ملک بھرمیں 2018ء کے عام انتخابات کا عمل لگ بھگ اپنے اختتام کو پہنچا گیاہے۔ چند ایک مقامات پر اعتراضات کی بناء پر ان حلقوں میں دوبارہ گنتی کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے ۔ بعض نتائج کی گنتی دوبارہ کی گئی جو امیدوار ناکام تھے وہ کامیاب قرار دئیے گئے اور جو کامیا بی کا جشن منارہے تھے ،ناکام قرار دے کر ان کی خوشیوں کا خاتمہ کردیاگیا ۔
بہر حال ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی بعض حلقوں کے چند ایک نتائج متنازعہ قرار دئیے جا چکے ہیں جن کے بارے میں متضاد اطلاعات موصول ہورہی ہیں صوبائی الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہ ہونے کی بنا ء پر معلومات و اطلاعات کا تمام دارو مدار یا تو الیکٹرونک میڈیا ہے یا پھر سوشل میڈیا، جس سے عوام کو آگاہی حاصل ہورہی ہے۔
دالبندین ، چاغی، خضدار، مکران کے نتائج کے بارے میں متضاد اطلاعات اب تک گشت کررہی ہیں۔ دوسری طرف صوبوں میں حکومت سازی کا عمل بھی تیزی کے ساتھ جاری ہے ۔ بلوچستان اسمبلی کے لئے بلوچستان عوامی پارٹی 15نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن گئی ہے ایم ایم اے 9نشستوں کے ساتھ دوسرے اور بی این پی سات نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے ۔
جبکہ پی ٹی آئی کے چار اور پانچ آزاد ارکان بھی انتخابات جیت گئے ہیں جو حکومت سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔ دیگر پارٹیوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے دو دوارکان ، جمہوری وطن پارٹی ، پشتونخوا میپ اور مسلم لیگ (ن) کے ایک ایک ارکان کے کامیاب ہوئے ہیں ۔
ان نتائج کے مطابق صوبائی حکومت سازی میں آزاد ارکان سردار عبدالرحمن کھیتران ، میر عارف جان محمد حسنی ، میر نعمت اللہ زہری ، مٹھا خان کاکڑ اور مسعود خان لونی کا کردار نمایاں ہوگا یہ جس پارٹی کے ساتھ اتحاد کا اعلان کریں گے وہ پارٹی حکومت سازی کے عمل کو مکمل کرے گی ۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے جام کمال کو وزیراعلیٰ بلوچستان کے لئے نامزد کردیا ہے جس کا باقاعدہ اعلان ٹی وی پر اور اخبارات میں کیا جا چکا ہے ۔
پارٹی کے 14ارکان کی حمایت کا دعویٰ کیا گیا ہے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے پی ٹی آئی بلوچستان کے صوبائی صدر سردار یار محمد رند کو بلوچستان میں مخلوط حکومت بنانے کیلئے اسلام آباد مشاورت کے لئے طلب کر لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سردار یار محمد رند اسلام آباد پہنچ گئے ہیں ،میری اس تحریر تک اطلاعات کے مطابق ملاقات ہوبھی چکی ہے ۔ سرداریار محمد رند بلوچستان میں حکومت سازی کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے اور بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کے لئے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے لئے بات چیت کے بارے میں آگاہ کرینگے۔ جس کی روشنی میں بلوچستان میں نئی مخلوط حکومت کی تشکیل کا عمل مکمل ہوسکے گا۔
پی ٹی آئی اپنی چار نشستوں کے ساتھ حکومت سازی میں شامل ہوگی ۔ پی ٹی آئی کے صوبائی اطلاعات کے مطابق اتحادیوں کے ساتھ مل کر صوبے میں حکومت بنائے جائے گی جن سے سردار رند رابطے میں ہیں ۔جہاں تک بلوچستان میں مخلوط حکومت کے قیام کا تعلق ہے اس میں سیاسی طورپر بی این پی اپنی نمایاں پوزیشن اور پسندیدگی کے حوالے سے سرفہرست نظر آتی ہے ۔
