|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2018

آج دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور خصوصاً بلوچستان کے اندر گزشتہ برسوں سے جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے اس صورتحال کے تناظر میں دور اندیش رہنماء بابا بزنجو کے سائے سے محروم ہم تقسیم در تقسیم کے مراحل سے دوچار ہیں آنے والے حالات اور ان کے اثرات ابھی سے جس طرح ہم پر پڑھ ریہ ہیں ان کو دیکھ کر بابا بزنجو کی شدید کمی محسوس کرتے ہیں ۔

گزشتہ دہائیوں میں بابا بزنجو کی جمہوری و عملی سیاست ان کے تبصرے اور سیاسی بصیرن ان کے بتائے ہوئے مشاہدے جس طرح سچ ثابت ہوئے ہیں ان کا اندازہ آج عرب ممالک کے اندر افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور سودیت یونین میں جو آخری مرتبہ آپ نے گوربا چوف اور دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی اور سودیت یونین کے اندرونی حالات کا جو جاۂ لیا اور جو پیش بینی کی اوران کے اثرات دنیا پر کس طرح اثر انداز ہونگے وہ آج سب کے سامنے ہیں۔ 

آج جس طرح بین الاقوامی سامراجی قوتوں نے جس تیزی کے ساتھ بلوچستان کا رخ کیا ہے اور جن کے اثرات آنے والے دنوں میں ہم پر جس طرح اثر انداز ہونے جارہے ہیں وہاں ہم قابل فخر بابا بلوچستان جیسے ہستی کے ہونے اور تجزیوں سے محروم ہیں بابا بزنجو دسمبر 1917ء کو شانگ جھاؤ میں پیدا ہوئے پانچ سال کی عمر میں آواران اور بعد میں کوئٹہ منتقل کئے گئے سنڈیمن سکول میں آٹھویں جماعت کا یہ طالب علم 1935 ء کے زلزلے سے محفوظ رہے ۔

کوئٹہ کے اس تباہی سے جہاں ہزاروں جانیں نگل گئی اور بہت بڑے ترقی پسند شخصیت یوسف عزیز مگسی سے ہم ہاتھ دھو بیٹھے جامعہ یوسفیہ، تکمیل انسانیت، انجمن بلوچاں اتحاد فریاد بلوچستان یوسف عزیز مگسی ایک ایسے دور میں ہم سے چلے گئے جن کی انتہائی ضرورت تھی، 27 سال تک کی عمر میں انہوں نے بلوچوں کی تحریک اور جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کئے تھے ترقی پسندانہ خیالات کے مالک، کٹھن سرداری و نوابی اور جاگیر داری دور میں جس طرح وہ لیڈ کررہے تھے ۔

یقیناً آگے چل کر مزید ابھر کر سیاسی دائرے میں شامل ہوکر حقوق کی اس جنگ میں نمایاں ہی رہتے لیکن وقت بھی ظالم ہے اور مادر وطن کا بہترین فرزند، یوسف عزیز مگسی زلزلے کی نذر ہوگئے اس کے بعد بابا بزنجو کا سفر شروع ہوتا ہے ۔

یوسف عزیز مگسی اور میر عبدالعزیز کرد کے بعد یہ جاری جدوجہد بابا بزنجو، ملک فیض محمد یوسفزئی، محمد حسین عنقا، میر گل خان نصیر، بابو عبدالکریم شورش ودیگر رفقاء کی شکل میں سامنے آئے اس تباہ کن زلزلے کے بعد بابا بزنجو کا سفر کراچی اور پھر علی گڑھ یونیورسٹی میں ایک مایہ ناز فٹبالر کی حیثیت سے قدم رکھا۔

نوجوان بابا بزنجو علی گڑھ یونیورسٹی کے سیاسی ماحول سے اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہے سکے۔ کانگریس سوچ کے حامل بابا بزنجو ایک کشادہ زہین کا مالک رنگ، نسل اور تعصب سے بالا تر ہوکراس ادارے کی تربیت گاہ میں اپنا سایسی سفر شروع کرنے لگے اور کانگریس کی پالیسیوں نے میر بزنجو کے دل و دماغ کی کھڑکیوں کوروشن خیالی سے اور بھردیا۔ 

