|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2018

تربت : جھوٹ اور فریب کا ساتھی نہیں ہوں ، چند عاقبت نا اندیش اور خود ساختہ لیڈروں نے معصوم بلوچ عوام کے سامنے جھوٹ بول بول کر ان کو جھوٹ سننے کا عادی بنا ڈالا ہے اور انہیں ان کی سیاسی روایت سے بیگانہ کر دیا ہے ۔

آج امیر ترین خطے کے غریب ترین عوام کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں کھڑے ہوکر بیگانوں سے بھیک مانگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اپنے گھر کا مالک ہے ۔ ایران سے بجلی کی بندش کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ایران سے ملنے والی بجلی کے عوض پاکستان کی طرف سے رقم کی عدم فراہمی ہے جس نے عوام کو آج بد ترین دورائے پہ کھڑا کر دیا ہے۔

کیچ کے عوام پر سالہا سال حکمرانی کرنے والے شاہوں اور با دشاہوں کو کبھی بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ ایران سے ملنے والی بجلی خطے کے غریب بلوچوں کے لیے مستقل سہولت نہیں ہے اور انہیں بلوچستان کی دولت جسے وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اس دولت سے وہ خطے میں بجلی کا بھی کوئی مستقل اہتمام کر لیتے ، انتخابی عمل میں شامل ہونا میرے ڈیڑھ سال کی مشاورت کا نتیجہ ہے ۔

ووٹ ایک قومی فریضہ ہے جسے بلوچ سوچ سمجھ کر استعمال کریں، ووٹ کو کبھی بھی اپنی قوم سے بھیک کی مانند لینے کا متحمل نہیں بلوچ نے جب بھی پکارا میں دوڑ کے گیا ، انتخابات میں حصہ لینے کے بعد مجھے طرح طرح کے القابات سے نوازا جا رہا ہے ۔

مجھ سے میرے مسلمان بھائیوں کو بد زن کرنے کے لیے مجھے کافر اور دہریہ تک کا خطاب دیا جا رہا ہے اور یہ سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے وہ ہیں جن کی علمی پس منظر اور بلوچ روایات سے واقفیت لوگوں کے سامنے عیاں ہے اور جو خود مدرسے کے جعلی سرٹیفکیٹ لے کر انتخاب لڑ رہے ہیں ۔

خطے میں ذکری اور نمازی کے ایشو کو ہوا دینے والے بھول رہے ہیں کہ خطے میں ذکری اور نمازی دونوں ایک ہی خدا کے آگے عبادت گزار ہیں، مدرسے کے جعلی سر ٹیفیکیٹ کے حامل امیدوار ذرا غور کریں کہ ان کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد بھی ذکری ہے ۔ 

ان خیالات کا اظہار این این اے271کے امیدوار اور بی این پی مینگل کے مرکزی رہنما دانشور جان محمد دشتی نے گزشتہ روز چا ہ سر اور سنگانی سر کے بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ نے اپنی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں مذہب کے نام پر دو مرتبہ مار کھائی ہے نوشیروان عادل اور نصیر خان نوری کے ان پر حملوں کے بعد بلوچ کی تاریخ میں کہیں پر بھی مذہب کے نام پر خونریزیاں نہیں ہوئی ہیں۔

جان محمد دشتی نے مزید کہا کہ بلوچ کو آج بھی بد رین مسائل کا سامنا ہے جن مین صحت سے لے کر تعلیم تک بنیادی مسائل درپیش ہیں انہوں نے کہا کہ انتخابات میں حصہ لینے کا ایک اہم مقصد بلوچ عوام کی صحت اور تعلیم کے مسائل کا حل بھی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے کالج اور یونیورسٹیوں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ موجودہ دور کے عین مطابق نہیں ہے اس میں جدت لانے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ یہی صورتحال ہمارے صحت کے مراکز کی ہے جہاں غریب بلوچ کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور بلوچ میں پائی جانے والی انارکی اور بے چینی کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست بلوچ عوام کے ساتھ رویہ مثبت کرے اور بلوچ کو بلوچستان کے ساحل ووسائل کا مالک تسلیم کرے اور بلوچستان کی دولت میں سے بلوچ کو ان کا حق دے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر ریاست نے اپنی یہ ذمہداری احسن طریقے سے نبھائی اور رضامندی ظاہر کی تو ناراض بلوچوں سے بات چیت کی مثبت راہ نکل سکتی ہے ، انہوں نے کہا کہ موجودہ انسر جنسی کی وجہ سے ہر بلوچ دشمن تصور کیا جاتا ہے حالانکہ یہ ماسوائے ایک بری غلط فہمی کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔

بلوچستان میں ہر سال چالیس ہزار نوجوان روزگار کے لیے تیار ہوجاتے ہیں مگر انہیں روزگار نہیں ملتی اور یہ تعداد بڑھتے بڑھتے بیس سالوں میں 8لاکھ تک پہنچ جاتی ہے اور ستم ظریفی یہی ہے کہ ہمارے منتخب کردہ نمائندوں کو کبھی بھی یہ خطرناک حدجاتی تعداد نظر نہیں آتی جن کی آنکھوں میںآنسو خشک ہو گئے ہیں اور جنہیں مایوسی نے اپنے حصار میں لے لیا ہے۔

سنگانی سر اجتماع سے محمد یاسین بلوچ ، عادل علی بلوچ شامیر بلوچ ، شازین بلوچ ، عبدالغنی بلوچ ، محمد عثمان بلوچ ، صدام بلوچ ، سراج احمد بلوچ ، شیر باز سمیت قیصر امجد نے اپنے خاندان سمیت نیشنل پارٹی سے استعفیٰ دے کر بی این پی مین شمولیت کا اعلان کر دیا ۔