بلوچستان اسمبلی کی تقریب حلف برداری کا ایجنڈہ جاری کیا گیا تو اس میں واضح کیا گیا تھا کہ13 اگست کو اراکین کے حلف کے ساتھ ہی سہ پہر کے سیشن میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب بھی عمل میں لایا جائیگا لیکن میں ایجنڈہ دیکھتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ جام کمال کو مشورے دینے والے بجائے انکی مدد کرنے کے، دن بدن انہیں بند گلی کی طرف کیوں لیجارہے ہیں۔ جام صاحب اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں یہ میرا ذاتی خیال ہے۔
بلوچستان میں انتخابات کے بعد بلوچستان اسمبلی میں بی اے پی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر ابھری ،گو کہ ان کی کوشش تھی کہ وہ بائیس سے پچیس سیٹیں جیت کر آجائیں اور کچھ سینیئر تجزیہ کار بھی بی اے پی کو بائیس سے پچیس جنرل نشستوں پر کامیاب ہوتا دیکھ رہے تھے لیکن میں نے اسے ہمیشہ دیوانے کا خواب ہی سمجھا کیونکہ میری ذاتی رائے میں بلوچستان عوامی پارٹی کودس سے پندرہ کے درمیان نشستیں مل سکتی تھیں۔
اسکی صاف وجہ یہ تھی کہ بی اے پی کو میں جن نشستوں پر کامیاب ہوتا دیکھ رہا تھا وہاں بی اے پی کے نظریات اہم نہیں تھے اہم تھیں شخصیات جو کہ بی اے پی کا حصہ ہیں۔ کچھ نشستوں پر بی اے پی کو اپ سیٹ شکست بھی ہوئی ،وہیں کچھ نشستوں پر خلاف توقع کامیابی بھی ملی۔
بحر حال اب معاملہ ہے مستقبل کی بلوچستان حکومت کا ،آزاد اراکین نے اس بار بلوچستان میں ہمیں سرپرائیز دیا۔ انہوں نے مرکز میں اکثریت لینے والی جماعت کا رخ کرنے کے بجائے بی اے پی کا رخ کیا، اسکی وجوہات پر فی الحال بات کرنا معاملے کو طول دیگا۔
اگر عمران خان یا انکی جماعت ابتداء ہی سے بی اے پی کی طرف اپنا جھکاؤ نہ رکھتی تو بلوچستان میں ماضی کی تاریخ دہرائی جاتی لیکن عمران خان کیلئے وزارت عظمٰی اور پنجاب خیبر پختونخواہ اہم تھے جسکی بنیاد پر نہ انہوں نے بلوچستان میں حکومت سازی کو اہمیت دی اور نہ ہی صوبائی قیادت یعنی سردار یار محمد رند کو کوئی ایسا فری ہینڈ دیا کہ وہ بلوچستان میں حکومت سازی کی کوشش کریں۔
عمران خان کی جانب سے گرین سگنل نہ ملنے کی وجہ سے سردار یار محمد رند بھی ایسی خاطر خواہ کوشش نہ کی اور پھر ہم سب نے دیکھا مری معاہدے جیسے واقعات رونما ہوئے بلوچستان حکومت کافیصلہ ایک بار پھر بلوچستان نہیں بلکہ بنی گالہ میں ہوا۔
اس پر بی اے پی کا مؤقف ہے کہ وہ وہاں اسلئے نہیں گئے تھے وہ صرف خان صاحب کی مرکز میں حمایت کرنے گئے تھے وہ تو جہانگیر ترین صاحب نے پریس کانفرنس میں جام صاحب کے نام کا اعلان کردیا۔ اسلئے ہی میں یہ کہتا ہوں کہ بلوچستان کا فیصلہ بنی گالہ میں ہوا کیونکہ بنی گالہ سے گرین سگنل ملنے کے بعد اگلے روز بی اے پی نے پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ بلا کر جام کمال کو قائد ایوان اور قدوس بزنجو کو اسپیکر نامزد کردیا۔
پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کو گو کہ فیصلے سے مکمل اتفاق نہیں تھا لیکن انہوں نے خاموشی اختیار کرلی ۔ پی ٹی آئی کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ صوبائی قیادت کا مؤقف تھا کہ بنی گالہ اجلاس میں بی اے پی کی حمایت کا فیصلہ ضرور ہوا تھا ۔
لیکن جام کمال کے نام پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور وہ انتظار کررہے تھے کہ بی اے پی اپنی پارلیمانی جماعت میں کیا فیصلہ کرتی ہے، اسکے بعد وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرینگے تاہم جہانگیر ترین نے پریس کانفرنس میں جام کمال کے نام کا اعلان کردیا جس پر سردار رند کو اختلاف ہوا تھا جس پر انہوں نے اپنا مؤقف میڈیا میں پیش کردیا تھا تاہم بعدازاں عمران خان نے جام کمال کی حمایت کیلئے ہدایات دیں جنہیں سردار رند نے تسلیم کرلیا۔
لیکن اب ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر جو صورتحال سامنے آرہی ہے وہ اتنی آسان نہیں ہے اور اگر جام کمال یا انکی جماعت یہ سوچ رہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے ذریعے وہ معاملات کو چلانے میں کامیاب رہینگے تو جام کمال صاحب کو یاد ہونا چاہئیے ایسی کوشش نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ میپ نے ماضی میں کی تھی ،جب وہ نواب زہری کو نظر انداز کرکے معاملات کو تخت رائیونڈ کے ذریعے چلاناچاہتے تھے۔
نواب ثناء اللہ زہری نے انکی مشکلات بڑھا دی تھیں جسکا نقصان صوبے اور اسکی عوا م کو اٹھانا پڑا تھا۔ اس وقت جام صاحب کے پہلے امتحان کا آغاز ہوچکا ہے جس وقت یہ سطور تحریر کررہا ہوں ایک بار پھر بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ بنی گالہ میں زیر غور ہے چاہے ۔
سردار رند عمران خان کو منالیں یا عمران خان سردار رند کو ایک بار پھر منالیں، دونوں صورت میں جام کمال کو بیٹھ کر معاملات سردار رندکے ساتھ طے کرنے ہونگے ،اگر ایسا نہ ہوا تو سردار رند جام کمال کی حمایت تو کردینگے ۔
لیکن حکومتی معاملات کو بہتر کرنے میں جام صاحب کی مدد نہیں کرینگے اور اگر موجودہ اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف صرف وزیر اعلیٰ کی حمایت کرتی ہے اور حکومت کا حصہ نہیں بنتی تو صرف چونتیس اراکین جام صاحب کی حکومت کا حصہ ہونگے اور بلوچستان میں گورننس کی بہتری کیلئے جس قانون سازی کی ضرورت ہے وہ ایک بار پھر پس پشت چلی جائیگی جو کہ جام صاحب کی پہلی ترجیح ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بعد جام صاحب کا دوسرا امتحان اپنی جماعت بی اے پی میں وزراء کا انتخاب ہوگا ۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ جام صاحب پر نہ صرف وزراء کے انتخاب کیلئے شدید دباؤ ہے بلکہ جو افراد انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے وہ بھی غیر منتخب مشیر بننے کے خواہش مند ہیں ۔
اب جام صاحب نے چھوٹی جماعتوں کو جن وعدوں پر اکھٹا کیا ہے انہیں کس انداز سے ایڈجسٹ کرتے ہیں اور تحریک انصاف کو کیسے مناتے ہیں اسکے بعد اپنی جماعت کے اراکین کو کابینہ میں کتنا حصہ دیکر مطمئن کرتے ہیں ،یہی حقیقی مشکلات ہیں۔
