بلوچستان کی قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے16 ہیں ۔2013 میں صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستیں 14 تھیں جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ان کی تعداد بڑھا کر 16 کردی گئی ہے۔بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا آغاز اب کوئٹہ کے بجائے شیرانی سے ہوگا۔بلوچستان کی کل آبادی 1 کروڑ 23لاکھ 34 ہزار 39 ہے۔ہرحلقہ کی آبادی کا تناسب 7 لاکھ 71 ہزار 549 رکھا گیا ہے۔
بلوچستان میں حلقہ این اے 268 کی آبادی سب سے زیادہ دس لاکھ 83 ہزار افراد پر مشتمل ہے جب کہ سب سے کم آبادی والا حلقہ این اے 262 ہے جس کی آبادی تین لاکھ 86 ہزار پرمشتمل ہے۔بلوچستان کے تین بڑے حلقے این اے 258، 259 اور 264 ہیں۔ ان حلقوں کو 5 اضلاع پر مشتمل کیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان کا سب سے چھوٹا حلقہ این اے 269 ہے۔ صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاط سے پاکستان کاسب سے بڑا صوبہ ہے۔
یہاں کے مقامی افراد کو ریاست سے بہت سے شکوے ہیں جن میں ایک نظراندازکرنے کا بھی ہے۔ وہ صوبہ جو کوئلے کی ساٹھ فیصد ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ نوے فیصد اونیکس پتھر کی پیداوار دیتا ہے، جہاں لاکھوں ٹن تانبا زمین میں دبا ہوا ہے مگرَ حکمران اس جانب توجہ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔صوبہ بلوچستان غذا، تعلیم، صحت سمیت مختلف شعبوں میں بھی مکمل طور پر پسماندگی کا شکار ہے۔
بلوچستان میں قوم پرستوں کی تحریکیں: قیام پاکستان کے بعد پہلی بلوچ قوم پرست تحریک خود خانِ قلات نے چلائی اور کچھ سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس وقت کے گورنر جنرل سکندرمرزا نے ایک سازش کے تحت خان آف قلات کو اس کی ترغیب دی تھی اور کہا تھا کہ اگر وہ تھوڑی سی احتجاجی تحریک چلا لیں تو وہ قلات کو انہیں سونپ دیں گے۔
خان قلات نے انیس سو اٹھاون میں خان محراب شہید (ایک بڑے بلوچ قوم پرست رہنما) کی قبر پر بلوچ رہنماؤں کو جمع کرکے قلات کی آزادی کا اعلان کیا اور اس کا پرچم لہرایا۔ اس موقع پر بلوچ سرداروں نے ایک عزم کیا جسے بلوچی ثقافت میں اقرار کہا جاتا ہے۔ اس احتجاج کو جواز بنا کر پاکستان میں انیس سو اٹھاون کا فوجی مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور کہا گیا کہ بلوچستان میں بغاوت ہوگئی ہے۔ سردار پہاڑوں پر نکل گئے۔ اس احتجاجی تحریک کے ایک سرکردہ رہنما سردار نوروز خان زرکزئی تھے۔
انیس سو اٹھاون سے انیس سو باسٹھ تک قلات کی جنگ پہاڑوں میں چلتی رہی۔ پاکستانی فوج قلات کے علاقوں ، جھالاوان(خضدار) اور ساراوان، میں بلوچوں سے لڑتی رہی۔ انیس سو باسٹھ میں جنرل ایوب خان نے بلوچ قوم پرست سرداروں سے ایک معاہدہ کیا کہ اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو حکومت انہیں عام معافی دے گی۔ اس معاہدہ کے تحت جب سردار پہاڑوں سے اترے تو جنرل ایوب خان کی حکومت نے قوم پرستوں کو گرفتار کیا اور سزائیں دیں۔
سات آدمیوں کو پھانسی ہوئی۔ بلوچ قوم پرستوں کی تحریک میں یہ واقعہ ایک بڑے زخم کے طور یاد کیا جاتا ہے جو انہیں پاکستان کی فوج اور مقتدر طبقہ سے لگا۔ اس واقعہ کے فوراً بعد ایوب خان کے متعارف کردہ بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت قومی اسمبلی کے لیے انیس سو باسٹھ کے انتخابات ہوئے جس میں قلات سے بلوچ سردار عطا اللہ اور کوئٹہ (برطانوی بلوچستان) سے نواب خیر بخش مری منتخب ہوئے۔ مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں بھی قوم پرست بلوچ سیاستدان منتخب ہوئے۔