علی گڑھ یونیورسٹی کے ماحول میں جو اثرات میر بزنجو پر چھوڑے وہ واپس آکر سخت گیر جمہوری موقف اپنانے اور بلوچستان کے حالات کی تبدیلی کیلئے بڑی حد تک کافی تھے اور بلوچستان کا یہ بابائے بلوچستان اُستمان بین الاقوامی سطح پر اُجاگر ہوا، انقلابوں کا اور جمہوری رویوں کا پاسباں اپنے خطے میں جمہوری جدوجہد کو پروان چڑھانے میں جو کلیدی کردار ادا کیا وہ آج سب کے سامنے ہے ون یونٹ کے خلاف زندانوں میں یکساں قیادت اور جدوجہد میں سرفہرست رہے ہیں ۔ 

میر بزنجو نے اپنے محبوب عوام اور بلوچستان کے لئے جدوجہد میں نہ صرف پاکستان وجود آنے کے بعد برسر پیکار رہے بلکہ پاکستان بننے سے پہلے بھی کبھی مکران بدر، کبھی قلات بدر، کبھی خان احمد یار خان کے اپنے گھر میں پابند سلاسل رہے سرداروں اور نوابوں نے میر بزنجو اور ان کے رفقاء کو جس طرح اذیت اور در بدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا، تعلیمی رکاوٹوں سے لے کر ہر قسم کی ستم ظریفی نے بابا بزنجو کے پختگی و ذہانت کو مزید عملی جامہ پہنایا۔ 

ریاست قلات کے ظلم و جبر نے بابا بزنجو کو ابوالکلام آزاد اور نہر و جیسے شخصیات سے مزید قریب تر کیا حقوق کی یہ جنگ قلات سے ہندوستان تک جا پہنچی۔ 1947ء کو جب برصغیر سے انگریزوں کا انخلاء شروع ہوا تو ریاست قلات کی آزادانہ اور جدا گانہ حیثیت بر قرار تھی لیکن برصغیر ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔

ایک طرف خان قلات کو سرداروں کی حمایت حاصل تھی تو دوسری طرف بابا بزنجو اور ان کے رفقاء کی سیاسی پالیسیاں اور سوچ بڑی رکاوٹ بن کر سامنے کھڑی تھی ریاست قلات کے آزادی کے بعد 1947 ء کو بابا بزنجو نال خضدار کے حلقے سے ایوان عام کے رکن اور پارلیمانی لیڈر منتخب ہوئے۔ 

جنہیں ایوان خاص کے سرداروں کا سامنا تھا جن کا مقصد ریاست قلات کا الحاق اور سرداری نظام کو مضبوط کرنا تھا جس کی میر بزنجو اور ان کے رفقاء نے بھرپور مخالفت کی اور ان کی دیوان عام سے ڈھاڈر کے مقام پر تاریخی تقریر نے جو تاریخی اہمیت حاصل کی وہ بابا بزنجو اور ان کی رفقاء کی عملی جدوجہد کی عکاسی ہے ۔

بابا بزنجو اور ان کے رفقاء پر نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد جو غداری کامقدمہ چلایا گیا تو دیگر مقدمات کے علاوہ ایک الزام یہی تھا کہ بابا بزنجو نے 1947ء کو ایوان عام میں ڈھاڈر کے مقام پر الحاق کی بھرپور مخالفت کی تھی 1958 ء کو ون یونٹ کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی ون یونٹ توڑ دو کے نعرے گونجتے رہے اور نوٹوں پر چھپتے رہے ایوبی مارشل لاء کے اس سخت ترین دور میں بھی ان رہنماؤں کے حوصلے چلتن اور شاشان کی طرح بلند تھے ۔

اس دوران بابا بزنجو اور ان کے رفقاء کو نظر بند کیا گیا اور وہ کلی کیمپ کے اذیت گاہوں میں اذیتیں برداشت کرتے رہے مگر ان حوصلے اور جمہوری جدوجہد یکساں جاری وساری رہی واقعی بابا بزنجو نے سیاست کو عبادت سمجھ کر خود کو عوامی تحریکوں کیلئے وقت کردیا تب ہی کہتے تھے بابا بزنجو سیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے میں اتنا ہی کہونگا کہ اسی لئے وہ آج تک زندہ ہیں جن کی جمہوری جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ہم جمع ہیں۔ 

