|

وقتِ اشاعت :   July 13 – 2018

کوئٹہ+ مستونگ: کوئٹہ سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں انتخابی جلسے میں قبائلی رہنماء اور انتخابی امیدووار نوابزادہ سراج رئیسانی کے جلسے میں بم دھماکا ہوا۔نگراں صوبائی وزیر داخلہ آغا عمر احمد بنگلزئی نے تصدیق کی ہے کہ حملے میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت ایک سو اٹھائیس افرادشہید جبکہ ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوگئے جو کوئٹہ کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکا خودکش تھا جس میں دس کلو گرام کے لگ بھگ اعلیٰ معیار کا بارودی مواد استعمال ہوا۔نوابزادہ سراج رئیسانی کا تعلق نئی بننے والی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)سے تھا اور وہ اس کے پلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ آبائی ضلع مستونگ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پی بی 35 پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔حکام کے مطابق جمعہ کو نوابزادہ سراج رئیسانی اپنے انتخابی مہم کے سلسلے میں مستونگ سے تقریباًبیس کلو میٹر دور کوئٹہ تفتان شاہراہ پر درینگڑھ کے مقام پر ایک انتخابی جلسے میں شریک تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق انتخابی جلسے کا انعقاد گیٹ نہ رکھنے والے چار دیواری میں ٹینٹ لگا کر کیا گیا تھا۔اس موقع پر دو سے تین ہزار افراد موجود تھے۔عینی شاہدین کے مطابق نوابزادہ سراج رئیسانی کو جیسے ہی خطاب کیلئے ڈائس پر بلایا گیا تو زوردار دھماکا ہوگیااور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ جلسہ گاہ لاشوں سے بھر گیا۔ ہر طرف زخموں سے چور افراد چیخ و پکار کرتے دکھائی دیئے۔دھماکے میں بچ جانے والے افراد نے فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔

نوابزادہ سراج رئیسانی کو فوری طور پر شدید زخمی حالت میں کوئٹہ روانہ کیا گیا۔ انہیں سی ایم ایچ ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ دھماکے میں ان کے کئی قریبی ساتھی اور محافظ بھی لقمہ اجل بن گئے۔

ہسپتال ذرائع کے مطابق نوابزادہ سراج رئیسانی کو چہرے اور جسم کے بالائی حصوں میں شدید زخم لگے تھے۔دھماکے کی اطلاع ملتے ہی لیویز، پولیس اور ایف سی کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار ، ضلعی انتظامیہ کے افسران جائے وقوعہ پر پہنچے۔

کوئٹہ سے ایدھی، چھیپا اور دیگر فلاحی تنظیموں کے رضا کار ایمبولنس لیکر پہنچے۔ لاشوں اور زخمیوں کو ایمبولنسز اور نجی گاڑیوں میں مستونگ کے سول ہسپتال، نواب غوث بخش میموریل ہسپتال ،کوئٹہ کے شیخ زید ہسپتال ،بولان میڈیکل ہسپتال ،سول ہسپتال اور سی ایم ایچ ہسپتال پہنچایا گیا۔ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز سمیت دیگر طبی عملے ، ادویات ، جگہ اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

دھماکے کی اطلاع ملتے ہی کوئٹہ اور مستونگ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی اور تمام عملے کو فوری طور پر بلایا گیا۔ مستونگ کے ہسپتالوں میں زیر علاج بیشتر زخمیوں کو بھی کوئٹہ منتقل کیا گیا۔کئی زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے اور مستونگ سے کوئٹہ تک پچاس کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرتے ہوئے راستے میں دم توڑ گئے۔ہسپتالوں میں انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھے گئے۔ کئی خاندان ایسے بھی تھے جن کے ایک سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ 

کوئٹہ کے سول ہسپتال کے مردہ خانے میں لاشوں کیلئے جگہ کم پڑ گئی جس کی وجہ سے زمین پر بھی لاشیں پڑی رہیں۔ کئی لاشیں شعبہ حادثات کے وارڈز اور باہر لگاگئے بستروں پر پڑی رہیں۔ ڈپٹی کمشنر مستونگ قائم خان لاشاری کے مطابق مستونگ کے نواب غوث بخش میموریل ہسپتال اور سول ہسپتال میں 37 افراد کی لاشیں لائی گئیں جو ضروری کارروائی کے بعد ورثاء کے حوالے کردی گئیں۔

سول ہسپتال کوئٹہ کے پولیس سرجن ڈاکٹر علی مردان کے مطابق سول ہسپتال کوئٹہ میں دو بچوں سمیت 73 افراد کی لاشیں لائی گئیں جبکہ ستر سے زائد افراد کو زخمی حالت میں لایاگیا۔انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں بھی بیس سے زائد کی حالت تشویشناک ہے جنہیں ٹراما سینٹر میں طبی امداد دی جارہی ہے۔بولان میڈیکل ہسپتال کے پولیس سرجن کے مطابق ہسپتال میں بارہ افراد کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں جن میں سے صرف تین کی شناخت ہوئی۔ ہسپتال میں اکیس افراد زیر علاج ہیں۔ 

سی ایم ایچ ہسپتال ذرائع کیمطابق ہسپتال میں اکیس افراد زیر علاج ہیں۔ دھماکے کے بعد جائے وقوعہ کو سیکورٹی اداروں نے قبضے میں لے لیا اور موقع سے شواہد اکٹھے کرلئے۔ کوئٹہ سے اسپیشل برانچ اور محکمہ شہری دفاع کی بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیمیں ، سی ٹی ڈی اور دیگر سیکورٹی اداروں کی تفتیشی ٹیمیں موقع پر پہنچیں اور جائے وقوعہ سے شواہدا کٹھے کئے۔ محکمہ شہری دفاع کی رپورٹ کے مطابق دھماکا خودکش تھا جو پیدل خودکش حملہ آور نے کیا۔

دھماکا اسٹیج کے انتہائی قریب ہوا۔ رپورٹ کے مطابق دھماکے میں آٹھ سے دس کلو گرام اعلیٰ معیار کا بارودی مواد کے علاوہ بال بیرنگ کا بھی استعمال کیا گیا تھا۔پنڈال چھوٹا اور لوگوں کا مجمع زیادہ تھا جس کی وجہ سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایک آفیسر کے مطابق اسی معیار کا دھماکا خیز مواد سول ہسپتال کوئٹہ کے خودکش حملے میں بھی استعمال کیا گیا تھا جس میں ستر سے زائد وکلاء اور شہری شہید ہوئے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق پنڈال میں داخلے کے وقت چیکنگ کا کوئی مؤثر انتظام نہیں تھا اور اسکینر بھی نہیں لگایا گیا تھا۔ مستونگ جیسے انتہائی حساس ضلع میں دہشتگردی کے خطرات اور کالعدم تنظیم کے نشانے پر ہونے کے باوجود نوابزادہ سراج رئیسانی کو سیکورٹی فراہم نہ کرنے پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