بلوچ قوم پرستوں نے اپنے سیاسی حقوق اور اپنی تاریخ کے حوالہ سے بلوچستان کی خود مختاری کی باتیں اسمبلیوں میں زور وشور سے کیں۔ ایوب خان کی حکومت نے بلوچ قوم پرستوں کو انیس سو تریسٹھ میں ایک بار پھر گرفتار کرلیا۔ اس بار نواب مری گرفتار نہیں ہوئے البتہ نواب اکبر بگٹی، غوث بخش بزنجو اور عطاللہ مینگل کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے ساتھ ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں کو بھی قلی کیمپ میں ڈال دیا گیا۔ بلوچ قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ ان کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
بلوچ قوم پرستوں کی دوسری بڑی تحریک کو کچلنے کے لیے مری، بگٹی اور جھالاوان(خضدار) کے علاقوں میں فوجی کاروائی انیس سو انہتر تک جاری رہی۔ ہزاروں قبائلیوں کو قید کیا گیا۔اس دوسری شدت پسند بلوچ تحریک کا خاتمہ جنرل ایوب کی جگہ لینے والے جنرل یحییٰ خان نے بلوچ قوم پرستوں کو عام معافی دے کر کیا۔ سب بلوچ قوم پرستوں کو جیلوں سے نکال دیا گیا اور سرداروں کی ضبط کی گئی جاگیریں انہیں واپس کردی گئیں۔
اس پس منظر میں انیس سو ستر کے عام انتخابات ہوئے جو ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرائے جانے والے پہلے انتخابات تھے۔ بلوچ اور پختون قوم پرستوں کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے پورے صوبے کی نشستیں بھاری اکثریت سے جیت لیں۔ مشرقی بنگال کے پاکستان سے الگ ہوجانے کے بعد پہلی بار بلوچ قوم پرست انیس سو بہتر میں بلوچستان میں اقتدار میں آئے اور عطااللہ مینگل نے وزارتِ اعلیٰ سنبھالی۔
صرف ایک سال بعد انیس سو تہتر میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مینگل کی حکومت کو برخواست کردیا۔ اس بار نواب اکبر بگٹی نے قوم پرستوں کے بجائے حکومت کا ساتھ دیا اور صوبہ کے گورنر مقرر کیے گئے۔ بھٹو دور میں بلوچ قوم پرست قائدین اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔ ان کے خلاف فوجی کاروائیاں کی گئیں جو انیس سو ستتر تک بھٹو حکومت کے خاتمہ اور مارشل لاء کے نفاذ تک جاری رہیں۔
جس طرح یحییٰ خان نے ایوب دور میں کیے گئے آپریشن کو بند کرکے بلوچ قوم پرستوں کو عام معافی دی تھی جنرل ضیاء الحق نے بھی ان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ نواب خیر بخش مری چھ ہزار ساتھیوں سمیت افغانستان نقل مکانی کرگئے اور قلات غزنی کے علاقہ میں مقیم ہوگئے اور کمیونسٹ حکمران نجیب اللہ کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد پاکستان واپس آگئے۔
کہا جاتا ہے کہ مری قبیلہ کی آبادکاری اور بحالی کے لیے حکومت نے فنڈز فراہم کیے۔ جنرل ضیاء الحق کا دور بلوچستان میں نسبتاً امن کا دور تھا جب قوم پرست رہنما ملک سے باہر چلے گئے یاآرام سے بیٹھ گئے۔ عطااللہ مینگل اس دوران لندن میں خود ساختہ جلاوطن رہے۔ تاہم بائیں بازو کے رہنما ء غوث بخش بزنجو تحریک بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) میں سرگرم تھے۔