بلوچستان عوامی پارٹی کچھ وجوہات کی بناء پر عوامی حلقوں میں اس قدر پسند یدہ نہیں جس طرح بی این پی اور دیگر جماعتیں ہیں۔ اگرچہ بی اے پی ارکان کی تعداد زیادہ ہے اس میں شامل شخصیتوں کا اپنا کردار نمایاں ہے جنہوں نے اپنے بل بوتے پر ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہے ،اس میں بی اے پی کا بطور سیاسی جماعت کوئی خاص عمل دخل نہیں۔
جہاں تک نئی حکومت کے لئے پسندیدگی اور سنجیدگی کی بات ہے تو یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے کہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں اگر حکومت تشکیل پاتی ہے تو اس کو نہ صرف بلوچستان بھر میں بے پناہ پذیرائی ملے گی بلکہ ملک بھر میں اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جائے گا ۔
سردار مینگل کی شخصیت کا اس میں بڑا کردار ہے کہ وہ ایک با کردار ، با عمل اور کرپشن سے پاک شخصیت ہیں ۔ بلوچستان بھرمیں بلوچ اور پشتون قبائل میں انہیں بے پناہ عزت و تکریم حاصل ہے۔
ان کی قیادت میں بننے والی حکومت کے قیام سے نہ صرف صوبے کے بگڑے حالات کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی حالات کی بہتری میں نہ صرف مددملے گی بلکہ مرکز میں تحریک انصاف کو ایک ایماندار اور کرپشن سے پاک صوبائی حکومت ملنے سے حالات کافی حد تک بہترہو جائیں گے جس کا خود تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے اپنے کوئٹہ کے عوام سے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ بلوچستان کے بلوچ عوام کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
ان کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے ان کا ازالہ کیا جا ئے گا، انہیں ایک اتحادی کی صورت میں اپنے ساتھ رکھا جائے گا ، ان کے دکھوں کا مداوا کیاجائے گا۔ توقع ہے کہ عمران خان اپنے خطاب کی روشنی میں سردار اختر مینگل کی قیادت میں مخلوط حکومت کے قیام میں نہ صرف تعاون کریں گے بلکہ بلوچستان کے عوام کو کرپشن سے پاک حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں گے جس کے لئے سردار اختر مینگل نمایاں اور موزوں امیدوار ہیں ۔
ایسی کہنہ مشق ، زیرک اور ہر دلعزیز سیاستدان کم از کم میری نظر میں ان کے علاوہ کوئی نہیں ،انہیں بلوچ اور پشتون عوام میں جو مقبولیت اورعزت و احترام حاصل ہے وہ شاید دیگر نو وارد سیاستدانوں کو حاصل نہیں۔
توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے چئیرمین اس پہلو کی روشنی میں نئی مخلوط حکومت سازی میں یہاں کے عوام کی رائے کا احترام کریں گے اور ایسی شخصیت کا چناؤ کریں گے جو خود ایماندار ہو اور عوامی حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو ۔سرداراختر مینگل کو قبائل میں بھی نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔
ان کی قیادت میں بننے والی حکومت ایک کامیاب اورکرپشن سے پاک حکومت ہوگی جس کیلئے انہیں دیگر اتحادی جماعتوں سے بھی ایسی شخصیات ملیں گی جو ان کی قیادت میں کام کرنے میں آسانی محسوس کریں گی جس کے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک پر بھی اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
بلوچستان میں با کردار اور کرپشن سے پاک حکومت تحریک انصاف کی حکومت کے لئے بھی بہتر حکومت اور اتحادی ثابت ہوگی اس کے مقابلے میں صوبے میں دیگر شخصیات میں یہ اوصاف کم از کم مجھے نظر نہیں آتے۔
بلوچستان میں حکومت سازی کا عمل
وقتِ اشاعت : July 29 – 2018