بلوچستان میں منعقدہ حالیہ انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال غور طلب ہے۔ مقتدرہ کا بدستور اپنے آئینی حدود سے تجاوز کرنا اور حسب روایت انتخابات میں مداخلت نے عوام کے حق رائے دہی کو پامال کیا۔ دوسری جانب بلوچستان کے عوام نے بھی اپنی رائے کے ذریعے جمہوریت مخالف قوتوں پر واضح انداز میں آشکار کیا کہ وہ ان کے مطلوبہ امیدواروں پر اپنی مرضی کے انتخاب کو ترجیح دیتی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جن چند جیتی ہوئی نشستوں پر اپنی منظورنظر امیدواروں کو مسلط کیا گیا ان میں گوادر کی علامتی نشست کے علاوہ دیگر وہ علاقے بھی شامل ہیں جنہیں ایک عرصہ سے شورش زدہ قرار دیا جارہاہے۔ ان علاقوں کے لوگ سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار رہے ہیں اور آبادی کا بڑا حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے .ایسے علاقوں سے غیر مقبول امیدواروں کو جتوانا بلوچستان کے حالات کو بہتری کی جانب لیجانے کی دعوؤں پر سوالیہ نشان ہے۔
متعدد رکاوٹوں کے باوجود بی این پی کا بلوچستان کے سیاسی افق پر بلوچ اور بلوچستان کے نمائندہ جماعت کی حیثیت سے سامنے آنا، اس ایجنڈہ اور جدوجہد کی عوامی حمایت ہے جسے اس کے اراکین سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے مختلف سیاسی گروہوں کی شدید مخالفت اور غیر ریاستی عناصر کے تشدد کی زد میں رہنے کے باوجود جس جدوجہد کو بی این پی نے جاری رکھا آج اس جدوجہد کے مثبت آثار بلوچستان کے سیاسی ماحول پر نمایاں طور پہ نظر آنے شروع ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں رائج کردہ خوف کے ماحول کے نتیجے میں سرفیس پولیٹکس میں جو جمود آیا تھا اسکی جزوی طَور پَر بحالی اور مکران کے علاقوں کیچ، پنجگور اور بلیدہ جیسے اہم علاقوں سے نامور شخصیات کا بی این پی کے ایجنڈہ کی پرچار کرنا اپنے تئیں بڑی کامیابیاں ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں بی این پی کا بلوچستان میں پیدا شدہ سازگار ماحول سے فائدہ اٹھانا اسکی دوراندیشی اور سیاسی شعور کا امتحان ہے۔
بی این پی بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ بنے یا نہیں اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے انکا فیصلہ ساز ادارہ اس بات کو سامنے رکھے کہ انکے کسی بھی فیصلے کا ان کے سیاسی ساکھ اور بلوچستان کے مجموعی حالات پر کیا مثبت یا منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔
مکران، مستونگ، اور کوئٹہ کے چند اہم حلقوں سے بی این پی کے کامیاب امیدواروں کو زبردستی ہرانا اس بات کا عندیہ ہے کہ طاقتور حلقے بلوچستان کے اختیارات عوامی نمائندوں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
کسی بھی مخلوط حکومت کا حصہ بننا ایک بے اختیار اقتدار ہوگا جس میں بی این پی اپنی کمزور پوزیشن کی وجہ سے اہم فیصلے نہیں لے پائیگی اور اگر فیصلے لے بھی لے تو طاقتور حلقوں کی جانب سے ان پر عملدرآمد نہیں کرنے دیا جائیگا۔
اس کے علاوہ پاکستان کے مجموعی سیاسی اور معاشی حالات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جن سے بلوچستان براہ راست متاثر ہے۔ پنجاب میں جاری سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بیچ تناؤ اور حالیہ تشکیل پانے والی اپوزیشن کے سامنے مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کتنا عرصہ قائم رہ پائیگی اسکے آثار اگلے6 مہینہ سے لیکر ایک سال کے دوران واضح ہو کر سامنے آئینگے۔
