|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2018

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نومنتخب قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب میں 176 ووٹ لے کر ملک کے 22ویں وزیراعظم بن گئے ہیں۔عمران خان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے ارکان نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے عمران خان کی کامیابی کے اعلان کے ساتھ ہی ایوان میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کے درمیان نعرے بازی شروع ہوئی۔عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد شدید نعرے بازی میں ایوان سے خطاب میں قوم کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہوگا اور کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں اللہ کا سب سے پہلے شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے موقع دیاپاکستان میں تبدیلی لانے کا جس کے لیے یہ قوم 70سال سے انتظار کر رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے کڑا احتساب ہوگا ان سب کا جنہوں نے اس ملک کو لوٹا اور مقروض کیا، ہمارے بچوں کا مستقبل لوٹا،ایک ایک آدمی کو نہیں چھوڑوں گا۔22 سال کی جدوجہد کے بعد یہاں پہنچا ہوں ، نہ میرے والد سیاست میں تھے نہ مجھے کسی ملٹری ڈکٹیٹر نے پالا۔ 

عمران خان نے کہا کہ ہر مہینے دو مرتبہ ہاؤس میں آ کر سوالوں کے جواب دوں گا۔منتخب وزیراعظم نے کہا کہ جس طرح کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ تعاون کریں گے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم نے دھاندلی نہیں کی۔ کسی قسم کی بلیک میلنگ مجھ سے نہ کوئی آج تک کوئی کر سکا ہے نہ کر سکے گا۔

اپنے خطاب کے اختتام پر عمران خان نے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے پیغام دیا کہ وہ چاہیں تو دھرنا دے سکتے ہیں اس کے لیے کنٹینر وہ خود مہیا کریں گے۔

عمران خان کے بعد شہباز شریف نے بھی ایوان سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پارلیمانی کمیشن کے ذریعے دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔مسلم لیگ ن کے اراکین ڈائس اور عمران خان کی نشست کے سامنے جمع ہو کر ’ووٹ کو عزت دو‘ اور شہباز شریف کے حق میں نعرے لگاتے رہے جس کے جواب میں تحریک انصاف کے ارکان نے بھی وزیراعظم عمران خان کے حق میں نعرے لگائے۔

انتخاب کے بعد قائد ایوان ہفتہ کو ایوان صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے جہاں صدر مملکت ممنون حسین ان سے حلف لیں گے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جمہوری انداز میں نئے وزیراعظم کے منتخب ہونے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آجائے گا اور دنیا میں جو تاثر ہمارے ملک کے متعلق پایاجاتا ہے وہ زائل ہوجائے گا۔ 

اب یہ نئی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اندرونی وخارجہ پالیسیوں کے ذریعے ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔مرکزی حکومت پر ایک اور بڑی ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ گزشتہ ستر سالوں سے جو شکایات چھوٹے صوبوں کو وفاقی حکومتوں سے رہا ہے، چاہے وہ پی ایس ڈی پی کا معاملہ ہو یا دیگر ترقیاتی اسکیمیں جن کے صرف دعوے اور اعلانات کئے گئے مگر عملی طور پر ان پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔

پی ٹی آئی کی حکومت ان شکایات کا ازالہ کرے گی ،صوبوں اور وفاق کے درمیان بہترین ریلیشن شپ کو فروغ دیا جائے گا،صوبوں سے متعلق پالیسیوں میں صوبوں کے نمائندوں سے بھی مشاورت کی جائے گی اور انہیں فیصلوں میں شامل کیا جائے گاتاکہ وفاق صرف پنجاب کا نمائندہ نہ لگے، دیگر صوبوں کو بھی ان کے ہونے کا احساس ہوسکے، عمران خان سے بجا طور پر یہ امید رکھی جاسکتی ہے ۔