کہتے ہیں کہ سیاست کچھ لو اور کچھ دو کا دوسرا نام ہے۔اس کھیل میں اصولوں کے ساتھ ساتھ ملکی اور قومی مفادات کو بھی مقدم جانا جاتا ہے۔ کل کے دشمن آج کے دوست بننے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ عمل صدیوں سے جاری و ساری ہے۔
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد وفاق اور چاروں صوبوں میں حکومت سازی کے لیے مشاورت، جوڑ توڑ، آزاد امیدواروں کی خرید و فروخت اور اتحادوں کی تشکیل کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ ایک دوسرے کی شکل تک گوارہ نہ کرنے، ایک دوسرے کو چور کہنے اور مرکزی رہنماؤں کو چوراہوں پر لٹکانے کے اعلانات کرنے والے ن لیگی اور پیپلز پارٹی والے ایک دوسرے سے اس طرح بغل گیر ہورہے ہیں کہ جیسے بچپن کے دوست ہوں۔
سیاسی صورتحال نے ماضی کے جانی دشمنوں کو آج کا بہترین دوست اور غمگسار بنا دیا ہے۔ کراچی کی حد تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ مرکز میں حکومت کی تشکیل کے لیے ایک میز پر نہ صرف بیٹھ گئے بلکہ دونوں جماعتوں میں اتفاق رائے بھی ہوگیا ہے۔
پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں وفاق اور صوبوں میں حکومت سازی کے لیے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں اور نتیجے میں وزارتیں اور مشاورتیں وصول کرتی ہیں۔ اس موقع پر ہونے والی اتحادوں کی تشکیل کے موقع پر شرائط بھی پیش کی جاتی ہیں جن میں سے بیشتر قابل عمل ہوتی ہیں اور جلد ان کے نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔
مرکز میں حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی نے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو دعوت دی ہے جو کہ خوش آئند عمل ہے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق بی این پی نے چند مطالبات کے ساتھ پی ٹی آئی کے سربراہ کو بلوچستان ہاؤ س آکر مذاکرات کی شرط عائد کی ہے۔بی این پی کے اس عمل کی ملک بھر میں واہ واہ جاری ہے۔
چاروں جانب سے انہیں مبارکباد یں بھی پیش کی جارہی ہیں۔ اپنے تئیں انہوں نے ایک اچھا عمل کیا ہوگا۔بی این پی کے سربراہ کی جانب سے پی ٹی آئی کو پیش کی گئی فہرست سامنے سے تو نہیں گزری تاہم چھ نکات پر مبنی ترجیحات کی فہرست پر جب نظر دوڑائی تو اندازہ ہوا کہ اگر ترجیحات کی مذکورہ فہرست پی ٹی آئی کو مطالبات کی شکل میں پیش کی گئی تو یہ فہرست منطقی اور درست ہونے کے باوجود غلط موقع پر غیر متعلقہ افراد کو پیش کی جارہی ہے۔ مطلب بی این پی رانگ نمبر ڈائل کررہی ہے۔
بی این پی کی ترجیحات کی فہرست میں پہلا نمبر پر بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی اورسب سے آخر میں افغان مہاجرین کی باعزت طریقے سے وطن واپسی کی شرائط شامل ہیں۔ ان مطالبات کی نوعیت اور ان پر عمل درآمد کے بارے میں بلوچستان سمیت ملک بھر کے صحافی اور سیاستدان بخوبی آگاہ ہیں۔
کیونکہ یہ دونوں موضوعات صوبے کے سلگتے معاملات میں شامل ہیں اور ان پر عمل درآمد کم ازکم آج کے حالات میں سیاسی جماعتوں کے لیے نا ممکن ہے کیونکہ یہ معاملات و زرات داخلہ کے ماتحت سمجھے جاتے ہیں اور ان پر عمل درآمد تو درکنار ان کے بارے میں سوچنے والوں کے بھی پر جل جاتے ہیں۔
ایسے میں بی این پی کی جانب سے پی ٹی آئی کے سامنے ایسے مطالبات رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ہاں اگر ان مطالبات کو پیش کرنے سے صوبے میں فیس سیونگ مقصود ہے تو یہ الگ بات ہے بصورت دیگر ایک ایسی جماعت سے، جو ابھی حکومت سازی کے عمل میں مصروف عمل ہے، ایسے ناقابل عمل مطالبات کرنا سراسر گھاٹے کا سودا اور بلوچستان کا میدان سیاسی حریفوں کے لیے کھلا چھوڑنے کے مترادف ہے۔
بی این پی کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونا چائیے کہ اگر وہ مرکز میں پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت سازی میں ناکام رہی تو بلو چستان میں بلوچستان عوامی پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور دیگر جماعتوں کے ساتھ حکومت سازی کا عمل مکمل کرلے گی اور پھر وہ نہ صرف ہاتھ ملتے بلکہ ہمیشہ کے لیے افسوس کرتے رہ جائیں گے اور وہ اگلے پانچ سال کے لیے حکومت سازی کی ٹرین مس کر جائیں گے۔
سیاسی بالیدگی کا تقاضا یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے مرکز میں اتحاد کرکے بلوچستان میں حکو مت سازی کے عمل کا حصہ بنا جائے اور پھر وفاقی اور صوبائی حکو متوں میں شامل ہوکر اپنی آواز موثر انداز میں اٹھائی جائے اور مطالبات منوانے کے لیے اتحادی جماعتو ں کے ساتھ ملکر متعلقہ اداروں پر دباؤ بڑھایا جائے۔ بلوچستان میں سیاسی حریفوں کو کسی صورت واک اوور نہ دیا جائے۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر سیاسی فیصلے کیے جائیں۔
سیاست کریں، رانگ نمبر ڈائل مت کریں
وقتِ اشاعت : August 5 – 2018