|

وقتِ اشاعت :   September 5 – 2018

ایک بلوچی کہاوت ہے کہ ” تانکہ راست پدّر ببیت ، دروگ جاگہہ سوچیت” ۔ “جب تک سچ خود کو آشکار کرے تب تک جھوٹ جگہے کو جلا دیتی ہے”. بلوچ کے سیاق و سباق میں یہ سرگرمیاں اتنے بڑے پیمانے پر جاری رہی ہیں کہ کئی مخلص سیاسی کارکن ان جھوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد نیشنل عوامی پارٹی نیپ کے رہنما میر غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری بلوچ قومی جدوجہد کے سرخیل کی صورت میں سامنے آئے۔ اپنے مستقل اور بے لوث کوششوں کی بنیاد پر وہ نہ صرف بلوچستان کی عوام کے درمیان عقیدت مندانہ عزت و ستائش حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بلکہ پاکستان بھر میں موجود دیگر مظلوم اکائیوں کے لئے بھی امید کی کرن بن کر سامنے آئے جسے زائل کرنے کے لیے وقتاً فوقتاًان کی کردار کشی کا سلسلہ بھی جاری کردیا گیا ۔

سرکاری میڈیا میں انہیں سردار تو کبھی جابر بتایا گیا، انکی ترقی پسندانہ موقف کو اسلام مخالف اور ریاست مخالف گردانا گیا۔ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) جو نیپ کی حمایت میں سب سے زیادہ سرگرم تنظیم تھی اسے دو دھڑوں میں تقسیم کیا گیا اور بی ایس او ۔اینٹی سردار کے نام سے بنے دھڑے کی سرپرستی کی گئی جسکا مقصد خاص ان بلوچ رہنماؤں اور قومی ظلم و جبر کے خلاف ان کی جدوجہد کی بابت غلط معلومات پھیلانا تھا۔ اور یہ سلسلہ کچھ نئے انداز سے اب بھی جاری ہے۔

بلاحیرت حالیہ ایک من گھڑت جھوٹ کو سوشل میڈیا میں ہوا دی گئی اسکے علاوہ چند بلوچ سیاسی حلقوں میں بزنجو صاحب پر یہ الزام دھرا گیا کہ وہ بلوچی زبان کی فروغ کے مخالف تھے. یہ الزامات نیپ کی بلوچستان میں قائم ہونے والی نو ماہ پر محیط حکومت کی اردو کو بحیثیت آفیشل زبان اعلان کرنے کے حوالے سے سامنے آئے ہیں۔

سچ کا ادراک کرنے کے لیے، تاریخی سیاق و سباق اور اس وقت کے حالات کے تناظر کو نظر انداز کرنے کی بجائے انکا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے. نو ماہ کی نیپ حکومت کو مختلف اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا تھا جو اسکی کارگردگی کی راہ میں حائل تھیں۔ 

نیپ کی لیڈرشپ کو صوبے کے لیے آفیشل زبان کے چناؤ کا سوال درپیش تھا۔ اس وقت کی مروجہ حالات کے مطابق اردو زبان کا دفتری امور کے لئے انتخاب زیادہ موزوں تھا. اس بات کو بھی سامنے رکھتے ہوئے کہ اس وقت بلوچستان کی آبادی کا ایک نہایت ہی چھوٹا سا حصہ بلوچی زبان میں پڑھنا اور لکھنا جانتا تھا اور بلوچی زبان کی نشوونما اس حدتک نہیں ہوئی تھی کہ اسے حکومتی معاملات چلانے کے لیے موزوں سمجھا جائے۔ 

لہٰذا اردو کا آفیشل زبان کی حیثیت سے استعمال کا انتخاب کیا گیا اور حتی الامکان کوشش کی گئی کہ بلوچی زبان کو قابل استعمال شکل دی جا سکے۔اس سلسلے میں صوبائی حکومت کی جانب سے ایک کانفرنس منعقد کرنے کا فوری اقدام کیا گیا تاکہ بلوچی زبان کے حوالے سے ایک عمل پذیر رسم الخط پر ادبی شخصیات کے مابین اتفاق رائے قائم ہو سکے۔ اسٹیبلشمنٹ کو یہ ہضم نہیں ہو پایا اور کانفرنس کی کاروائی میں خلل ڈالنے کے لیے ان کے خدمت گزاروں کی جانب سے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے۔