انیس سو اٹھاسی کے بعد پہلے نواب اکبر بگٹی نے منتخب وزیراعلیٰ کے طور پر صوبہ میں حکومت بنائی جسے برخواست کردیا گیا۔ بعد میں عطاللہ مینگل کے بیٹے اختر مینگل نے حکومت بنائی تو اسے بھی برخواست کردیا گیا۔ جب بھی بلوچ قوم پرستوں نے وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے تحت پاکستانی سیاست کا حصہ بننا چاہا ، انیس سو ساٹھ سے انیس سو ستانوے تک، انہیں گرفتار کیا گیا اور ان کی صوبائی حکومتوں کو برخواست کیا گیا۔ قوم پرستوں کو شکوہ ہے کہ فوج کے انٹیلی جنس ادارے بلوچ سرداروں اور قوم پرستوں کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں اور ان کے خلاف چھوٹے سرداروں کو پیسہ دے کر انہیں بلوچوں کا رہنما بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ اسلام آباد کے خلاف لڑائی کی بنیاد بتائی جاتی ہے۔
بہتری کی امید: انیس سو چھیالیس تک کوئٹہ میں صرف ایک سکول تھا اور ایک کالج۔ آج اس شہر میں تین یونیورسٹیاں ہیں، ایک بلوچستان یونیورسٹی، ایک آئی ٹی یونیورسٹی اور اور اب ایک میڈیکل یونیورسٹی بن رہی ہے۔ پورے ریاستی بلوچستان میں صرف دو سکول تھے جبکہ اب پورے ریاستی بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں سکول ہیں اور تقریباً پچیس انٹر اور ڈگری کالجز ہیں۔
خضدار میں انجینئرنگ یونیورسٹی ہے، زرعی کالج موجود ہے اور بیلا میں زرعی یونیورسٹی بن رہی ہے۔ انیس سو ستر تک بلوچستان کا صوبائی بجٹ نہیں بنتا تھا بلکہ قلات ڈویژن کے نام سے اس کا بجٹ تیار کیا جاتا تھا۔ریاستی بلوچستان میں جو ترقی ہوئی وہ پاکستان بننے کے بعد ہوئی گو اس تیز رفتاری سے نہیں ہوئی جیسا ہونی چاہیے تھی۔
پاکستان بننے کے بعد بلوچستان کو اتنے کم فنڈز دیے گئے کہ ان کا بیشتر حصہ انتظامیہ اور پولیس پر خرچ ہوجاتا تھا اور ترقیاتی کاموں کے لیے بہت کم پیسے بچتے تھے۔ بلوچستان کا بہت بڑا ساحلی علاقہ ہے جہاں کسی بندرگاہ کو ترقی نہیں دی گئی اور اب یہاں گوادر کو ترقی دی جارہی ہے۔
بلوچستان میں جب ترقیاتی کام شروع ہوئے اور تعلیمی ادارے بننے لگے تو یہاں تو تعلیم یافتہ اور اہل سٹاف انہیں چلانے کے لیے موجود نہیں تھا اس لیے پاکستان کے دوسرے علاقوں سے ان اداروں کو چلانے کے لیے لوگ یہاں آئے۔ یہ بلوچستان کی مجبوری تھی۔
خوشحال بلوچستان: قدرتی وسائل سے مالامال جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی صوبائی حکومت کے دور میں بھی پرامن بلوچستان کی پالیسی متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کے بیرون ملک مقیم بلوچ راہنماؤں سے مذاکرات کئے اور انہیں واپس بلوچستان آنے اور پرامن سیاست میں حصہ لینے کے لئے قائل کرنے کی کو شش کی، جبکہ صوبے کی سطح پرریاست کی عملداری ی تسلیم کرنے والے بلوچ عسکر یت پسند کمانڈر وں کو عام معافی کے ساتھ پندرہ لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس پالیسی کے تحت تقر یباً ایک ہزار سے زائد کمانڈروں کو سر ینڈر کرایا گیا اور رقوم بھی دی گئیں، تاہم صوبے میں امن قائم کرنے کی کوشش آج بھی جاری ہے۔ یہ پروگرام وفاقی و صوبائی حکومت اور پاک فوج کے مکمل تعاون سے جاری ہے۔
پاکستانی فوج بلوچستان میں فلاحی منصوبوں پر کام کر رہی ہے: پاکستانی فوج ، رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور پس ماندہ صوبے میں لوگوں کی فلاح و بہبود اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے کئی منصوبوں پر کا م کررہی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک بیان کے مطابق بری فوج کے سر براہ کو بتایا گیا کہ علاقے کے لوگوں کیلئے لگائے گئے ۔
میڈیکل کیمپ میں ڈیڑھ لاکھ افراد کا طبی معائنہ کیا گیا اور ضلعی صحت مر کز میں مقامی انتظامیہ کی مدد سے لوگوں کو طبی سہولیات بھی فراہم کی گئیں۔ بلوچستان کے جنوبی اور مغر بی اضلاع میں سے ضلع آواران میں حالات خراب چلے آ رہے ہیں۔ یہ ضلع کالعدم بلوچستان لبر یشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر کا آبائی علاقہ ہے اور اس تنظیم کے کارکن تر بت آواران اور گوادر میں کافی سر گرم عمل ہیں۔
