|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2018

دنیا میں زندگی کے تمام شعبہ جات میں چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنزم ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی سرکاری عملدار یا ملازم یا نجی کمپنیز کے کارندے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال ، بدعنوانی یا پھر اقربا پروری جیسے معاملات میں شاذو نادر ہی ملوث پائے جاتے ہیں ۔

لیکن ہمارے پیارے پاکستان میں دیگر اُمور کی طرح چیک اینڈ بیلنس کا بھی کوئی کھاتا یا نام و نشان نہیں ۔ ایسے میں ملک میں کسی کا بھی کیا احتساب ہوگا یا پھر ملکی معاملات میں کیا شفافیت نظر آئے گی۔

احتساب کا تقاضہ تو یہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام اُمور پر کوئی ایسا بااعتماد ادارہ نگران مقرر ہو ،جس ادارے میں ایماندار و فرض شناس اور اچھی شہرت کے حامل لوگ موجود ہوں اور پھر آہستہ آہستہ وہ ادارہ نہ صرف خود اپنی ساکھ قائم کرسکے بلکہ دیگر اداروں کو بھی شفافیت کی حامل اچھی ساکھ بنانے میں معاونت فراہم کرے ۔

کیونکہ غیرجانبدارانہ احتساب کی نہ صرف نیت ہونی ضروری ہے بلکہ عملی طور پر غیرجانبداری نظر بھی آنی چاہیے ، لیکن مملکت خداداد میں احتساب کی تاریخ پرجانبداری کی مُہریں ثبت ہیں ۔

سب سے پہلے حال ہی میں نااہلی کے ساتھ 10سال قید کی سزا پانے والے معذول وزیر اعظم نواز شریف نے 1990کے عشرے میں پس پردہ رہنے والی قوتوں کے اشارے پر احتساب کے نام پر مخالفین کو کچلنے کے لیے احتساب کمیشن کی اس طرح تشکیل کی کہ اس کمیشن نے بے نظیر بھٹو ، آصف علی زرداری اور سابقہ وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ سمیت صرف پی پی پی کی قیادت کے خلاف زمین تنگ کرکے رکھ دی تھی ۔

اس وقت کے احتساب کمیشن کے چیئرمین سیف الرحمن کے جانبدارانہ کردار کی جھلک بے نظیر بھٹو جیسی عالمی شہرت یافتہ رہنما کے خلاف جھوٹے کیس بنانے ، آصف علی زرداری کی جیل یاترا کے واقعات کے ساتھ ساتھ سلمان فاروقی اور اس کی بیٹی شرمیلا فاروقی سمیت دیگر واقعات میں ظلم و جبر کی داستانوں کے اسکرپٹ رائیٹر چاہے کوئی بھی ہوں لیکن ہدایت کاری کے فرائض تو نواز شریف نے ہی سرانجام دیے تھے ۔

جس کے تحت بے نظیر بھٹو کے کردار کو داغدار بنانے کی کوشش اور آصف علی زرداری پرذہنی و جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ان دونوں رہنماؤں کی نااہلی اور 5-5سال قید کی سزا دلوانے کے فیصلے اخبارات کی زینت بنے ۔ کہتے ہیں کہ ’’ جیسا بوؤگے ، ویسا کاٹو گے ‘‘۔یہ کہاوت نواز شریف پر سو آنے صحیح بیٹھتی ہے ۔ 

آج جون لیگ کے سربراہ نواز شریف کی قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے جانبدارانہ احتسابی عمل پرچیخ و پکارسنائی دے رہی ہے وہ در اصل ان کی جانب سے 20سال قبل پی پی پی کی قیادت کے خلاف بوئی ہوئی فصل ہے جو اب وہ کاٹ رہے ہیں ۔

اور اپریل 1999میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف آئے دن ریفرنس پہ ریفرنس دائر ہونے کی کہانی اور ہنگامی بنیادوں پر جلدبازی میں ہوئے نااہلی اور 5-5سال قید کے فیصلے اور موجودہ نواز شریف کی نااہلی اور 10سال قید مع اس کی بیٹی مریم نواز کی نااہلی اور قید کی سزا کے کیس کا اسکرپٹ رائیٹر تو ایک ہی معلوم ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ’’ اُونٹ تو تب ہی رو رہے تھے جب بورے سیئے جارہے تھے ‘‘۔ 

