|

وقتِ اشاعت :   July 19 – 2018

تربت : اسمبلیوں میں موثر آواز اٹھانے کے لیے مناسب نمائندوں کا انتخاب نا گزیر ہے، خطے میں بلوچ کی بقا کا سوا ل اب سر کشی کرنے کا لگا ہے اور ایسی صورتحال ہم مزید حماقت کے متحمل نہیں ہوسکتے ، بلوچستان جو اس وقت نا موافق صورتحال سے دو چار ہے اور ایسی صورتحال کو اس وقت تک قابو کرنا ناممکن ہے ۔

جب تک ریاست اپنی ریاستی ذمہداریاں بلوچ اور بلوچستان کے حوالے ایمانداری کے ساتھ نہ نبھائے ، ریاست کے علمبردار اگر ایمانداری کا مظاہریں کریں تو شاید ناراض بلوچوں سے بات چیت کی راہ نکل آئے ، آئندہ انتخابات میں عوام ان دجالوں کے جھانسے میں نہ آئیں جو اپنے کاندھوں میں سولر ، ٹانسفارمر ز ،روپے اور دیگر سہولیات اٹھائے سودا گروں گھر گھر گھوم رہے ہیں ۔

کیونکہ یہ سیاسی رشوت بلوچ کے درد کا مداوا نہیں ہو سکتے ہیں اور یہی سیاسی رشوت آپ کو کمزور اور بزدل بنا دیتے ہیں اور آپ کے ووٹ سے منتخب نامنہاد نمائندے آپ کے مستقبل کا سودا لگائیں گے اور آپ بے بسی کے ساتھ صرف دیکھتے رہ جاؤگے ان خیالات کا اظہار بی این پی کے مرکزی رہنما اور حلقہ این اے 271کے امیدوار جان محمد دشتی نے گزشتہ روز نواحی علاقہ ملک آباد تربت کے دورے کے دوران ایک عوامی نشست میں علاقے کے نوجوان اور دیگر اکابرین سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر بی این پی کے ضلعی رہنما باہڑ دشتی بھی ان کے ہمراہ تھے ، نشست کے دوران انہوں نے نوجوانوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں 12لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں اور بے روزگاروں کی یہ تعداد ہر چڑھتے سورج کے ساتھ بڑھ رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے گھمبیر صورتحال میں سے ایک تشویشناک صورتحال نوجوانوں کی بے روزگاری ہے جس کے متعلق آج تک بلوچوں کے منتخب کٹھ پتلی نمائندے کوئی بھی کردار ادا نہیں کر چکے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام نے اگر ہمارا انتخاب کیا تو ہم سب سے پہلا کام یہی کریں گے کے ایوانوں میں ان کے انہی مسائل کو بھی شدو مد سے اٹھائیں گے ۔

ایک سوال کے جواب میں جان محمد دشتی نے کہا کہ انتخابات میں جانے کا بنیادی مقصد علاقے کی سیاست کو پراگندگی سے بچانا ہے اور جاہل اور گنوار لوگوں کے کے لیے کوئی بھی سیاسی خلا نہیں چھوڑنا ہے انہوں نے کہا کہ سابقہ ادوار میں بلوچوں نے ایسی ہی غطی کو دھرایا اورنیم حکیم اور نیم ملاؤں کے لیے سیاسی خلا چھوڑی اور آج نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے ہے اور ہر بلوچ کو انجام گلستان کی فکر ہونے لگی ہے ۔

جان محمد دشتی نے مزید کہا کہ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آج پوری قوم کو ٹرانسفارمر ، سولرز اور دیگر مراعات میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے اور سیاسی شبیدے باز ایک کاندھے پر سولر ،دوسرے کاندھے پر ٹرانسفارمرز اور ہاتھ نوٹ اٹھائے ووٹ کے سودا گروں کی طرح گھر گھر گھوم رہے ہیں اور ان سہولیات کے چمک سے عوام کو گمراہ اور سیاسی بے گانگی کا شکار بنا رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک اہم مسئلہ بلوچستان میں امن و امان کا ہے اور ایسے مسائل کے حل کے لیے ریاست کا لچک دکھانا اور اپنا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے ریاستی علمبردار اگر اپنی ریاستی ذمہداریوں کو بلوچ کے حوالے سے ایمانداری سے نبھائیں تو شاید ناراض بلوچوں سے بات کے لیے پیش رفت ممکن ہو ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچوں کو بد ترین مایوسی نے اپنے حصار میں لیا ہے جہاں وہ بد ترین مسائل سے دوچار ہیں اور اس امیر ترین خطے کے مزدور کو بھی ہفتے میں صرف 2دن مزدوری ملتی ہے اور پانچ دن کے فاقے بلوچوں کی سیاسی و انتخابی غلطیوں کی وجہ سے ایسے لوگ منتخب ہوگئے جنہوں نے خطے کے عوام کو بد ترین نقصان سے دوچار کر دیا ہے جسکا کا زمہدار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں ۔

کیونکہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سیاسی لٹیروں کو اپنے سر مسلط کر دیا ہے جو آج تک ہم پر مسلط ہیں اور اب ہماری سیاسی بصیرت اتنی ماند پڑ گئی ہے کہ ہمیں سیاسی لٹیرے بھی ہردلعزیز لگنے لگے ہیں ، جان محمد دشتی نے مزید کہا کہ بلوچ کے لیے اب وقت اورحالات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ بار بار غلطیاں نہ دھرائیں اور اپنے حقیقی رہنماؤں کو پہچان لیں۔۔