پاکستان آرمی بلوچ بھائیوں کو امن دلانے میں کوشاں ہے۔ جس کی واضح مثال 17 مئی 2018 کو پیش آنے والا اندوہناک واقعہ ہے۔ بلوچستان کے علاقے کلی الماس میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران دہشت گردوں سے مقابلے ہوا۔ جس میں ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل سہیل عابد شہید ہوگئے کیونکہ انہوں نے ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث بادینی کوان کے انجام تک پہنچا دیا تھا۔
بلوچستان میں کس کس کی حکومت بنی اور کون کون وزیراعلیٰ رہا ؟؟
بلوچستان کو صوبے کا درجہ یکم جولائی 1970کوملا جس کے بعد صوبے میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو اسمبلی کے پہلے قائد ایوان سردار عطا اللہ مینگل تھے۔ وہ 2مئی 1972سے13فروری 1973تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔
ان کے بعد بلوچستان کے دوسرے منتخب وزیراعلیٰ تھے جام میر غلام قادر،جن کی وزارت اعلیٰ کا دورانیہ 27اپریل 1973سے31دسمبر1975تک رہا۔صوبے کے تیسرے وزیراعلیٰ کا اعزاز حاصل ہوا۔نواب محمد خان باروزئی کوان کا دور اقتدار تقریباً سات ماہ یعنی 7دسمبر 1976سے4جولائی 1977تک رہا۔جس کے بعد انتخابات کے نتیجہ میں جام میر غلام قادر ایک بار پھر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ۔
اس بار وہ تین سال سے زائد عرصہ یعنی 6اپریل 1985سے29مئی 1988تک اس منصب پر قائم رہے۔ صوبے میں چوتھے عام انتخابات 1988کو ہوئے جس کے بعد پہلے میر ظفراللہ جمالی اور بعد میں نواب اکبر خان بگٹی کی حکومت بنی۔ میر ظفراللہ جمالی کا دور اقتدار 2دسمبر 1988سے24دسمبر 1988تک کے عرصے پر محیط رہا،اپوزیشن کی مخالفت پر اسمبلی توڑی گئی جس کے بعد ہائی کورٹ کے حکم سے اسمبلی بحال ہوئی تو وزیراعلیٰ منتخب ہوئے نواب اکبر خان بگٹی،جن کا دور اقتدار بعد میں 5فروری 1989سے7اگست 1990تک جاری رہا۔
پانچویں اسمبلی اکتوبر 1990میں وجود میں آئی اورمیر تاج محمد جمالی قائد ایوان منتخب ہوئے۔ وہ مسند اقتدار پر17نومبر 1990سے22مئی 1993تک،رہے،بعد میں صدر غلام اسحاق خان کی طرف سے قومی اسمبلی توڑی گئی تو بلوچستان اسمبلی بھی تحلیل ہوگئی،مگر بعد میں اسمبلیوں کی بحالی کے بعد بلوچستان میں حکومت تشکیل پائی نواب ذوالفقار علی مگسی کی،جو 30مئی 1993سے19جولائی 1993تک قائم رہی۔
بلوچستان میں اکتوبر 1993کو ہونے والے چھٹے عام انتخابات میں دوبارہ نواب ذوالفقار علی مگسی کی حکومت بن گئی،اس بار وہ 20اکتوبر 1993سے ومبر 1996تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان رہے۔فروری 1997 میں ساتویں عام انتخابات کے بعد سردار اختر مینگل کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔
ان کا دور اقتدار 22فروری 1997سے13اگست 1998تک تھا،اختلافات کے بعد پھر وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا،میر جان محمد جمالی نے،ان کی حکومت 13اگست 1998سے12اکتوبر 1999تک جاری رہا۔ اکتوبر 2002 کوآٹھویں انتخابات ہوئے ،اس بار حکومت کے سربراہ تھے، جام محمد یوسف وہ یکم دسمبر 2002سے18نومبر 2007تک اس منصب پر فائز رہے۔