بالکل اسی طرح اس وقت بھی ملک کے دور اندیش افراد بارہا نواز شریف اور ان کی ٹیم کو باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ جو آج آپ پوشیدہ قوتوں کے کہنے پر دوسروں کے لیے کھڈہ کھود رہے ہیں ، ایک دن آپ خود ہی اس میں گروگے یا پھر گرادیے جاؤگے ۔ لیکن اس وقت اُن کی ٹیم نے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا اور آج اُس کا خمیازہ وہ خود بھُگت رہے ہیں ۔

موجودہ قومی احتساب بیورو یعنی National Accountability Bureau بالمعروف نیب (NAB) پرویز مشرف کی جانب سے قومی احتساب آرڈیننس 1999کے تحت قائم کیا گیا ادارہ ہے ۔

آرڈیننس کے مطابق نیب کے تمام اختیارات چیئرمین کے پاس ہوتے ہیں جبکہ آرڈیننس کے آرٹیکل 6کے مطابق چیئرمین نیب کی عدم موجودگی کی صورت میں ڈپٹی چیئرمین قائم مقام چیئرمین کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے ۔ 

دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جنرل مشرف نے پرانی سیاسی وابستگیاں توڑنے اور کنگز پارٹی بنانے کے لیے ہی یہ آرڈیننس نافذ کیا تھا جس کا مقصد غیر جانبدارانہ اور بلاامتیاز احتساب نہیں بلکہ ن لیگ اور پی پی پی کو سائیڈ کرنے کے لیے دونوں جماعتوں پر دباؤ بڑھاکر لوٹے پیدا کرکے ایک کنگز پارٹی مسلم لیگ ق کی تشکیل دینا تھا۔

لیکن ناقابل فہم بات یہ ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے حکومت میں آنے کے بعد اس آمرانہ آرڈیننس کے خاتمے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔

حالانکہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی قیادت میں مشترکہ طور پر 2006کے میثاقِ جمہورت میں یہ طے پایا تھا کہ پارلیمنٹ کے تحت غیر جانبدارانہ ، مؤثر اور منصفانہ احتساب کا ادارہ بنایا جائے گا۔

ابتدائی طور پر اس مقصد کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل بھی ہوئی اور مسودے بھی تیار ہوئے لیکن پھر نہ جانے سیاستدانوں پر کوئی دباؤ آیا یا اُن کی وقتی مصلحتیں تھیں یا پھر پس پردہ غیر جمہوری قوتیں آڑے آئیں ، بہرحال دونوں ہی جماعتوں کی جانب سے اس قانون کو ختم نہیں کیا گیا ، اُلٹا خود کو جمہوری اور اختلافِ رائے کے حق کی چیمپئن کہلوانے والی جماعتوں نے بوقت ضرورت اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے اس قانون کا بے دریغ استعمال کیا ۔ 

دوسری جانب نیب کی کارکردگی پر آزاد ذرائع کی جانب سے بھی انگلیاں اُٹھنے لگیں کہ کئی سابقہ ایم این ایز ، ایم پی ایزاور سابقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی، کے پی کے کے سابقہ میئر سکندر عزیز، سابق سیکریٹری بلدیات اور بعد میں ایڈیشنل سیکریٹری FBR حماد اویس آغا، فرنٹیئر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ایم ڈی حفظ الرحمن ، مظفر گڑھ کے سابقہ ایم این اے سلطان محمود ہنجر، لیہ کے ایم این اے غلام حیدر تھند کے علاوہ پی آئی اے ، پورٹ قاسم، IESCO، CDA، کسٹم ہاؤس ، ماڈل کسٹم کلیکٹوریٹ، پی این ایس ، کے پی ٹی، پی ڈبلیو ڈی ، وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال ، NICLکے چیئرمین ایاز خان نیازی ،بحریہ ٹاؤن کراچی سمیت کئی نجی کمپنیوں و سرکاری محکموں کے ملازمین ،پی ایم سیکریٹریٹ کے کئی عملداروں کے نامعلوم ذرائع آمدن کے باوجود اثاثہ جات رکھنے یا بنانے ۔