معاشی اعتبار سے پاکستان سنگین معاشی بحران کا شکار ہے۔ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ پاکستان مزید مقروض ہوتا جائے گا. بلوچستان کی پچھلی بجٹ کو دیکھا جائے جو بلینز خسارہ میں تھی اور چند ہی ہفتوں پہلے کی بات ہے کہ بلوچستان حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے لئے خزانے میں پیسے نہیں تھے۔
ایسی صورتحال میں بلوچستان حکومت ڈویلپمنٹ فنڈز کے لئے وفاق پر اکتفا کرے گا اور ضرورت کے مطابق فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی ڈویلپمنٹ سکیمز نہیں ہونگی اور غربت و بیروزگاری کی روک تھام ممکن نہیں ہوگی ، ایسی حکومت کا حصہ بن کر بی این پی ڈیلیور نہیں کر پائیگی جو اسکی بدنامی اور عوام کی مایوسی کا سبب بنے گی۔ مختصر طاقتور حلقہ بی این پی کا وہی حال کرنا چاہیگی جو پچھلی دور حکومت میں نیشنل پارٹی کا کیا گیا۔
البتہ آج بلوچستان کو کسی کمزور حکومت کی بجائے ایک مضبوط قوم پرست اپوزیشن کی ضرورت ہے جو موجودہ وقت میں صرف بی این پی کی قیادت ہی فراہم کر سکتی ہے۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر بی این پی “بلوچستان عوامی پارٹی” جیسی قوم پرست مخالف سوچ رکھنے والی تنظیم جس کو درپردہ مقاصد کی تکمیل کے لئے عمل میں لائی گئی ہے ان مقاصد کی نشاندہی اور عملداری کے آگے ایک مضبوط آواز ہوگی ۔
بلوچستان کے سب سے اہم مسائل میں شامل سیاسی و سماجی کارکنوں کی جبری گمشدگی و ماروائے قتل اقدامات کی روکھ تھام، نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی با عزت واپسی، سی پیک کی عملداری کے دوران بلوچ و بلوچستان کے مفادات کا تحفظ اور اسکے منفی پہلوؤں کی نشاندہی کا کام اپنی بساط کے مطابق بی این پی کے منتخب نمائندے ایوانوں میں سرانجام دے سکتے ہیں۔
اسکے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو جو یہ تھوڑا بہت “بریدنگ سپیس” میسر آیا ہے اسے وہ خود کو نئے سرے سے منظم کرنے میں استعمال کرے اور اپنی “انسٹی ٹیوشنل بلڈنگ ” کا کام کرے۔
گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ جو بی این پی کا عوام سے رابطہ منقطع رہا ہے وہ اس وقت کو عوام سے دوبارہ رابطہ کی بحالی کے لئے استعمال کرے اور عوام میں ظلم و ستم اور اپنی ووٹ کی پامالی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی جذبات کو ایک موثر اور بہتر اسٹریٹجی کے تحت راہ دے۔
سیاسی عمل میں جمود کی وجہ سے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا جو سلسلہ تھم گیا تھا اسے ایک بہتر انداز میں بحال کرنے کے لیے لائحہ عمل وضع کرے. اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے سماجی ڈھانچے کو جس قدر بری طرح سے مسخ کیا جا رہا ہے جہاں غیر معروف اور ناپسندیدہ افراد کی پشت پناہی کی جا رہی ہے، اور عوام خاص کر نوجوانوں کو بلوچستان کے حقیقی اور مثبت کرداروں سے بد دل کرنے کی کوششوں کا جو سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔
اس خلاف حکمت عملی تیار کرے اور اس ضمن میں ان پالیسیوں کی تبدیلی کے حوالے سے قانون ساز اداروں میں بیٹھ کر متعلقہ قوتوں پر زور دیا جا سکتا ہے۔ اگر بی این پی وقت و حالات کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ لے تو آج بلوچستان میں خود کو کنارہ کش کئے افراد اور دیگر قوم پرست تنظیموں میں موجود سنجیدہ افراد بی این پی کے کارواں کا حصہ بن سکتے ہیں اور بی این پی آئندہ چند سالوں میں اپنی موجودہ حالت سے کئی گناہ بہتر اور مضبوط شکل میں سامنے آ سکتی ہے۔