صوبے میں نویں انتخابات فروری 2008میں ہوئے تھے جس کے نتیجے میں 9اپریل 2008سے18مارچ 2013تک نواب محمد اسلم رئیسانی کی حکومت رہی۔بعد ازاں وفاقی حکومت کی جانب سے صو بے میں گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا۔ جس کے تحت نواب ذولفقار مگسی کو ذمے داری سونپی گئی۔
2013 میں صوبہ بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ بنے۔ ان کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے۔ شورش ،بدامنی ،علیحدگی پسند تنظیموں کی کاروائیوں میں اضافے،فراقہ واریت اور سمگلنگ سے متاثرہ صوبہ میں عبدالمالک بلوچ نے سیکورٹی فورسز کی تعاون سے حالات سنبھالنے کی قابل ذکر کوششیں کیں جبکہ ناراض بلوچ قائدین کو مفاہمت کی راہ سے مذاکرات کی میز پر لانے کی سنجیدہ کوششیں بھی کیں۔
عبدالمالک بلوچ 7 جون 2013 سے 23 دسمبر 2015 تک صوبے کے وزیراعلیٰ رہے۔واضح رہے کہ ڈاکٹر مالک بلوچ سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد مری میں طے پانے والے ایک معاہدے کے مطابق ڈھائی سال کے لیے نیشنل پارٹی سے وزیرِاعلیٰ بنے تھے جس کے بعد آئندہ ڈھائی سال کے لیے مسلم لیگ نواز بلوچستان کے نواب ثنا اللہ زہری کو وزیر اعلیٰ بننا تھا۔
یہ معاہدہ مری میں تین جماعتوں مسلم لیگ (نواز)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے درمیان ہوا طے تھا اور اسی معاہدے کے تحت گورنر کا عہدہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دیا گیا تھا۔بعدازاں بلوچستان اسمبلی تحلیل ہوگئی اور مری معاہدے کے مطابق نئے وزیراعلیٰ کا انتخاب عمل میں آیا۔دسمبر 2015 میں نواب ثنا اللہ زہری نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور اس عہدے پر نو جنوری 2018 تک فائز رہے۔
رواں سال جنوری میں سابق وزیراعلی بلوچستان کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ جس کے تحت ان کہ فوری مستعفی ہونا پڑا۔نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی شکل میں اچانک یہ بحران کیوں پیدا ہوا۔ حزب اختلاف کی بجائے خود ان کی اپنی پارٹی ن لیگ اور ق لیگ کے اراکین اس میں کیوں پیش پیش رہے۔ اس کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔
ثنا اللہ زہری کے مخالفین اس کا ذمہ دار خود ان کو ٹھہراتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں سب سے زیادہ اہمیت مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دی۔کابینہ سے مستعفی ہونے والے ن لیگ کے رکن پرنس احمد علی کہتے ہیں کہ پشتونخوا میپ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل حل ہوتے گئے جبکہ ن لیگ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل بڑھتے گئے۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے علاوہ بعض دیگر اہم محکمے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پاس تھے۔منحرف اراکین کے مطابق حکومت سے سیاسی حوالے سے سب سے زیادہ فوائد پشتونخوا میپ نے اٹھائے اور ترقیاتی منصوبوں کا ایک بڑا حصہ اپنی پارٹی کے اراکین کے حلقوں میں منتقل کیا۔
ان کے بعد قدوس بزنجو نے 13 جنوری 2018 کو صوبے کے تیسرے وزیراعلیٰ کی صورت میں حلف اٹھایا۔انتخاب کے وقت صوبائی اسمبلی بلوچستان نے انہیں 544 وٹ دیکر منتخب کیا۔ یاد رہے پاکستان کی تاریخ میں کسی کامیاب امیدوارکو ملنے والے یہ سب سے کم ووٹ ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں رواں سال 25 جولائی کو عام انتخابات ہونے ہیں۔ یہ انتخابات مردم شماری 2017 کے حوالے سے نئی حلقہ بندیوں کے تحت کیے جائیں گے۔