قومی خزانے کو نقصان پہنچانے ، خرد برد ، سرکاری املاک پر قبضہ ، اقربا پروری اور بدعنوانی کے چلنے والے ایسے کئی مقدمات خود نیب میں سالوں بلکہ کئی مقدمات تو 10۔20سال سے درج و زیر سماعت ہیں لیکن اُن میں سے اکثر و بیشتر ہائی پروفائل مقدمات میں سے اب تک کتنے مقدمات کے ملزمان کوسزا سنائی گئی ؟

اور اگر کسی کو سزا سنائی بھی گئی ہے تو اس پر عمل کب اور کتنا ہوا ہے؟ اور کیا کیسز ہنگامی بنیادوں پر چلائے گئے ؟میڈیا رپورٹس کے مطابق کئی کیسز تو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کیے گئے پھر وہ مدت ختم نہیں ہوئی ۔

پھر ملزمان کو پلی بارگیننگ کی سہولت بھی دی گئی اور پھر سیاسی بنیادوں پر کیس بنانے اور بند کرنے اور ملزمان کو بری کرنے کے واقعات بھی اخبارات کی زینت بنے ۔ ان معاملات کی بناء پر نیب جانبدارانہ شہرت کا حامل ادارہ بن کر رہ گیا ہے ۔ 

مثلاً اگر باقی تمام مقدمات اور باتوں کو چھوڑ کر صرف عمران خان اور شہباز شریف کے مقدمات کی بناء پر اُن دونوں کو جاری کیے گئے حالیہ انتخابات کے لیے اجازت نامہ کی بات کی جائے تو اس میں بھی غیرجانبداری نظر نہیں آتی ۔ کیونکہ ایک ہی نوعیت کے زیر سماعت مقدمات میں دونوں رہنماؤں کو مختلف اجازت نامے دیے گئے ہیں ۔ 

ایک کو واضع اجازت تو دوسرے کو ڈیفالٹراور کیس سے بری نہ ہونے کے نوٹ کے ساتھ مشروط اجازت دی گئی ہے ، جبکہ کچھ روز قبل نیب کی جانب سے ایک فیصلہ کیا گیا ہے کہ انتخابات تک کسی سیاستدان کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔یہ فیصلہ بھی نیب کی خود مختاری اور غیر جانبداری کی نفی کررہا ہے جس نے احتسابی عمل کو مشکوک بنادیا ہے ۔

کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ احتساب کیا جارہا ہو کہ بدعنوان لوگوں سے ملک کو صاف کریں گے لیکن ساتھ ہی بدعنوانی کے الزام میں آئے ہوئے سیاستدانوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے کھلی چھوٹ بھی دی جائے ۔

اس پر چہ مگوئیوں کا دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ جو انتخابات میں جیت کر آئیں گے ان میں سے جن سے معاملات طے پائیں گے ان کو اہل قرار دے کر چھوڑ دیا جائے گا اور جن سے معاملات طے نہ پاسکیں گے انہیں بدعنوانی کے شواہد پر نااہل کرکے سیاسی منظر سے ہٹادیا جائے گا۔ 

یہ ماحول بھی خود نیب کی غیر جانبداری کو مشکوک بنارہا ہے ۔ جس کی بناء پر نیب کی اخلاقی اور قانونی حیثیت ختم ہو گئی ہے ۔دوسری جانب نیب کے اندر سے بھی بدعنوانی ، اقربا پروری اور ادارتی دباؤ کی آوازیں اُٹھتی رہی ہیں جن کی گونج رینٹل پاور کیس کی تفتیش کرنے والے افسر کامران فیصل کی ہلاکت کے بعد شدت سے سنائی دی ۔

