDI ) میں ہے۔اس کے مقا بلہ میں پنجاب کے تمام اضلاع بلند درمیانہ(High Medium ) یا درمیانہ (Medium ) میں ہیں۔ ملک کے 23 خوشحال شہروں میں پنجاب کے18 جن میں لاہور سر فہرست ہے،خیبر پختونخواہ کے4 اور سندھ کا ایک شہر کراچی ہے اور ان میں بلو چستان کا کوئی شہر شامل نہیں۔ملک کے 17 پسماندہ اور بدحال شہروں میں بلو چستان کے14 اور KPK کے 2 اور سندھ کا ایک شہر تھر پار کر شامل ہے۔

ایک اور جا ئزے کے مطابق بلو چستان میں 80% سے زیادہ لوگ ٖ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔ زچگی کے دوران ماں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات ملک کے دوسرے صوبوں کے مقا بلہ میں دگنی ہے۔ صوبے میں ماں اور بچے کی غذائی قلت کے سبب 16% بچوں کا قد عمر کے لحاظ سے چھو ٹا ہے جو تمام عمر چھو ٹا ہی رہتا ہے جسے میڈیکل زبان میں سٹنٹڈگروتھ(Stunted Groth ) کہتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے یو نسکو نے اسے تشویش ناک اور ایمر جنسی قراردیااس کے مطابق بلو چستان کے علاوہ ایسے حالات صرف چندافریقی قحط زدہ ملکوں میں ہیں۔

ٹرانس پیرنسی انٹر نیشنل(Transparency International ) کی 2016-2017 کی رپورٹ کے مطابق ایشیا پیسیفک(Asia-Pacific )اور دنیا میں بلو چستان سب سے زیادہ بد عنوان علاقہ(Region ) ہے جہاں 85% بجٹ سال ختم ہو نے سے پہلے لوٹا جاتا ہے۔ صوبے میں ایسی بری حکمرانی (Bad Governance )کے ذمہ دار بلو چستان کے عوام نہیں اور نہ ہی اس پسماندگی اور غربت کے پیچھے بلوچ سردار اور نواب ہیں جیسا کہ اکثر پرو پگنڈہ کیا جاتا ہے ۔

گزشتہ70 برس بلو چستان میں جو لوگ اقتدار میں آئے ، ما سوائے سردار عطااللہ مینگل ،شہید نواب محمد اکبر بگٹی اور اختر جان مینگل کے جنہو ں نے ملا کر تقریباً تین سال حکومت کی، دوسرے تمام اسلام آباد میں بر سر اقتدار حکمرانوں چاہے فوجی ہوں یا سیویلین کی حسب منشا ،ہیراپھیری (Manipulation )سے اقتدار کی کرسی پر برا جمان کیئے گئے اور انہیں بد عنوانی (Corruption )کی مکمل چھوٹ دی گئی، بدلے میں وہ اپنے محسنوں کے اشاروں پر عمل کرتے رہے۔

اسلام آباد کے حکمرانوں کی ان نا انصا فیوں سے ظاہر ہے کہ بلو چستان کے ساتھ ایک منظم جان بوجھ کر سنگدلانہ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے تاکہ صوبے کے وسائل کو دوسروں کے فا ئدے کے لیئے استعمال میں لایا جاسکے ۔بغا وتیں خلاء میں جنم نہیں لیتیں، ان کے پیچھے ایسی ہی شدیدسیاسی اور معاشی نا انصا فیاں ہو تی ہیں ۔آخر کب تک بلوچستان کے ساتھ یہ نا انصا فیاں ہو تی رہیں گی۔ اب صوبے کے عوام کو جا ئز سیاسی اور معاشی حقوق ملنی چاہیں ۔