|

وقتِ اشاعت :   July 14 – 2018

حب : نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ہم بلوچستان کو ایک دن میں جنت میں تبدیل کرنے کے دعوے نہیں کررہے ہیں بلکہ ہم بلوچستان کو اس دوزخ کی آگ سے نکالنے کی جدوجہد کررہے جو 70 سالوں سے دہکتے آگ میں جل رہا ہے۔

بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے والے اس بات سے بے خبر ہیکہ 25لاکھ بچے آج بھی سکولوں سے باہر ہے جن کو پارٹیاں بدلنے کی عادت ہے وہ عوام کی کیا خدمت کریں گے ۔

ان خیالات کا ظہارانہوں نے بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطا ب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ عوام نے آج کے جلسہ میں ہزاروں کی تعداد شر کت کرکے 25 جولائی کا فیصلہ آج سنا دیا ۔

انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ میں گذشتہ روز لسبیلہ کے پہاڑی علاقے کنراج گیا جب وندر سے نکلا تو بڑا خوبصورت اور چھوڑا روڈ دیکھ کر میں سمجھا کہ وہاں بہت کام ہوا ہوگا اسکول ہسپتال پانی کی سہولتیں روزگار و دیگر سہولیات فراہم کی ہونگی مگر جب دودر کمپنی تک پہنچے تو یہ روڈ ختم ہوگیا آگے وہی پتھر والے زمانے کا حال تھا یقین کریں ایک مجمع تھا میں نہیں کہتا کہ لاکھوں کا مجمع تھا لیکن جو بھی تھے میں پوچھا کہ اس دودر کمپنی سے کتنے لوگوں کو روزگار دیا گیا ہے کوئی ہاتھ اوپر کرے مگر ایک نے بھی ہاتھ اوپر نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کے تعلیمی حالت یہ ہے کہ 31فیصد اسکولوں میں بجلی نہیں 82فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں 85فیصد اسکولوں میں باتھ روم کی سہولت جبکہ 64فیصد اسکولوں کے چاردیواری نہیں ہیں وفاق اور صوبے سے تعلیم کیلئے اربوں روپے ملتے ہیں کہاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ہر ایم پی ایز کو سالانہ 35کروڑ روپے ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں اگر ایک ایم پی اے اپنے اپنے حلقے میں صرف ایک کروڑ ایک گاؤں میں لگائے تو سالانہ 500گاؤں میں تعلیم و صحت کی سہولیات مہیسر ہونگے لیکن شائد آپ لوگوں کے منتخب نمائندوں کو بیماری نہیں لگتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ بلوچستان کو ایک رات میں جنت میں تبدیل کرینگے لیکن اتنا ضرور کہونگا کہ اس جدوجہد سے بلوچستان کو اس دوزخ سے نکالنے کیلے ہم اگر ایندھن کے طور پر خون کی ضرورت پڑی تو انشاء اللہ دینے سے گریز نہیں کرینگے انشاء اللہ بلوچستان کو اس دوزخ سے نکال کررہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کے نیپ کی حکومت کو آج تک کیوں یاد کیا جاتا ہے اسکے بعد کئی حکومتیں آئیں مگر کوئی یاد نہیں کرتا کیونکہ وہ نیپ کی حکومت تھی جب سگریٹ کے پیکیٹ پر لکھ کر دیا جاتا تو اس شخص کو ملازمت ملتی تھی آج تو وزیر صاحب خود سیکریٹری کے آفس جاتے ہیں پھر بھی نوکری نہیں ملتی کیونکہ سیکریٹری صاحب جانتے ہیں کہ بغیر مٹھائی کے نوکری نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے لسبیلہ کے عوام کی عظیم تر مفاد کے خاطر ہم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کیا تو میں قومی اسمبلی کی نشست NA272 پر کھڑا ہوں میرا انتخابی نشان کلہاڑا ہے اور ہمارا اتحادی پی پی کے شریف پالاری ہیں ۔

انکا انتخابی نشان تیر ہے تو عوام اگر ان حاکم کے نام پر ظالموں سے نجات چاہتے ہیں تو کلہاڑے اور تیر پر 25جولائی کو مہر لگائیں کیونکہ تیر سے شکار کرو اور کلہاڑے سے ذبح کرو، جلسہ عام سے پی پی کے امیدوار صوبائی اسمبلی کے حلقہ PB49 شریف پالاری، بی این پی کے سعید مینگل، بشیر مینگل، بی ایس او کے نذیر بلوچ، پی پی کے یوسف راہی و دیگر نے خطاب کیا، بی این پی کے سربراہ سردار اخترجان کو محمد انور میروانی نے انکا انتخابی نشان کلہاڑا پیش کیا جبکہ دیگر نے روایتی اجرکیں پہنائیں۔