صوبہ بلوچستان کی حلقہ بندی کچھ یوں ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل (عام انتخابات 2013 میں) صوبہ بلوچستان کے قومی اسمبلی کے حلقے 14 تھے جبکہ اب یہ 16کردیئے گئے ہیں۔ صوبائی نشستیں 51 ہیں۔
ماہرین کے مطابق ملک بھر میں سب سے کم ووٹرز بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں 39 ہزار 787 ہیں، بلوچستان میں سب سے زیادہ ووٹرز کوئٹہ میں 6 لاکھ 83 ہزار 957 ہیں۔ علاوہ ازاں ماہرین کی مزید رائے کے مطابق صوبہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے تحت اہم مقابلہ اس ترتیب کے تحت ہونگے۔
این اے 257،ضلع قلعہ سیف اللہ : مولانا عبدالوسیع (ایم، ایم، اے)، اللہ نور (پی، کے،ایم،پی) اور مولوی عبدالرؤف کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔
این اے 258،لولارائی: سردار یعقوب خان ناصر (پی،ایم،ایل،این)، سرداراسرارترین (بلوچستان عوامی پارٹی)، کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔
این اے 259 ڈیرہ بگٹی: میر دوستین خان ڈومکی (بلوچستان عوامی پارٹی) اور نواب زادہ شاہزین بگٹی (جمہوری وطن پارٹی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔
این اے 260،نصیرآباد: سردار خان رند (تحریک انصاف) اور خالد خان مگسی ‘(بلوچستان عوامی پارٹی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔
این اے 262،محمد عیسیٰ روشن (پختونخواہ ملی عوامی پارٹی)، مولوی کمال الدین (ایم،ایم،اے) اور گوہر اعجاز کاکڑ (بلوچستان عوامی پارٹی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔
این اے 263،قلعہ عبداللہ: محمود خان اچکزئی ( پختونخواہ ملی عوامی پارٹی)، مولانا صلاح الدین ایوبی (ایم،ایم،اے) اور اصغر خان اچکزئی (اے،این،پی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔
این اے ،269خضدار : میں دو سابق وزرائے اعلیٰ کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔ سردار اختر مینگل (بلوچستان نیشنل پارٹی) اور نواب ثنا اللہ زہری (مسلم لیگ نون) کے امیدوار ہونگے۔
این اے 272لسبیلہ، گودار میں دو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔ جام کمال خان (سربراہ بلوچستان عوامی پارٹی) اور سردار اختر مینگل ( سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی) کے مابین اہم معرکہ ہوگا۔ دوسری جانب محمد اسلم بھوتانی آزاد امیدوار ہیں۔
جبکہ صوبائی حلقوں میں پی، بی 10 ڈیرہ بگٹی میں سرفراز بگٹی (بلوچستان عوامی پارٹی) کا مقابلہ نوابزاداہ گہرام بگٹی (جمہوری وطن پارٹی) کے درمیان ہوگا۔پی،بی 23 قلعہ عبداللہ میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان اہم مقابلہ ہونے والا ہے۔
واضح رہے ڈاکٹر حمید خان اچکزئی جن کا تعلق پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہے جبکہ وہ محمود خان اچکزئی کے سگے بھائی بھی ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی سے کپٹین (ر) عبدالخالق اچکزئی ہیں۔پی،بی 35 مستونگ سے سابق وزیراعلی اسلم رئیسانی آزاد حیثیت سے اپنے سگے بھائی سراج خان رئیسانی سے مدمقابل ہیں جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہیں۔
این اے 258 سے سردار یعقوب ناصر جن کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ نون سے ہے۔ ان کے بھانجے سردار یحییٰ ناصر پی،بی 5 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے بھتیجے پی،بی 5 سردار در محمد ناصر بلوچستان عوامی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
صوبہ بلوچستان پر ایک نظر
وقتِ اشاعت : July 10 – 2018