|

وقتِ اشاعت :   July 20 – 2018

دوہزار آٹھ کے انتخابات کی صورت میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق سمیت سندھ اور بلوچستان میں برسراقتدار آئی۔ پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے گیم میکر کے طور پر وزیراعظم کی بجائے صدر مملکت بننے کو ترجیح دی۔ 

سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی میں المناک موت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے والے آصف علی زرداری نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد بلوچستان کے عوام سے ان کی محرومیوں اور ماضی میں کی جانے والی زیادتیوں پر معافی مانگی۔ صدر مملکت کی معافی اور صوبے میں پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے توقع ہوچلی تھی کہ شاید اس بار حالت بہتر ہوں گے، اسپتال، اسکول قائم ہوں گے، سڑکوں کی تعمیر ہوگی ، پینے کے لیے پانی دستیاب ہوگا، روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔

جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ مگر یہ ہو نہ سکا اور جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ مزید تیز ہوگیا اور یہ سلسلہ کم و بیش ہنوز جاری ہے۔ بلوچستان اور اس کے عوام کے ساتھ زیادتیوں اور پھر نام نہاد معافیوں کی ایک طویل داستان ہے اور یہ سلسلہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ 

بزرگ سیاسی و قبائلی رہنما نوا ب نوروز خان اور اس کے ساتھیوں کو قرآن کا واسطہ دے کر اور معافی دینے کا وعدہ کرکے انہیں پابند سلاسل اور بیٹوں اور بھتیجوں سمیت ساتھیوں کو پھانسی دینا اب زیادتیوں اور نام نہاد معافی کے اوائل کے قصوں میں شامل ہے۔ بھٹو دور حکومت میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کی برطرفی اور پارٹی کے رہنماؤں کو پابند سلاسل رکھنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ضیاء دور حکومت میں بلوچستان کے رہنماؤں کی رہائی اور جلاوطن رہنماؤں کی عام معافی بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اب جبکہ 2018 کے انتخابات سر پر ہیں اور تاثر عام ہے کہ اقتدار کا ہما ماضی کی سربراقتدار جماعتوں کی بجائے محکمہ زراعت کی آشیر باد سے اب تیسری قوت کے سر پر بیٹھنے کے لیے پر تول رہی ہے تو کیوں نہ بلوچستان کے عوام کے لیے ایک اور معافی کا انتظام کیا جائے اور بلوچستان کی محرومیوں کو مزید کم کیا جائے۔ 

شاید اب کے بار معافی کا اعلان کرنے والا کوئی اور نہیں بلوچستان کا اپنا ہی فرزند ہو۔ صادق سنجرانی جیسا شخص مبینہ طور پر عمران خان اور آصف زرداری کی آشیر باد سے اگر چئیرمین سینیٹ بن سکتا ہے تو بلوچستان کا کوئی فرزند الیکشن میں کامیاب ہو کر اور وزیر اعظم بن کر یہ کام کیوں نہیں کرسکتا۔ اور ویسے بھی ن لیگ یا پی پی پی اپنی باری لے چکے۔ 

جیپ کے نشان والے امیدوار بھی اکثر حکومتوں میں نظر آتے رہے اور گماں غالب ہے کہ امپائر کی انگلی کے اشارے پر پی ٹی آئی والے بھی اپنے راستے کا انتخاب با آسانی کرلیں گے اور بلوچستان والوں سے معافی مانگنے کے لیے بلوچستان ہی کے کسی بلوچ کے انتخاب کی حامی بھر لیں گے۔