واقفان حال بتا رہے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند جام کمال کو واضح کرچکے ہیں کہ معاملات کو برابری پر لیکر چلنا ہوگا اگر وہ کسی چھوٹی جماعت کو دو نشستوں پر وزارت دینگے تو اسی فارمولے پر پاکستان تحریک انصاف کو بھی وزارتیں دینی ہونگی۔ اگر جام صاحب کابینہ میں اپنی جماعت سے ایک بھی غیر منتخب مشیر لینگے تو انہیں تحریک انصاف سے بھی ایسے ہی غیر منتخب مشیر لینے ہونگے ۔
میری ذاتی رائے میں ان دو امتحانوں سے نکلنے کے بعد اس بات کا تعین ہوسکے گا کہ جام صاحب کا طرز حکمرانی کیا ہوگا اور جس سوچ کو لیکر آئے ہیں اسے کس حد تک کامیابی سے لیکر چل سکیں گے کیونکہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور جے یوآئی ف کی صورت میں مضبوط اپوزیشن موجود ہے۔
سردار اختر مینگل کے حالیہ فیصلوں پر حیرت میں مبتلا افراد کو یہ یاد ہونا چاہیے کہ الیکشن سے قبل ایک تحریر میں یہ بات لکھ چکا ہوں کہ اب سردار اختر مینگل بند گلی میں نہیں جانا چاہتے اور بلوچستان حکومت کا حصہ نہ بننا انکا ایک بڑا فیصلہ ہے۔
اس سے بڑھ کر وہ خود جاکر قومی اسمبلی میں بلوچستان کی آواز اٹھائینگے اور اگر انکے چھ نکات پر عمل درآمد کا آغاز ہوتا ہے تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سے بڑی کامیابی انکے حصے میں آئیگی اور مستقبل کے سیاسی فیصلوں خاص کر بلوچستان صوبائی اسمبلی کے فیصلوں پر بھی سردار اختر مینگل کی مکمل گرفت ہوگی اور ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت وڈھ اور شوران کے سردار کے درمیان بہت سے معاملات پر خاموش اتفاق موجود ہے اور وہ فی الحال جام کمال کا راستہ نہیں روکنا چاہتے۔
دونوں اس بات سے واقف ہیں کہ کمزور حملے کی صورت میں نشانہ خطا ہوسکتا ہے اسلئے مکمل صف بندی کیلئے چھ مہینے سے ایک سال تیاری کی ضرورت ہے اور اس تیاری کیلئے حکمت عملی طے کی جارہی ہے ۔اب ان سرداروں کو موقع جام صاحب خود فراہم کرینگے یا پھر انکا حملہ اپنی تیاری سے ہوگا ۔
اس بات کا تعین بلوچستان کابینہ کی تشکیل سے ہوجائیگا اور اگر جام صاحب معاملات پر مکمل گرفت چاہتے ہیں تو انہیں ماضی کے وزراء اعلیٰ کے برعکس بولڈ فیصلے کرنے ہونگے اور ہر مصلحت سے بالائے طاق ہوکر اپنے منشور کے مطابق چلتے ہوئے صوبے میں گورننس کو بہتر کرنا ہوگا اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھانے ہونگے اگر وہ اسمیں کامیاب رہے تو فیصلہ ساز قوتیں انہیں موقع فراہم کرینگی کہ وہ بلوچستان کے حالات کی بہتری کیلئے اپنا مشن جاری رکھیں۔
ممکن ہے انکی کارکردگی کو بنیاد بنا کر عمران خان اور انکی جماعت سردار رند اور سردار اختر مینگل کو مجبور کریں کہ وہ جام صاحب کی رہنمائی کرتے رہیں لیکن اگر جام صاحب ابتداء میں کابینہ کی تشکیل کیلئے سرنڈر ہوئے تو جام صاحب کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ ماضی کے وزراء اعلیٰ سے مختلف نہیں ہوگا ۔