1970 ء کو یحییٰ کے دور میں بابز بزنجو اور نیپ کے دیگر رہنماؤں نے ملکر پارٹی کو نہ صرف مضبوط اور مستحکم بنایا بلکہ 1971 ء کے الیکشن میں اس پارٹی کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ یوں ایک سیاسی اور عوامی رہنماء پہلی مرتبہ گورنر بلوچستان بنائے گئے اور بلوچستان یونیورسٹی کے پہلے چانسلر بنے۔ 

بھٹو دور میں اس عوامی حکومت کا خاتمہ کیا گیا اور ساری قیادت کو جیل بھیج دیا گیا اس کے بعد ضیاء امریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جہاں ان رہنماؤں نے ہر میدان میں کھل کر اس امریت کی مخالفت جمہوری عمل کے فروغ کیلئے انتھک جدوجہد کی۔ 

اس دوران ایم آر ڈی بنائی گئی اوراور ضیاء الحق کے امریت کے خلاف صف بند ہوگئے اور بابا بزنجو کے اس دور کے یہ شاندار الفاظ پوری فوج کو بحیثیت ادارہ سیاست سے نکال باہر کرنے سے ہی جمہوریت ممکن ہوگ ۔ لیکن آج تک یہ نہیں ہوسکا۔


اس دوران بابا بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی تشکیل دی جو اس کی سوچ کی حامل پارٹی تھی یوں پورے ملک کے اندر اس پارٹی کی تنظیم کاری شروع کی گئی مگر بلوچستان میں اس کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں تھے جس نے خود مختیاری اور عوامی جدوجہد کو اپنا منشور بنایا اور اسی پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد زندگی کی آخری عمر تک جاری رکھی اور اسی پارٹی سے جڑے رہے۔ 1979 ء میں جب اے این پی کا قیام عمل میں آیا تو کیمنسٹوں نے بابا بزنجو کا ساتھ چھوڑ دیا لیکن وہ زیادہ عرصہ ولی خان کے ساتھ بھی نہیں رہ سکے۔ 

میر بزنجو نے کہا’’ ملک کے عوام اور حکمران کو کم از کم یہ ادراک کرنا چاہیے کہ ایران کے انتشار کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے اس کے نتائج بے حد دورازکار ہوں گے اور یہ حتیٰ کہ خطے کے جغرافیہ کو بالکل تبدیل کرسکتا ہے‘‘۔ 

افغان پناہ گزینوں کے متعلق بابا بزنجو نے کہا’’ میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ ان پناہ گزینوں کو ان کے گھروں کو واپس بھیجنے کا واحد راستہ کابل حکومت کو تسلیم کرنا اور اسکے ساتھ مذاکرات ہیں۔ اگر یہ جلدی ممکن نہیں ہوتا اور معاملے کو طول دیا جاتا ہے تو انہیں واپس بھیجنا ممکن ہوجائیگا۔ 

1987ء کو کوئٹہ میں منعقد بہت بڑے جلسہ عام سے جس میں خان عبدالولی خان بھی شامل تھے بابا بزنجو کے یہ الفاظ آپ لوگوں کی بندوق کی نالیاں جو آج افغان ثور انقلاب کی طرف ہیں۔ یہ حکمران ہوش کے ناخن لیں کان سے بہرے اور آنکھوں سے اندھے امریکہ نواز حکمرانوں کو میں یہ صاف صاف بتادینا چاہتا ہوں وہ دن دور نہیں ہوگا جب ان بندوقوں کی نالیاں اسلام آبادکی طرف ہونگے اور اسلام آباد کے حکمران بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پائینگے۔ 

جن کی نشاندہی آج کے حالات خود کررہے ہیں بابا بزنجو نے پوری زندگی اُصولوں کی سیاست کی اور ان پر کار بند رہے بین الاقوامی طور پر ہمیشہ ترقی پسندوں کا ساتھ دیا امن کیمپ کے سپاہی تھے سوشلسٹ قوتوں کے قریب تھے ایک نظریاتی کارکن تھے پوری زندگی سیاست ہی ان کا محور تھا زندگی کا آخری سفر بھی اپنے عوام کے ساتھ کیا تب ہی تو انہوں نے کہا تھا میں نے وطن اور اہل وطن سے عشق کیا ہے ۔