یہ جاننا دلچسپ ہے کہ مذکورہ کانفرنس میں تجویز سامنے آئی کہ بلوچی زبان کی ترقی کے لئے رومن رسم الخط کا استعمال ممکن بنایا جائے. بلوچی زبان کی جلد فروغ کے لیے یہ ضروری محسوس کیا گیا کیونکہ رومن حروف تہجی سیکھنے میں آسان ہے اور بلوچی زبان کی مختلف بولیوں کی لکھائی کی صورت میں اظہار آسان ہے۔

کانفرنس میں شامل ایک مخصوص حصہ جسے اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ آشیرباد حاصل تھی عربی حروف تہجی کے استعمال پر بضد تھی اور انکا ماننا تھا کہ یہ آبائی ہے اور اسے تبدیل کرنے کا کوئی بھی اقدام اسلام مخالف ہے. انکے انتشاری رویے کے سبب کانفرنس کی کاروائی جاری نہیں رہ پائی اور سرکاری طور پر بلوچی زبان کی ترقی کا عمل آگے نہیں بڑھ پایا۔ 

خفیہ قوتوں کی رکاوٹوں کی وجہ سے یہ کام مکمل نہیں ہو پایا۔نیپ کی لیڈرشپ کی جانب سے دفتری امور کے لیے اردو زبان کا چناؤ وقت و حالات کی ضروریات کے عین مطابق تھا. اور یہ نیپ کے رہنماؤں کا مشترکہ فیصلہ تھا جس میں میر غوث بخش بزنجو گورنر، سردار عطااللہ مینگل وزیر اعلیٰ، نواب خیر بخش مری نیپ بلوچستان کے صوبائی صدر اور میر گل خان نصیر وزیر تعلیم شامل تھے۔ 

جو لوگ سوشل میڈیا یا کہیں اور ہتک آمیز سرگرمیوں میں ملوث ہیں انہیں تمام بلوچ لیڈرشپ کا یکساں بنیادوں پر احتساب کرنے کی جرات ہونی چاہیے، انکے عمل کو منظور یا اسکی مذمت کرنی چاہیے نہ کہ محض ماضی کی بلوچ قیادت (جس سے بلوچوں کی موجودہ نسل انسپائریشن حاصل کر رہی ہے) کے خلاف بد گمانی پھیلائی جائے ۔ 

اس کاسب سے بڑا نقصان بلوچوں کا ہی ہوگا ۔تنقید اپنی حقیقی روح کے مطابق، اقدام، حکمت عملی یا فن پاروں کی خصوصیات اور خامیوں کے علاوہ ان حالات اور وقت کے تقاضوں کا بھی تفصیلی جائزہ لینے کا نام ہے جس دوران انہیں وضع کیا گیا تھا. حکمت عملی بے فائدہ ثابت ہو سکتی ہے یا ان پر عمل درآمد کا عمل غلط ہو سکتا ہے۔

لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ حکمت عملی بنانے والے کے ارادوں کا عکاس ہو یا کسی کی وفاداری کا فیصلہ اسکی بنیاد پر کیا جائے. وقت کی ضرورت ہے کہ بلوچ سیاسی اور سماجی کارکنان تنقیدی سوچ کی روح کو سمجھیں اور اس بنیادوں پر چیزوں کو پرکھیں۔ 

تفصیلات کا جائزہ لینے کے لیے ایک محتاط نقطہ نظر کی ضرورت ہے بجائے اس کے کہ انہیں ظاہری وجود سے ہی قبول کر لیا جائے۔ ٹھیک ایسے ہی جیسے ہم اپنے ذاتی و قومی مفادات کے معاملات میں محتاط نقطہ نظر اپناتے ہیں۔

غیر واضح نقطہ نظر موضوع کے غلط تجزیہ کی طرف لے جاتا ہے جس کی بنیاد پر اٹھائے گئے فیصلے منفی نتائج مرتب کرتے ہیں ۔جس طرح سے جوزف مزینی مشاہدہ کرتے ہیں کہ، ” آپ اسلئے مجرم نہیں ٹھہرتے کہ آپ جاہل ہیں بلکہ تب جب آپ خود کو جہالت کے سپرد کر دیتے ہیں”۔ 

(مصنّف برطانیہ میں مقیم سماجی و سیاسی ایکٹیوسٹ ہیں جن کا تعلق پنجگور بلوچستان سے ہے، وہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، بیوٹمز اور بلوچ اسٹوڈنٹس اینڈ یوتھ ایسوسی ایشن یوکے کے سابق چیئرمین ہیں)