جبکہ آرڈیننس کے ابتدائی دنوں میں آرڈیننس کے خالق جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اس قانون کو جانبدارانہ بنانے کے شواہد ان کے قریبی ساتھی اور اس وقت کے نیب چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک ‘‘ میں دیے ہیں کہ کس طرح بے نظیر بھٹو کیس ، چینی کی قیمتوں میں اضافے کے تحقیقاتی کیس، وزارت پٹرولیم میں 181ارب روپے کا گھپلا کیس اور نیب میں بینکوں کے اثر و رسوخ کے خاتمے سمیت دیگر کیسوں میں جنرل مشرف ، اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کی مشنری نے نیب پر دباؤ رکھا اور جانبداری برتی گئی ۔ 

اس کے ساتھ ساتھ جنرل شاہد عزیز نے اپنی کتاب میں یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ سیاسی مفاد کی خاطر نیب میں کیس کھولے یا بند کیے جاتے رہے تھے ۔

جس کی تازہ پریکٹس ہمیں سندھ میں نظر آتی ہے کہ فریال تالپور کے شوہر میر منور تالپور ، سابقہ وزیر تعلیم پیر مظہر الحق ، سابقہ وزیر قانون ضیاء الحسن لنجار ، سابقہ وزیر ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن گیانچند ایسرانی ، سابقہ وزیر داخلہ سہیل انور سیال سمیت کئی وزراء اور بیوروکریٹس پر قائم کرپشن ، اقربا پروری ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور خرد برد کے کیسز بند کرنا بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے ۔

اس کے علاوہ نیب کی پلی بارگیننگ کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس لیکر قائم کردہ مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب ملک میں بدعنوان عناصر کا سہولت کار بنا ہوا ہے ۔ ان تمام وجوہات کی بناء پر نیب کے غیرجانبدارانہ کردار پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ 

احتساب کے غیر جانبدارانہ و شفاف طریقہ کار کے تعین سے متعلق جمہوری پلیٹ فارم سے ممکنہ اقدامات نہ کرنا ملک کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی پی پی پی اور ن لیگ کی عاقبت نااندیشی ہے ۔جو3-3بار موقع ملنے کے باوجود وہ شفاف و غیر جانبدارانہ احتساب کی بنیاد نہیں رکھ سکے ۔ 

بلکہ ایک دوسرے کے خلاف عناد برتتے ہوئے ایک کی جانب سے مقرر کردہ نیب چیئرمین پر دوسرے کی جانب سے بے اعتمادی اور مخالفت اتنی شدید ہوتی کہ نہ وہ چیئرمین رہ پاتا نہ ہی غیرجانبدارانہ احتساب کے تقاضے پورے ہوتے ۔جسٹس دیدار شاہ، فصیح بخاری اور نوید احسن اس کی مثالیں ہیں۔ 

اگردونوں جماعتیں مل کرپارلیمنٹ کے تحت غیر جانبدارانہ ، مؤثر اور منصفانہ احتساب کا ادارہ قائم کرکے غیر جانبدارانہ احتساب کی بنیاد مضبوط و آزاد ستونوں پر رکھنے میں کامیاب ہوجاتیں تو وہ احتساب نہ صرف سیاستدانوں ، بیوروکریٹس و نجی کمپنیوں پر لاگو ہوتا بلکہ اس کا دائرہ کار عدلیہ اورمالیاتی و عسکری اداروں تک کارآمد ہوتا اور پھر شاید ایسے حالات نہ ہوتے کہ بدعنوان تو تمام ادارے اور اسٹیٹس کو کے تمام فریقین کی اکثریت ہو لیکن احتسابی کارروائیاں صرف سیاستدانوں کے خلاف ہوں بلکہ ان میں بھی پسند ناپسند کی بنیاد پر پکڑ دھکڑ کیے جانا تو ایسے ہے جیسے ’’بھری کشتی میں بنیا بھاری ‘‘ ۔ 

بہرحال ایک مضبوط جمہوری و فلاحی ریاست کے قیام کے لیے احتساب کا عمل ناگزیر ہے لیکن وہ غیر جانبدارانہ اور مساوی بنیادوں پر ملک کے تمام اداروں اور افراد پر لاگو ہونا چاہیے تاکہ ملک سے نہ صرف بدعنوانی کا خاتمہ ہوسکے بلکہ اقربا پروری ، اداروں کا ایک دوسرے کے کام میں دخل اندازی کرنا اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسی لعنتوں سے بھی ملک پاک و صاف ہوسکے ۔