|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2018

تربت : عام انتخابات کے لئے شروع کی گئی تمام سرگرمیاں انتخابی مہم پر حملوں کے بعدمتاثرہوگئی ہیں،اے این پی کے رہنماومقتول بشیراحمدبلورکے بھائی غلام احمدبلورکے بیان کے بعدصورتحال مزیدپیچیدہ ہوگئی ہے۔

بلوچستان کے دیگرعلاقوں کی طرح تربت میں بھی بلوچستان نیشنل پارٹی نے اپنی انتخابی سرگرمیاں محدوداورجلسہ عام منسوخ کردی ہیں،لیکن عوام کے جوش وخروش میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے، تربت کی قومی اسمبلی کی نشست پرمختلف اخبارات اورسوشل میڈیااکاؤنٹس میں تجزیہ کارقومی اسمبلی کی نشست NA 271پراپنے مشاہدے اورپیشینگوئیاں بیان کررہے ہیں۔

لیکن اخباربینوں اورسوشل میڈیاوزٹرزکی ایک بڑی تعدادان تجزیات سے متفق نہیں اوران کاکہناہے کہ ان میں زیادہ ترتجزیہ کارملک میں موجودنہیںیاکراچی اوراسلام آبادمیں رہائش پزیرہیں لہٰذاانہیں اپنے جانبدارتجزیوں سے عوامی رائے کوپراگندہ کرنے سے گریزکرناچاہیے۔

اخباربین اورمیڈیاوزٹرزکے مطابق حالیہ انتخابات اس لحاظ سے سابقہ انتخابات سے مختلف ہیں کہ آج انٹرنیٹ اوراینڈروئڈوسمارٹ فون استعمال کرنے والے لوگوں کی تعدادمیں اضافہ ہواہے اوران میں اب سیاسی شعوراورتجزیاتی صلاحیت ’’پیشہ وروں‘‘سے زیادہ ہے کیونکہ وہ خودمعاشرے کا حصہ اوراکثریت میں ہیں اورتمام حقائق کے چشم دیدمشاہدہ کارہیں۔

عوامی رائے کے مطابق 1988سے لیکر2018منظوراحمدگچکی ،آنجہانی یٰسین بلوچ،شکیل احمد، زبیدہ جلال ، یعقوب بزنجو اورعیسیٰ نوری قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے انہوں نے بلوچستان کے حقوق کوپس پشت ڈال کراپنے حلقے اورووٹرزکے لئے بھی ایک پائی کاترقیاتی کام نہیں کیا،عوام دوستی کاتقاضاتھاکہ اپنے حلقے کے محض چندسولوگوں کی فلاح وبہبودکے لئے کوئی اقدام کیاجاتا، تربت کومکران کاتعلیمی کیپیٹل یادارالخلافہ کہاجاتاہے ۔

جان محمددشتی بی این پی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی نشست پرالیکشن لڑرہے ہیں انہیں بلوچ دانش کانمائندہ اورعلامت کہاجاتاہے ، اخباربین اورسوشل میڈیاوزٹرزکی جانب سے انہیں اس نشست پر’’سب سے زیاہ پسندیدہ ‘‘امیدوارکہاجارہاہے ،جودشتی کی ہردلعزیزی اورعلمی ،ادبی اورسوچ وفکررکھنے والے بلوچوں میں ان کی مقبولیت کامنہ بولتاثبوت ہے ۔

دشتی کے مقابلے میں سیداحسان شاہ ، زبیدہ جلال ، ابوالحسن میدان میں ہیں ان امیدواروں کودشتی کوشکست دینے کے لئے طویل علمی خدمات ، اثرورسوخ ، بلوچ علمی وفکری حلقوں میں ٹرانس پیرنٹ شخصیت درکارہوگی ۔