اس میں کہاں تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ عوام کرینگے میرے سچے رہبر آپ اور آپ کے انقلابی ساتھی جس کرب اور درد سے گزرے وہی سچا راستہ ہے رہبری کے مقام تک پہنچنے کا۔۔۔۔ مگر بابا اب ہمارے ہاں سیاسی کارکنوں کی تربیت کے لئے کوئی ’’لٹ خانہ‘‘ کوئی استمان گل‘‘ یا کوئی قلات نیشنل پارٹی نہیں اب یہاں ساسی کارکن قبائلی بیٹھکوں میں بنتے ہیں اور آج کے لیڈر تو ہوتے ہی ریڈی میڈ ہیں۔ 

جب کہ دشمن کی چالیں اب بھی وہی ہیں جو کہ آپ کے زمانے میں تھیں وہی جاگیرداری، بیوروکریسی، مارشل لاء آج بھی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ سیاسی کارکن آج بھی تاریخ راہوں میں مارا جاتا ہے اور سرداروں کی تعداد میں اب تو اور بھی اضافہ ہونے لگا ہے دوسری طرف ترقی پسند کہلانے والے گروپس بھی محض نمود و نمائشی اور اندر ہی اندر وہ روایتی اور قبائلی رشتے اوررد یئے۔ 

مگر بابا ہم مایوس نہیں کیوں کہ ہم تو آپ کے پیروکار ہیں اور اس خیال پر ہمیں یقین ہے کہ’’ ہوگا طلوع کوہ کے پیچھے سے آفتاب‘‘ پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری بابا بزنجو کے متعلق لکھتے ہیں’’ بزنجو تو پھر بزنجو تھا‘‘ متوازن مہربان اور بالغ فکر اس بڑے انسان نے چاہ بہار سے لیکر جھنگ تک اور نیم روز سے لیکر خان گڑھ تک ایک پورے برصغیر کی سیاست کی ایک بے انت صحراکی باغبانی کی بزنجو کی سیاسی بصیرت اور مستقبل بین مزاج نے پڑوسی لیڈر شپ اور دانشوروں کی متاثر کیا ۔

بزنجو بلوچ تہذیب و تاریخ کے ساتھ اب تک اس صورت جڑا رہے گا جسے نظر انداز کبھی بھی نہیں کیا جاسکے گا وہ شخص مستقبل میں بہت دیر تک اچھے انسانوں کو اپنے بارے میں اپنے نظریات و سیاست کے بارے میں اور ان کی روشنی میں اُس عہد کے دور کے بارے میں بڑے بڑے ہالوں کے اندر جمع کرواتا رہے گا۔

اپنی سوچ کے تسلسل میں چلنے والے اُس دور کے قافلے میں شامل کرواتا رہے گا بزنجو مکمل طور پر ایک سیاسی انسان، وہ اندر باہر،ظاہر، باطن، سیاست ہی سیاست تھا۔ بزنجو مذاکرات کا بیٹا، بھائی اور باپ تھا بزنجو بلوچستان کی خشک زمین اور کٹھن کوہستانوں کا البیلا، بابا بزنجو کی سب سے بڑی خصوصیت ثابت قدمی تھی کوئی ادل بدل کوئی دایاں بایاں نہیں۔

یار دوست ادھر اُدھر گےء، کوئی یہاں لپکا کوئی وہاں جھپکا مگر میر بزنجو گہری جھیل کی طرح کوئی ارتعاش نہیں کوئی پس پیش نہیں، بستر مرگ تک اپنی اس بات پر ائم رہا کہ قوموں کو ان کی پیدائشی اور فطری انسانی حقوق دیئے جائیں۔ اور آخر میں عوامی شاعر حبیب جالب بابز بزنجو کے متعلق یوں لکھتے ہیں۔ 

چلو اس کے راستے پر مرے ہمدمو، رفیقو 
یہ جو تخت پر ہیں بیٹھے، تمہیں ذلتیں ہی دیں گے